Monday, 31 July 2017

FAITH: FOLLOWERS ARE MORE EMOTIONAL AND LESS ANALYTICAL - STUDY RESULTS

ACTION RESEARCH FORUM; FAITH ORIENTED CULTS IGNORE RATIONALITY, WHILE NATURE EVOLUTION IS BASED ON LAWS OF NATURE, WHICH ARE OFTEN NOT GOVERNED BY LAWS OF FAITH. DUE TO PREVAILED PRIMITIVENESS OF FEUDALISM, WHICH CONTROLS HUMAN REACTION SIM EXTENT CONFRONTING ARGUMENT'S DIS LIKENESS. THE 3RD WORLD FAITH HEGEMONY ARE MORE VIOLENT TO DISAGREEMENTS.  



Source: https://arynews.tv/en/religious-people-less-analytical-study/
LIFESTYLE

Religious people are more emotional, less analytical – study claims

religious study


Religious people views are driven by ‘emotional resonance’ that makes them cling to their views, even if they are wrong, a new study has claimed.
The study was published in the Journal of Religion and Health, and consisted of 209 Christians, 152 non-religious, nine Jewish, five Buddhist, four Hindu, one Muslim, and 24 ‘other’ religions.
The groups all completed tests for dogmatism, empathetic and moral concerns, and a test of their analytical reasoning.
Overall the study, published in the Daily Mail, found that religious participants showed dogmatism and empathetic concern, while non-religious persons had better analytical reasoning skills
Jared Friedman, one of the paper’s co-authors explained:
It suggests that religious individuals may cling to certain beliefs, especially those which seem at odds with analytic reasoning, because those beliefs resonate with their moral sentiments
Analysis vs Empathy – the two track mind
According to research from scientists at Case Western Reserve University, Ohio, the brain works on two tracks – empathetic and analytical.
People generally switch between the two, depending on the situation at hand.
The research found that in the minds of religious people the empathetic side dominates, and the same applies for the analytic track in the minds of atheists.
Co-author of the paper, associate professor Anthony Jack wrote: “Emotional resonance helps religious people to feel more certain – the more moral correctness they see in something, the more it affirms their thinking.”
In contrast, moral concerns make nonreligious people feel less certain.
It’s also possible that this dichotomy between religious and non-religious brains, also exists between other strongly held beliefs such as veganism, climate change, or political opinions.
Jack also related the emotional and empathetic track to people’s responses to fake news and current events in the US administration.
With all this talk about fake news, the Trump administration, by emotionally resonating with people, appeals to members of its base while ignoring facts.
The more dogmatic a participant was, the less analytical they were, even if that dogma was militant atheism. They were also less likely to understand things from the perspective of another.
The study did find that there were similarities between the two extremes on the spectrum of religious and non-religious.



*************         

Sunday, 30 July 2017

SRI-LANKA: CHINA DEVELOPING DEAP SEA ON WORLD TRADE ROUTES


ACTION RESERACH FORUM: PEACE BY WORLD TRADE AS PARTNERSHIP


Source:http://www.bbc.com/urdu/regional-40763956



سری لنکن کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ چین کے حوالے

چین سری لنکاتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
سری لنکا کی حکومت نے ہنبنٹوٹا کی بندرگاہ کو ایک ارب ڈالر کے عوض ایک چینی کمپنی کو ننانوے سال کی لیز پر دینے کا معاہدہ کر لیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت اور امریکہ نے سری لنکا کو گہرے پانیوں کی اس بندرگاہ کو چینی کمپنی کے حوالے کرنے پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔
سری لنکا کے وزیرِ پورٹ مہندا سماراسنگھے نے ہنبنٹوٹا کی مصروف بندرگاہ کو چینی کمپنی چائنا مرچنٹ پورٹ ہولڈنگز کو بیچنے کی تصدیق کی ہے۔ اس معاہدے کے تحت چین کی سرکاری کمپنی نے ستر فیصد شیئر خرید لیے ہیں۔
دارالحکومت کولمبو سے 240 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ساحلی شہر ہمبنٹوٹا میں بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنے پر سری لنکا میں احتجاج ہوتا رہا تھا۔ حکومت نے لوگوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے سخت قوانین کا استعمال کیا۔
سری لنکا کے وزیر نے معاہدے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سری لنکا نے اس منصوبے سے متعلق تمام خدشات کو دور کر دیا ہے اور اس پورٹ کو سری لنکا کے قوانین کے تحت ہی چلایا جائے گا۔
سری لنکا کے کئی پڑوسی ممالک اور کچھ عالمی طاقتوں نے ایسے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ چین اس بندرگاہ کو بحیرہ ہند میں اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔ سری لنکا کے وزیر نے واضح کیا کہ ان کا ملک کسی ملک کا فوجی اڈا نہیں بنے گا۔
اس پورٹ کے قریبی علاقے میں ایک صنعتی زون میں بنایا جائے گا جہاں چینی کمپنیوں کو فیکٹریاں تعمیر کرنے کی دعوت دی جائے گی۔
چین سری لنکا میں سنہ 2009 میں 26 سالہ خانہ جنگی کے اختتام کے بعد تعمیراتی منصوبوں میں کروڑوں ڈالر خرچ کرچکا ہے۔
ماہرین کے مطابق چین کی یہ سرمایہ کاری تیل کی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کی جانب 'میری ٹائم سلک روٹ' کا حصہ ہے۔
ہنبنٹوٹا کی گہرے پانیوں کی بندرہ گاہ میں بڑی بحری جہازوں کو لایا جا سکتا ہے۔ چین کے نائب صدر ہو یوناؤ نے کہا کہ چینی کمپنی ہنبنٹوٹا کی بندرہ گاہ جنوبی ایشیا اور افریقہ کی معیشیت کے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر ستکی ہے۔


