B4GEN

Wednesday, 31 October 2018

FAITH HELLOVEN: EATING HUMAN BLOOD; HOW STARTED


Source: https://www.bbc.com/urdu/science-46033039


ہیلووین: خون کھائیں گے؟ ہمارے اندر خون کی چاہ کہاں سے آئی

ٹِم ہیورڈبی بی سی ورلڈ سروس
  • 30 اکتوبر 2018
  • اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک
  •  
  • اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger
  •  
  • اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر
  •  
  • اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل
  •  
  • شیئر
الٹرا وائلٹ میکرونتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionان میکرونز پر اگر آپ کا دل آ گیا ہے تو کھانے سے پہلے ایک بار اس کے اجزا کے بارے میں ضرور معلوم کر لیں۔ آج کل بیکر تجربات کے موڈ میں ہیں۔
شیف ٹِم ہیورڈ نے بی بی سی کے فُوڈ پروگرام کے لیے ایک بڑا چیلنج قبول کیا ہے۔ وہ خون کو ایک بار پھر آپ کے کھانے کا حصہ بنا رہے ہیں۔ 'بلیک پڈنگ' سے 'بلڈ براؤنی' تک یہ ہیں پانچ خونی پیشکشیں۔

بلیک پُڈنگ:

خون بھرے ساسج پریتاتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاگلی بار چلی جائیں تو یہ ’پریتا‘ ضرور کھائیں
جس نے 'انگلش بریکفاسٹ' کھایا ہے وہ بلیک پُڈنگ سے ضرور واقف ہو گا۔ روایتی طور پر یہ تازہ خون سے بنتی تھی لیکن آجکل اس میں پاؤڈر کی صورت میں درآمد کیا گیا خون استعمال ہوتا ہے۔ بعض بلیک پُڈنگز میں تو پچانوے فیصد خون ہی ہوتا ہے۔
دنیا کے تقریباً ہر کلچر میں خون والے 'ساسج' بنتے رہے ہیں مثلاً کاتالونیا میں نیگرا، آئرلینڈ میں درِسِن، فرانس میں بو نوا، ہسپانیہ میں مورسیلا، وسطی امریکہ میں مورونگا اور جرمنی میں بلتورست وغیرہ۔
تائیوان کی بلڈ پُڈنگ تو بہت ہی حیرت انگیز ہے۔ یہ خنزیر کے خون میں ابلے ہوئے چاولوں سے بنتی ہے جس پر مونگ پھلی کا پاؤڈر لگایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا اپنا پیشاب پینا صحت کے لیے مفید ہے؟
کیا آپ ان کراہت انگیز کھانوں میں سے کوئی چکھنا چاہیں گے؟
صرف ایک قسم کی خوراک پر زندگی ممکن ہے؟
بن بو ہوئےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionایشیا میں کھانے میں خون کے استعمال کے نت نئے طریقے ملتے ہیں جیسے کے ویتنام کی اس ڈش بن بو ہوئے میں
لیکن جو ساسج نہیں کھانا چاہتے تو بھی بہت سی چیزیں ہیں ان کے لیے مثلاً تھائی لینڈ کا 'نوڈل سُوپ' نام ٹوک جس میں خنزیر یا گائے کا خون شامل کیا جاتا ہے۔
انڈیا میں تمل ناڈو میں دنبے کے خون کا 'سٹر فرائی' ملتا ہے۔ ویتنام میں تیز مرچ کا شوربا ملتا ہے جس میں جما ہوا گاڑھا خون ذائقے کے لیے شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ سانپ کا خون ملا کر چاول کی ایک خصوصی وائن پی جاتی ہے۔

خون بہنے دیں:

مسائی خواتینتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionکینیا کے مسائی قبائل میں زندہ جانوروں کا خون پینے کی روایت عام ہے
دنیا کے بہت سے قبائل میں جانور کو ہلاک کیے بغیر اس کا خون پینے کی روایت ہے۔ جانور کا خون دوبارہ بن جاتا ہے اور دور دور تک سفر کرنے والے قبائلیوں کی توانائی کی ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ کینیا کے مسائی قبائل اور جنوب مغربی ایتھوپیا کے سوری قبائل میں یہ روایت عام ہے۔

بلڈ بیکنگ:

ریڈ ویلوٹ ڈونٹتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionفرائیڈ ریڈ ویلوٹ ڈونٹ انڈوں کے بجائے خون سے بھی بنتے ہیں۔
بیکر بننے کے خواہشمند لوگوں کے لیے اطلاع ہے کہ انڈے کا ایک نعم البدل خون بھی ہو سکتا ہے جس کی پروٹین کی مقدار انڈے جیسی ہوتی ہے۔ اسی چیز نے بہت سے بیکرز کو خون سے بیکنگ کا تجربہ کرنے پر مجبور کیا۔
کینیڈا کی بیکر جینیفر مکلیگن کیک، براؤنی، آئس کریم وغیرہ میں خون شامل کر چکی ہیں۔ بالٹک کی ریاستوں اور روس کے کچھ حصوں میں چاکلیٹ میں بھی خون شامل کیا جاتا ہے۔

