INDIA: YOUNG KASHMIRI COLLEGE GIRLS THROWING MISSILES ON ARMY
ACTION RESEARCH FORUM: ARMLESS GIRLS OF KASHMIR (INDIA) IN STRAIGHT COMBAT WITH OCCUPIED FORCES, COW IS 'MATA' BUT KSHMIRI GIRLS ARE FIGHTING FORCE. NO FORCE CAN FACE YOU. **** Source: https://arynews.tv/en/india-blocks-social-media-held-kashmir/
SRINAGAR: Authorities in Indian-administered Kashmir on Wednesday ordered internet service providers to block popular social media services including Facebook, Twitter and WhatsApp after an upsurge in violence in the region.
In a statement, the local government said the services were “being misused by anti-national and anti-social elements” and should be blocked for one month or until further notice “in the interest of maintenance of public order”.
It is the first time the government has taken such a step, although it regularly blocks the mobile internet signal in the volatile Kashmir valley.
Indian-administered Kashmir has been tense since April 9, when eight people were killed by police and paramilitaries during by-election violence.
Anti-India sentiment runs deep in the valley, where most people favour independence or a merger with mainly Muslim Pakistan.
Clashes between rebels and government forces have become more frequent since the killing of a popular rebel leader by security forces last July sparked widespread unrest.
Authorities say militants are using social media sites to rally support.
Earlier this week the leader of Jammu and Kashmir, the northern state that administers the area, held talks with Indian Prime Minister Narendra Modi on the developing crisis.
Hundreds of student protesters have taken to the streets in recent weeks, many chanting anti-India slogans and throwing rocks at police.
The students were angered by a raid earlier this month on a college in the southern district of Pulwama in which police tried to detain the alleged ringleaders of earlier protests.
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والی سنگ باری کی تصاویر میں پہلے زیادہ تر لڑکے دکھائی دیتے تھے لیکن اب سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والے جھڑپوں میں لڑکیاں بھی دکھائی دینے لگی ہیں۔
ایک ہفتے کی پابندی کے بعد وادی کشمیر کے سکول اور کالج جب دوبارہ کھلے تو سڑکوں پر کچھ اور ہی منظر دیکھنے کو ملا۔
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
ویسے تو کشمیر میں احتجاج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن لڑکیوں کو سنگ باری میں شامل ہونے نئے رجحان کے طور پر ابھر رہا ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ اب کشمیری لڑکیاں بھی آزادی اور انڈیا مخالفت کے نعرے لگا رہی ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
ان میں سے اکثر سکول اور کالج جانے والی لڑکیاں ہیں۔ ان کی پیٹھ پر لدا بیگ اور یونیفارم اس تصدیق کرتے ہیں۔
کشمیر پر نظر رکھنے والے لوگ اس وادی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور پرتشدد جھڑپوں کا نیا چہرہ قرار دے رہے ہیں۔
نوجوان لڑکیاں سکیورٹی فورسز کے خلاف احتجاج کا جھنڈا بلند کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ تصاویر تقریباً وائرل ہو گئی ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
تصاویر میں لڑکیاں دیکھی جا سکتی ہیں جو پولیس اور سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینک رہی ہیں۔
یہ تصاویر سری نگر کے مولانا آزاد روڈ پر موجود گورنمنٹ کالج فار ویمن کے قریب کی ہیں۔
سماجی حلقوں میں گورنمنٹ کالج فار ویمن کو ممتاز کالج سمجھا جاتا ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
24 اپریل کو سری نگر کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ طالبات کی جھڑپیں ہوئیں۔
اپریل میں ہی سری نگر میں ہوئے ضمنی انتخابات کے دوران محض 7 فیصد ووٹنگ کے درمیان خوب تشدد دیکھنے کو ملا۔
صورت حال اس وقت اور کشیدہ ہو گئی جب سکیورٹی فورس اور کشمیری نوجوان اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی عکاسی والے ویڈیوز کو شیئرز کیا جانے لگا۔
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
کشمیر کی بگڑتی صورت حال سے پریشان وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو مرکزی حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے نئی دہلی آنا پڑا۔
انھوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ بات چیت کی پیشکش کریں اور کوئی ہم آہنگی کا راستہ نکالیں۔
محبوبہ پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
پالیسی کمیشن کی میٹنگ میں حصہ لینے نئی دہلی آئیں ریاست کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کشمیر مسئلے پر وزیراعظم نریندر مودی سے پیر کو ملاقات کی۔
انھوں نے بار بار کہا کہ کشمیر پر اٹل بہاری واجپئی کی حکمت عملی کو اپنانے کی ضرورت ہے، کے دروازے سے سرے کو وہیں سے پکڑے جانا چاہیے جہاں واجپئی نے اسے چھوڑا تھا۔ کشمیر کے زیادہ تر سیاستدان ان دنوں واجپئی کی کشمیر پالیسی کا حوالہ دیتے ہیں اور اسے اپنانے پر زور دیتے ہیں.