*** 

PAKISTAN: APPREHENSIONS OF PANAMA CASE TO JUDICARY


ACTION RESEARCH FORUM: INSIGHTOF JUDICIAL STRENGTH OF PAKISTAN 

Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40768722


پاناما کیس میں عدالت کو کیا خدشہ تھا؟

مسلم لیگ نواز کے کاکنتصویر کے کاپی رائٹARIF ALI
Image captionنواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے پر ان کا کارکنوں نے احتجاج کیا
پاکستان کے اب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے لکھا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ ایسا فیصلہ دیں جسے بنیاد بنا کر دوسرے ادارے اور ماتحت عدلیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا شروع کر دیں۔
سپریم کورٹ سے درخواستگزاروں نے، جن میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید شامل تھے، استدعا کی تھی کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن کے الزامات میں آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دیا جائے۔
پانچ رکنی بینچ نے اپنے دونوں فیصلوں، پہلے خصوصی تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے تحقیقات کا حکم دینے والے فیصلے اور پھر 28 جولائی کے فیصلے، میں کئی بار اس سوال کا جائزہ لیا کہ کیا وہ خود آئین میں دیے گئے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف لگائے گئے کرپشن کے الزامات پر حتمی فیصلہ دیتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دے سکتے ہیں یا نہیں۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 28 جولائی کے فیصلے میں لکھا کہ اب تک عدالت کے سامنے جو مواد پیش کیا گیا ہے اس کے بغور جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بادی النظر میں اب سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز شریف، بیٹوں حسن اور حسین نواز شریف کے خلاف 16 اثاثوں سے متعلق مقدمہ چلنا چاہیے۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم کے سمدھی اسحاق ڈار کے بارے میں بھی یہی بات کی، جن کی جائیداد میں، عدالت نے نوٹ کیا بہت ہی کم وقت میں 91 فیصد (نو اعشاریہ گیارہ ملین سے آٹھ سو اکتیس اعشاریہ ستر ملین) اضافہ ہوا۔
’ایسی صورت میں کیا کیا جائے‘ اس بات کا جواب عدالت نے کہا کہ وہ اپنے 20 اپریل والے فیصلے میں دے چکی ہے۔
عدالت نے اس پرانے نوٹ کا حوالہ دیا جس میں اس نے لکھا تھا کہ 'کسی سرکاری عہدہ رکھنے والے شخص کے خلاف اس قانون کے تحت الزامات کی صورت میں تفتیش اور شواہد کا اکٹھا کرنا ضروری ہو جاتا ہے جن سے ثابت ہو کہ اس کے اہل خانہ یا بینامی داروں کی ملکیت، قبضے میں ایسے اثاثے ہیں یا انہوں نے حاصل کر لیے ہیں جو اس شخص کی آمدن کے معلوم ذرائع سے زیادہ ہیں۔ اس تفتیش کے بعد ان الزامات کی حقیقیت معلوم کرنے کے لیے احتساب عدالت میں مکمل ٹرائل کیا جانا چاہیے۔'
'لیکن' عدالت نے 20 اپریل کے فیصلے میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھا 'جہاں نہ ہی کسی تفتیشی ایجنسی نے تفتیش کی ہو، نہ ہی کسی احتساب عدالت میں گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے ہوں اور نہ ہی ان پر جرح کی گئی ہو، نہ ہی مقدمے کی دستاویزات قانون شہادت کے تقاضوں کے مطابق پیش اور ثابت کی گئی ہوں اور نہ ہی کسی زبانی گواہی اور دستاویزات کی چھانٹی کی گئی ہو۔'
'ایسی صورت میں' سپریم کورٹ نے لکھا کہ 'یہ عدالت آئین کی شق ایک سو چوراسی (تین) کے تحت ایسے ریکارڈ کی بنیاد پر کسی سرکاری عہدہ رکھنے والے شخص کو نا اہل قرار نہیں دے سکتی'۔
فیصلے کے بعد عمران خان پریس کانفرنس کر رہے ہیںتصویر کے کاپی رائٹAAMIR QURESHI
Image captionعمران خان اور دیگر درخواستگزاروں کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو کرپشن کے الزامات میں نااہل قرار دیا جائے
