Source: https://www.bbc.com/urdu/world-45538873
ازبکستان: ہزاروں مزاروں کی سرزمین
ازبکستان دنیا بھر کے زائرین کا مرکز بننے کا آرزومند رہا ہے۔ وہ دوسرا مکہ بننا چاہتا ہے۔
وسط ایشیا کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں شاہراہ ریشم پر آباد سمرقند اور بخارا جیسے شہروں میں بڑی بڑی مساجد اور مقبرے ہیں جو انتہائی اچھے حال میں ہیں۔
لاکھوں ازبک باشندوں کے لیے یہ مقدس مقامات ہیں جبکہ دہائیوں کی تنہائی اور مطلق العنان دور سے باہر آنے کے بعد وہاں کی حکومت کے لیے یہ تاریخی وراثت سیاحت کو فروغ دینے کا بڑا موقع فراہم کرتی ہے۔
سمرقند میں درجنوں خوبصورت مزار ہیں جن میں بادشاہ تیمور لنگ، ماہر فلکیات الغ بیگ اور قثم ابن عباس شامل ہیں۔ قثم جنھیں ازبکستان میں زندہ پیر کے نام سے جانا جاتا ہے وہ حضرت محمد کے چچازاد بھائی عباس کے بیٹے تھے اور اس علاقے میں انھوں نے ہی پہلے پہل اسلام سے لوگوں کو متعارف کرایا۔
یہ ایک مزار ایسا ہے جو دوسروں سے یکسر مختلف ہے۔ ہر صبح سنکڑوں افراد شہر کے باہر پہاڑی پر موجود عجیب طرز تعمیر کے مزار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ یہ مزار پستے اور خوبانی کے درختوں کے درمیان پرانے شہر میں موجود ہے۔
یہاں کی فضا میں چڑیوں کی چہچہاہٹ اور دعا و مناجات کی آوازیں گونجتی ہیں۔ یہاں آنے والے زائرین اہل خانہ کے ساتھ بینچوں پر کھاتے پیتے نظر آتے ہیں جبکہ نوجوان اس کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
یہاں آنے والے زائرین میں صرف مسلمان شامل نہیں ہیں کیونکہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پیغمبر حضرت دانیال یا دانیار کا مزار ہے۔ مقامی زبان میں انھیں دانیار کہا جاتا ہے۔
فردوسی نامی ایک نوجوان گائڈ بتاتے ہیں کہ کہ 'مسلم، یہودی اور مسیحی سب یہاں آتے ہیں اور اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ سینٹ دانیال یہودی تھے لیکن مسلمان انھیں اللہ کا پیغمبر مانتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔'
دلرابو نامی ایک خاتون کہتی ہیں: 'میں اکثر یہاں آتی ہوں اور ان کی روح کے لیے ایصال ثواب کرتی ہوں۔ وہ صرف یہودیوں کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ساری انسانیت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان سے عقیدت کے لیے میں نے اپنے پوتے کا نام دانیار رکھا ہے۔'
دلرابو اپنی بیٹی ستورا اور پوتی کے ساتھ آئی ہیں۔ نماز کے بعد وہ قبر کی زیارت کے لیے قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ غیرمعمولی عمارت 20 میٹر سے زیادہ لمبی ہے اور عہد وسطی کے اسلامی طرز میں سینڈ کلر اینٹوں سے بنائی گئی ہے۔ اس میں محراب و گنبد بھی ہیں۔
مزار یا مقبرے میں 18 میٹر لمبی قبر یا تابوت ہے جو گہرے سبز مخمل کے کپڑے سے ڈھکی ہے اور اس پر قرآن کی آیتیں سونے کے حروف میں لکھی ہیں۔
یہ دنیا میں ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ عبادت کرتے ہیں۔
اسرائیل سے آنے والی سیاح سوزانے کہتی ہیں: 'میں یہودن ہوں اور میں چاہوں تو میں یہاں عبادت کر سکتی ہوں اسی طرح مسیحی بھی یہاں عبادت کر سکتے ہیں۔ یہ ازبیک کی رواداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ جگہ لوگوں کو جوڑتی ہے۔'
ماسکو سے آنے والی کرسٹینا کہتی ہیں کہ ان کے دوست روس سے یہاں آئے کہ انھیں شفا نصیب ہو۔ 'اور اب وہ صحت مند ہیں۔'
ازبکستان میں جادو ٹونے اور بزرگوں کی مزاروں یا مقدس مقامات پر مرادیں پوری ہونے اور صحت یاب ہونے پر قدیم زمانے سے یقین پایا جاتا ہے۔ اور ان مقامات کی زیارت کا سلسلہ شمن، بدھ مت اور آتش پرست زرتشتوں کے زمانے سے جاری ہے۔
