Source: https://www.bbc.com/urdu/world-46330571
پہلی جنگِ عظیم کا آخری محاذ
یورپ میں دو ہفتے قبل پہلی جنگِ عظیم کے اختتام کی 100ویں برسی کے سلسلے میں تقریبات ہوئیں مگر افریقہ میں ایسی ہی تقریبات اب منائی جا رہی ہیں۔ اینڈریو ہارڈنگ نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس تاخیر کی وجہ کیا ہے۔
’یہ کوئی سائیڈ شو نہیں تھا۔ یہ جنگِ عظیم کا ایک اہم محاذ تھا اور اس کا طویل ترین محاذ تھا۔‘ یہ الفاظ ہیں کینیائی تاریخ دان جیمز ولسن کے جو کہ ایک گاؤں وئی کی کامن ویلتھ سیمیٹری میں ایک چھوٹی سی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔
اس تقریب میں کینیائی آرمی کا ایک بیوگلر دی لاسٹ پوسٹ نامی نغمہ بجا رہا ہے اور دوسری جانب برطانوی اور جرمن سفارتکار موجود ہیں۔ ایک کینیائی جنرل اور تھوڑے سے مقامی اور بین الاقوامی سیاح آئے ہیں اور پھول چڑھائے ہیں۔
یہ اس اختتامِ ہفتہ کی تقریبات کا آغاز ہے۔
اس ملک میں جہاں کئی لوگوں کو اس 100ویں برسی کا پتہ بھی ہوگا، ایک وقت ایسا بھی تھا جب یہی جنگ اور اس سے منسلک واقعات شاید ہر گھر یا فیملی پر اثر انداز ہو رہے تھے۔
ایک مقامی ہوٹل کے مالک اور ٹوئر گائیڈ ویلی موادیلو کہتے ہیں ’میرا نہیں خیال کہ ہمیں وہ شناخت ملی ہے جو دوسرے فوجیوں کو ملتی ہے۔ اگر آپ جنگی قبروں پر جائیں گے تو آپ کو جرمن قبروں پر سالِ پیدائش اور سالِ وفات سب ملے گا جبکہ مقامی قبروں پر ایسا کچھ نہیں ہوگا۔‘
’اس علاقے میں 1916 میں بالغ عمر کے تقریباً 75 فیصد مرد کسی نہ کسی قسم کی عسکری کارروائی میں ملوث تھے۔ آج عوام ان کو بھول گئی ہے اور یہ شرم کی بات ہے۔‘
’25 ممالک نے مشرقی افریقہ میں فوجی اور قلی بھیجے۔ کینیا کے تقریباً دس لاکھ لوگ یا تو کیریئر کور یا کنگز افریقن رائفلز میں تھے۔ یہ تقریباً کل آبادی کا ایک چوتھائی تھا۔‘
کینیا میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا پتا نہیں ہے۔
تقریباً 60 ہزار فوجیوں (جن میں زیادہ تر غیر ملکی فوجی تھے) کی قبروں کے تو نشانات ہیں۔ مگر خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ افریقی برطانوی فوجیوں کا ساز و سامان اٹھا کر طویل فاصلوں پر ایک جگہ سے دوسری لے جاتے بھوک، بیماری، اور دیگر مسائل کی وجہ سے مر گئے۔
یہی وہ طویل فاصلے ہیں اور مشرقی افریقی محاذ کی نوعیت ہے جو ان تقریبات میں دو ہفتے تاخیر کی وجہ ہیں۔
11 نومبر 1918 کو جرمنی نے امن معاہدے پر دستخط کرنے کی حامی بھر لی تھی مگر یہ خبر دور دراز محاذوں پر لڑتی افریقی فورسز تک پہنچنے میں وقت لگا۔
اسی لیے وہاں موجود جرمن اور برطانوی کمانڈرز کو پھر امن معاہدے کی تقریب کے لیے اپنے پرٹوکولز بنانے پڑے۔
نوجوان جرمن کسان فیلکس ہیگنڈورن اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ کینیا ان تقریبات میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’میرے پڑدادا ایک روایتی کلونیئل افسر تھے۔‘
فیلکس ذکر کر رہے ہیں جنرل پال وان لیٹووربک کا، جو کہ ایک معروف جرمن کمانڈر تھے۔ انھیں لائن آف افریقہ یعنی افریقہ کے شیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ان کے مخالف فوجیوں کی تعداد ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی اور یورپ سے ان کے پاس ساز و سامان بھی نہیں پہنچ رہا تھا۔ اسی لیے انھوں نے گوریلا حکمتِ عملی اپنا لی یعنی حملہ کرنا اور پھر چھپ جانا۔ جنگ کے آخری سالوں میں وہ برطانوی اور پرتگالی رسد پر زندہ رہے، ان کا ساز و سامان چوری کر کے گزارا کرتے رہے۔
اس جرمن حکمتِ عملی کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ اور اس کے اتحادی فرانس کے محاذ سے فوجی اور سامان منتقل کر کے دوسری جگہوں پر لے جائیں۔
جنرل پال وان لیٹووربک کو شکست نہیں ہوئی اور جب بات امن معاہدے کی آئی تو وہ چاہتے تھے کہ اس بات کا اعتراف کیا جائے۔ اسی لیے برطانیہ نے اس بات کو مان لیا کہ جیسے ہی جنرل اور ان کے افسران نے علامتی طور پر اپنے ہتھیار برطانوی فوجیوں کو دیے تو وہ چند لمحے بعد ہی لوٹا دیے گئے۔
فیلکس بتاتے ہیں کہ ’لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جرمن فوجیوں کے پاس اس وقت جتنے ہتھیار تھے وہ تقریباً سارے برطانوی فوجیوں سے چرائے گئے تھے۔ آخرکار پرتگالی بندوقوں کے تبادلے پر معاملہ طے پایا۔‘
آج گاؤں وئی کے گرد ان شاندار پہاڑوں اور سرسبز میدانوں میں شیروں کی ٹولی تو مل سکتی ہے مگر جنگ کی یادگاریں نہیں۔
مگر ٹوئر گائیڈ ویلی موادیلو گھاس میں پنہاں ایک زنگ آلودہ ریلوے پٹڑی کی جلدی سے نشاندہی کرتے ہیں اور کبھی کبھی سیاحوں کو پکٹ ہِل لے کر جاتے ہیں جہاں سے کوہ کلیمنجارو اور تنزانیہ کے بہترین عکس نظر آتے ہیں۔ وہاں ایک صدی پرانا برطانوی قلعہ بھی ہے جس کی دیواروں کی سو سال پرانی گرافیٹی آج تک نظر آرہی ہے۔