جسٹس اعجاز افضل خان، جنہوں نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے 28 جولائی کا فیصلہ تحریر کیا، لکھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تفتیش، ٹرائل اور اپیل کے تمام مراحل سے گزرنا چاہیے اور ایسا نہ کرنا آئین کی ان شقوں کی خلاف ورزی ہو گی جس کے تحت ہر شہری کو یہ ضمانت حاصل ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے لکھا کہ بینچ کے دیگر ارکان جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالحسن نے اپنے اپنے نوٹ میں ایسی ہی رائے دی تھی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اٹھائیس جولائی کو متفقہ طور پر سابق وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے والے فیصلے میں لکھا کہ 'طے شدہ طریقہ کار سے ہٹنا افراتفری کا پیش خیمہ ہو گا۔' عدالت سے بارہا درخواست کی گئی کہ وہ اپنے سامنے پیش کیے گئے شواہد کی بنیاد پر مدعہ الیہان کے خلاف الزامات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ سنا دے جبکہ دوسری طرف سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹرائل کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں اور یہ کام اسے ٹرائل کورٹ کے ذمے سونپنا چاہیے۔
عدالت نے لکھا کہ اگر وہ اپنی حدود سے تجاوز کریں تو کل کو 'احتساب عدالت بھی آئین کی شق ایک سو چوراسی کے اختیارات استعمال کر سکتی ہے اور کوئی بے صبر تفتیشی افسر خود ہی یہ سوچتے ہوئے کہ ٹرائل سے تو فیصلے میں تاخیر یا ناانصافی بھی ہو سکتی ہے، کسی کے مجرم ہونے کا فیصلہ کر کے اس کی جان لے سکتا ہے۔'
سپریم کورٹ نے لکھا تھا کہ اگر عدالتیں طے شدہ طریقۂ کار سے انحراف کریں اور قیاس آرائیوں اور مفروضوں کی بنیاد پر فیصلہ دیں، چاہے وہ کتنا ہی نیک نیتی پر مبنی کیوں نہ ہو، تو وہ معاشرے کے لیے تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
عدالت نے لکھا کہ مسئلے کا حل آسان راستہ تلاش کرنا نہیں بلکہ آئین کی شق ایک سو نوے کا استعمال کرتے ہوئے اداروں کو متحرک کرنا ہے۔
پی ٹی آئی میں حال ہی میں شامل ہونے والی رہنم فردوس عاشق اعوانتصویر کے کاپی رائٹAAMIR QURESHI
Image captionفیصلے آنے کے بعد پی ٹی آئئ کے حامیوں نے مٹھائی تقسیم کی
جسٹس عظمت سعید نے 20 اپریل کے اپنے فیصلے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ہم صرف اس لیے معمول سے ہٹتے ہوئے قانون کے طے شدہ طریقۂ کار سے انحراف نہیں کر سکتے اور نہ ہی نئے ضوابط بنا سکتے ہیں کہ مدعہ علیہ وزیر اعظم کا عہدہ رکھتے ہیں۔ 'آخری بار جب ہم نے اپنی قانونی تاریخ میں ایسا کیا تھا، اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے تھے۔'
یاد رہے کہ عدالت نے کرپشن کے معاملات میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے خیال میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے، جس کے بعد عدالت نے نیب کی عدالت میں مختلف ریفرینس دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کیسے ہوئی؟
عدالت نے جمعہ 28 جولائی کو اپنے متفقہ فیصلے میں لکھا کہ 'میاں محمد نواز شریف عوامی نمائندگی کے قانون (روپا) کے سیکشن ننانوے ایف اور انیس سو تہتر کے آئین کی شق باسٹھ (ایک) (ف) کے تحت صادق نہیں اس لیے انہیں مجلس شوریٰ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔'
نواز شریف پر الزام تھا کہ کپیٹلل ایف زیڈ ای کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی تنخواہ مقرر ہوئی تھی جس کا انہوں نے سنہ 2013 کے انتخابات کے وقت کاغدات نامزدگی میں ذکر نہیں کیا۔ نواز شریف کی طرف سے جواب دیا گیا کہ انہوں نے وہ تنخواہ کبھی وصول نہیں کی تھی اس لیے اس کا اثاثوں میں ذکر نہیں کیا گیا۔ عدالت اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور انہیں ناہل قرار دے دیا گیا۔

اسی بارے میں

***