یہاں تک کہ 1200 سال سے زیادہ عرصے تک اسلام کی موجودگی بھی یہاں کے لوگوں کے ان عقائد میں تبدیلی نہیں لا سکی۔ اس لیے جائے حیرت نہیں کہ حضرت دانیال کے مقبرے کے ساتھ بھی مختلف کہانیاں گردش کرتی ہوں۔
آخر حضرت دانیال کی قبر 18 میلٹر لمبی کیوں ہے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بہت لمبے تھے جبکہ بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ ہر سال ان کی قبر از خود لمبی ہوتی جا رہی ہے۔
ازبکستان میں سینکڑوں مزارات ہیں جن میں سے بہت سوں کو سویت دور میں یا تو بند کر دیا گیا تھا یا پھر بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
ایک مدرسے کے سابق طالب علم خورشید یلدوشیو کہتے ہیں: 'وسط ایشیا میں اسلام بہت روادار ہے، سب کو سما لینے والا اور مقامی روایت سے ہم آہنگ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں مذہب کو روادار کہا جاتا ہے۔ مزاروں پر حاضری دینا ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے اور سیاسی اسلام سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مقامات پرامن ہیں۔'
ازبکستان کی حکومت ایک عرصے سے سیاسی اسلام سے خائف رہی ہے۔ اسلام کریموف کے 26 سالہ آمرانہ دور میں ہزاروں مسلمانوں کو قید ہوئی تھی۔
اب ازبکستان بدل رہا ہے۔ رواں صدر شوکت مرزایوف نے مزید مذہبی آزادی کا وعدہ کیا ہے۔ وہ کریموف کی موت کے بعد صدر بنے تھے۔
دارالحکومت تاشقند میں تازہ قائم کردہ اسلامی ثقافتی مرکز کے سربراہ شوازم مینوواروف کا کہنا ہے کہ 'حکومت ان لوگوں کو رہا کر رہی ہے جنھیں واقعی میں اپنے کیے پر افسوس ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ لادین سویت یونین میں رہنے والوں میں کمیونزم کے خاتمے پر علم اور سمجھ کی کمی تھی۔
نوے کی دہائی میں سنیکڑوں مایوس نوجوانوں نے طالبان اور القاعدہ جیسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی۔اب حکومت کا خیال ہے کہ مقامی روایات سے ہم آہنگی سخت گیری کو جواب دے گی۔
مینوواروف نے کہا: 'سخت گیری لاعلمی کا نتیجہ تھا اور ہم اپنے لوگوں کو روشن خیالی والے اسلام پڑھانا چاہتے ہیں۔'
کسی کو یہ علم نہیں کہ ازبکستان میں کتنے مزار ہیں۔ بعض حکام ان کی تعدا 2000 بتاتے ہیں۔ اور یہ وہ دولت ہے جس سے حکومت اپنی سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے۔
ازبکستان کی ٹورزم کمیٹی کے نائب سربراہ عبدالعزیز عقولوف کہتے ہیں کہ گذشتہ سال تقریبا نوے لاکھ ازبیک باشندوں نے زیارت کی۔
بیرونی زائرین کی تعداد ابھی کم ہے۔ ایک سال میں تقریبا 20 لاکھ زائرین آئے لیکن اب ازبکستان نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں کھول دی ہیں اور دوسرے ممالک کے لیے ویزے کے قانون میں نرمی لائی گئی ہے۔
عقولوف کہتے ہیں کہ دنیا کے معروف عالم امام بخاری یا بہاء الدین نقش بندی ازبکستان میں دفن ہیں۔ یہاں انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی اور ہندوستان سے لاکھوں زائرین آ سکتے ہیں۔
بہت مواقع ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں صرف حضرت بہاءالدین نقشبندی کے عقیدت مندوں کی تعداد ایک کڑور ہے اور ان کے مزار بخارا میں ان کے مزار کی زیارت کے لیے بہت سے لوگوں کی امید کی جاسکتی ہے۔
سمرقند میں حضرت دانیال کے مزار پر دلرابو اور ان کی بیٹی نے اپنی زیارت مکمل کر لی ہے۔ جب لوگ اپنی شیرینی کھا چکے تو سیتورا کی چھوٹی بچی اپنی مٹھائی بنچ پر چھوڑ کر پرانے پستے کے درخت کے پاس جاتی ہے اور اس کے پاس دھیرے سے منت مانگتی ہے۔
تمام تصاویر بی بی سی کی ہیں
No comments:
Post a Comment