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
احتجاج پر قابو پانے کے لیے پولیس نے کہیں کہیں آنسو گیس کے گولے بھی چھوڑے۔
ادھر، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے تمام اخبار، طالب علموں اور فوجی فورسز کے درمیان تازہ تصادم پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور مودی حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان سمیت 'تمام فریقوں' سے بات چیت کرے۔
پیر کو سری نگر کے لال چوک میں طالب علموں اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں ایک سینیئر افسر اور دو طالبات زخمی ہو گئی تھیں۔
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق گذشتہ جمعرات کو بھی سرینگر کے نوكڈل علاقے میں ایسی ہی ایک جھڑپ میں ایک لڑکی زخمی بھی ہو گئی تھی.
زخمی لڑکی کا سری نگر کے شیف ہری سنگھ ہسپتال میں علاج کرایا جا رہا ہے۔ ریاست بھر میں ہو رہے ان احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر ایک ہفتے کے لیے سکول اور کالج بند بھی کر دیے گئے تھے.
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
بہت کشمیری اخباروں نے لکھا کہ ’طالب علم کلاس میں جائیں اور پولیس ان سے دور رہے۔'
کئی اخباروں نے ریاست کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کے اس بیان کو پہلے صفحے پر جگہ دی جس میں انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا سیاسی حل ہی نکل سکتا ہے۔
کئی اخباروں نے پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کو ریاست کے خراب حالات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے 'ناکام اتحاد' قرار دیا۔
تصویر کے کاپی رائٹBILAL BAHADUR
گذشتہ برس جولائی میں بھارتی سکیورٹی فورسز سے ہوئی تصادم میں عسکریت پسند برہان وانی کی موت کے بعد شروع ہونے والے تشدد میں 100 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
چار ماہ تک مسلم اکثریتی آبادی والی وادی سلگتی رہی، اس میں 55 دن تو کرفیو لگا رہا۔اس موسم گرما میں بھی صورت حال بہت بہتر نہیں نظر آرہی ہے۔
بات ذرا پرانی ہے، 30 سال گزر چکے ہیں، اتر پردیش کا میرٹھ شہر فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا۔ ہاشم پورہ اور ملیانا کی خونریزی تاریخ کا حصہ بن رہی تھی، دلی کے قریب ہنڈن نہر کے میلے پانی سے درجنوں مسلمان نوجوانوں کی لاشیں نکالی جاچکی تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود گلی محلوں میں خوفزدہ مسلمانوں کی زبانوں پر بس ایک ہی بات تھی: اگر فوج طلب نہ کی جاتی تو کیا ہوتا؟
کچھ تو میں اب بھول گیا ہوں، لیکن کافی کچھ ابھی یاد ہے۔ فوج کے جوان شہر کے سب سے زیادہ متاثرہ گنجان علاقوں میں فلیگ مارچ کرتے تو لوگوں کا اعتماد بحال ہوتا، ان کی ہمت بندھ جاتی، فوج پر لوگوں کو بھروسہ تھا، پرووِنشیل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) پر نہیں۔
پی اے سی اور مقامی پولیس کو لوگ ’ہندو‘ مانتے تھے اور فوج کو سیکولر۔ مجھے اس لیے معلوم ہے کیونکہ میں وہاں تھا، ہم فوج کا انتظار کرتے تھے اور سب کو لگتا تھا کہ اب فوج آگئی ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا!