ویمپائر کی کہانی:

رومانیہ میں چودھویں صدی کا قلعہ برانتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionرومانیہ میں چودھویں صدی کا قلعہ بران جہاں ڈریکولا کے فین دنیا بھر سے آتے ہیں
خون میں انسان کی دلچسپی سے صرف اس کا پیٹ ہی نہیں بھرا بلکہ اس سے اس نے بہت سی کہانیاں بھی بنائی ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے دوران مشرقی یورپ میں انسانوں کا خون چوسنے والی ویمپائر کا چرچا عام تھا۔ اس تشدد بھرے دور میں ویمپائر کی کہانیاں آگ کی طرح پھیلیں اور ان کے دنیا بھر میں مقبول ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔

ڈریکولا:

سر کرسٹوفر لیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسر کرسٹوفر لی کی طرف سے پیش کیے گئے ڈریکولا کے کردار کی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی
'ویمپائرز' کے مصنف سر کرسٹوفر کا کہنا ہے کہ ویمپائر پر بننے والی ڈراؤنی فلمیں درست تصویر پیش نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ کامیابی سے خون چوسنے کے لیے چوہوں کی طرح کا چبانے کا عمل اور نوکیلے دانت ضروری ہیں۔
ڈریکولا میں سر کرسٹوفر لی کے کردار کو اوپر کی طرف نوکیلے دانت دیے گئے ہیں جو کہ حقیقت میں خون چوسنے کے عمل میں پھنس جائیں گے۔
لیکن آپ کو اس سب سے منع ہی کیا جائے گا اور اگر کسی کو شوق ہے تو وہ بلیک پُڈنگ پر گزارا کرے۔

متعلقہ عنوانات

  • فلم
  • فوڈ
  • فوڈ سیفٹی

کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں

  • ای میل
  • فیس بک
  • Messenger
  • ٹوئٹر
  • گوگل پلس
واپس اوپر جائیں

اسی بارے میں

  • ویڈیو جوان خون میں پوشیدہ ہے زندگی کا راز
    18 ستمبر 2018
  • عالمی یومِ خوراک: کیا آپ ان 11 کراہت انگیز کھانوں میں سے کوئی چکھنا چاہیں گے؟
    16 اکتوبر 2018
  • ایک قسم کی خوراک پر زندگی ممکن ہے؟
    11 مئ 2017
  • کیا اپنا پیشاب پینا صحت کے لیے مفید ہے؟
    23 اکتوبر 2018
Posted by david at 19:01 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

TIME ZONE; PAKISTAN WHEN FIXED


SOURCE: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45722010

پاکستان کا وقت کب کب بدلا گیا؟

رضا ہمدانیبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
  • 3 اکتوبر 2018
  • اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک
  •  
  • اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger
  •  
  • اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر
  •  
  • اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل
  •  
  • شیئر
کراچیتصویر کے کاپی رائٹMUSTAFA AHMED KAHLON
آپ نے یقیناً گرینچ مین ٹائم یعنی جی ایم ٹی کے بارے میں تو سنا ہو گا اور کیسے سردیوں میں برطانیہ میں گھڑیوں کی سوئیاں ایک گھنٹے آگے اور گرمی میں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جاتی ہیں۔
لیکن کیا آپ نے کراچی ٹائم یعنی کے اے آر ٹی اور ڈھاکہ ٹائم یعنی ڈی اے سی ٹی کے بارے میں سنا ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ سنہ 1907 میں برطانیہ نے اس خطے میں کون سا معیاری وقت رائج کیا تھا اور یہ وقت کب تبدیل کیا گیا؟

کراچی اور ڈھاکہ ٹائم سے پاکستان معیاری وقت

کراچیتصویر کے کاپی رائٹAFP
موجودہ دور میں پاکستان میں پاکستان معیاری وقت کوآرڈینیٹڈ یونیورسل ٹائم یا یو ٹی سی سے پانچ گھنٹے آگے ہے۔
برطانیہ نے سنہ 1907 میں برصغیر میں یو ٹی سی رائج کیا جو اس وقت یو ٹی سی سے ساڑھے پانچ گھنٹے آگے تھا اور یہ وقت تقسیمِ برصغیر تک استعمال ہوتا رہا۔
'وقت کیا ہوا ہے؟'
پندرہ اپریل سے گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے
پاکستان نے 15 ستمبر سنہ 1951 میں مغربی اور مشرقی پاکستان کو دو ٹائم زونز میں تقسیم کیا۔ ایک کو کراچی ٹائم کہا گیا یعنی کے اے آر ٹی جو مغربی پاکستان کا وقت تھا۔ کراچی ٹائم کو یو ٹی سی کے وقت سے ساڑھے پانچ گھنٹے کی بجائے پانچ گھنٹے آگے رکھا گیا۔
دوسرا زون مشرقی پاکستان کو بنایا گیا اور اس کو ڈھاکہ ٹائم کا نام دیا گیا یعنی ڈی اے سی ٹی۔ اس وقت کو یو سی ٹی سے ساڑھے پانچ گھنٹے کی بجائے چھ گھنٹے آگے رکھا گیا۔
مغربی اور مشرقی معیاری وقت کی ان تبدیلیوں کو یکم اکتوبر سنہ 1951 میں نافذ کیا گیا۔
تاہم مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان کے معیاری وقت کو کراچی ٹائم کی بجائے پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم کہا جانے لگا۔