لیکن یہ مئی 1987 کی بات ہے۔ ہاشم پورہ اور ملیانا کی یادیں اب ذرا دھندلی پڑ گئی ہیں۔
سنہ 2017 کی مئی کو بھی بھلانا مشکل ہوگا۔ فوج کے ایک میجر نے کشمیر میں ایک نوجوان کو اپنی جیپ کے بانٹ سے باندھ کر گھمایا، اسے انسانی ڈھال کی طرح استعمال کیا، میجر کا دعویٰ ہے کہ وہ انتخابی عملے اور اپنے جوانوں کی جانیں بچا رہے تھے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس نوجوان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور فوج کو میجر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
لیکن فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے اس میجر کو ایک فوجی اعزاز سے نوازا ہے اور اب ایک غیر معمولی انٹرویو میں کہا ہے کہ کشمیر میں فوج ایک ’گندی جنگ‘ لڑ رہی ہے اور اسے ’انوویٹو‘ یا غیر روایتی طریقوں کا سہارا لینا ہوگا۔
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
انھوں نے بنیادی طور پر تین چار اہم باتیں کہی ہیں جن پر بحث شروع ہوگئی ہے اور آسانی سے ختم نہیں ہوگی کیونکہ ان کے بیانات سے فوج کو یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس کی اعلیٰ قیادت کن خطوط پر سوچ رہی ہے۔
میجر کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ: ’انھیں کس بات کی سزا دیں؟‘
میجر کے خلاف انکوائری مکمل ہونے سے قبل ہی انھیں اعزاز دینے کا مقصد نوجوان افسران کا حوصلہ بلند کرنا تھا جو مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔
’لوگ ہمارے اوپر پتھر، پیٹرول بم بھینک رہے ہیں۔ کیا میں ان سے (اپنے افسران سے) کہوں کہ وہ مرنے کا انتظار کریں؟‘
اور یہ کہ ’کاش یہ لوگ ہمارے اوپر فائرنگ کر رہے ہوتے، تو مجھے خوشی ہوتی۔ پھر ہم جو چاہتے کر سکتے تھے۔ ملک میں دشمنوں کو بھی اور عام لوگوں کو بھی فوج سے ڈرنا چاہیے۔‘
اس انٹرویو پر اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’جنرل کا نظریہ غلط ہے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹPIB
اخبار کے مطابق جنرل راوت کے اس بیان سے جوانوں کا حوصلہ بلند ہونے کے بجائے فوج کی شبیہہ کو نقصان پہنچے گا اور وادی کی صورتحال مزید خراب ہوگی۔
اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس ایک افسر کا دفاع کرنا جس نے بظاہر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، احتیاط برتنے والے ان ہزاروں افسران کو یہ پیغام دینے کے مترادف ہے کہ ان کی احتیاط غیر ضروری ہے۔
’سینا ٹھوکنے والے کاغذی قوم پرستوں کی بات الگ ہے، لیکن فوج کے سربراہ کی جانب سے اس پیغام کے خطرناک مضمرات ہو سکتے ہیں۔‘
جنرل راوت کا بیان پڑھ کر ہاشم پورہ اور ملیانا کی خونریزی یاد آگئی۔ پہلے جب لوگ ڈرتے تھے تو فوج کا انتظار کرتے تھے، اب بظاہر پیغام ذرا مختلف ہے۔
سیاسی مبصر پرتاپ بھانو مہتا کا کہنا ہے کہ فوج کو سامنے سے پتھر پھینکنے والے ہجوم کے مقابلے میں (فوج کے) پیچھے کھڑے ہوکر نعرے لگانے والے ہجوم سے خطرہ زیادہ ہے۔
No comments:
Post a Comment