جی ایم ٹی اور زیڈ ایم ٹی

مشرفتصویر کے کاپی رائٹAFP
سنہ 1971 سے پاکستان معیاری وقت چلتا رہا اور سنہ 2002 تک ایسا ہی چلتا رہا۔
سنہ 2002 میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ڈے لائٹ سیونگ ٹائم (ڈی ایس ٹی) کا نفاذ ضروری ہو گیا ہے۔ اس کا مقصد ملک میں توانائی کے بحران میں کمی لانا تھا تاکہ گرمیوں میں سورج کی روشنی کا زیادہ استعمال کر کے بجلی کی بچت کی جا سکے۔
حکومت نے اپریل سنہ 2002 کے پہلے اتوار یعنی سات اپریل کو گھڑیوں کی سوئیوں کو ایک گھنٹہ آگے کرنے اور اکتوبر کے پہلے اتوار یعنی چھ اکتوبر کو ایک گھنٹہ پیچھے کرنے کا حکم صادر کیا۔
حکومت کے اس حکم نامہ کو مزاح میں جی ایم ٹی کہا جانے لگا یعنی ’جنرل مشرف ٹائم‘۔
اگرچہ جنرل مشرف کا اقتدار تو جاری رہا لیکن ان کی جانب سے توانائی بچانے کا یہ قدم صرف ایک سال ہی چلا اور چھ اکتوبر سنہ 2002 کو جب گھڑیوں کی سوئیاں آگے کی گئیں تو وہ سنہ 2009 تک حکومت کے کہنے پر آگے یا پیچھے نہیں کی گئیں۔
سنہ 2008 میں ایک بار پھر بجلی کے بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈے لائٹ سیونگ ٹائم (ڈی ایس ٹی) کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس پر عملدرآمد سنہ 2009 تک نہ ہو سکا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ملک کا وقت تبدیل کرنے میں کامیاب رہی۔ حکومت نے زرداری مین ٹائم یعنی زیڈ ایم ٹی کا اطلاق یکم جون سنہ 2008 سے اکتوبر 31 تک کیا، پھر 15 اپریل 2009 سے 31 اگست تک ہوا۔ لیکن پھر وقت تبدیل نہیں کیا گیا۔

کن ممالک میں ڈی ایس ٹی کا اطلاق ہوتا ہے؟

اس وقت دنیا کے 75 ممالک ہیں جہاں ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کا اطلاق ہوتا ہے لیکن ڈی ایس ٹی سے موسم سرما کے وقت پر منتقل ہونے کا فیصلہ ہر ملک اپنے مطابق کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یورپی یونین میں وقت کی تبدیلی مارچ کے آخری اتوار اور اکتوبر کے آخری اتوار کو ہوتی ہے۔
لیکن جہاں 75 ممالک ڈی ایس ٹی کا اطلاق کرتے ہیں وہیں 16 ممالک ایسے بھی ہیں جنھوں نے وقت میں تبدیلی چھوڑ دی ہے۔ ان ممالک میں مصر اور روس بھی شامل ہیں۔

متعلقہ عنوانات

  • پاکستان
  • بنگلہ دیش

کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں

  • ای میل
  • فیس بک
  • Messenger
  • ٹوئٹر
  • گوگل پلس
واپس اوپر جائیں

اسی بارے میں

  • پندرہ اپریل سے گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے
    2 اکتوبر 2018
  • ’وقت کیا ہوا ہے؟‘
    2 اکتوبر 2018
Posted by david at 18:53 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest
Newer Posts Older Posts Home
Subscribe to: Posts (Atom)

About Me

david
View my complete profile

Blog Archive

  • ►  2019 (66)
    • ►  June (1)
    • ►  May (2)
    • ►  March (4)
    • ►  February (20)
    • ►  January (39)
  • ▼  2018 (739)
    • ►  December (37)
    • ►  November (43)
    • ▼  October (25)
      • FAITH HELLOVEN: EATING HUMAN BLOOD; HOW STARTED
      • TIME ZONE; PAKISTAN WHEN FIXED
      • RELIGION; PAKISTAN, WHAT IS "TAUHEEN" RE:IGION LAW
      • GERMAN NURSE: ACCEPTED KILLING 100 PATIENTS IN HIS...
      • PROBLEMS OF CHANGING SEATS BY PASSENGERS
      • PAKISTAN: NRO GROUND REALITY MEANS WHAT?
      • HEALTH: NINE SYMPTOMS OF AGING OF HUMAN
      • HEALTH: GREEN TEA EXCESSIVE USE SUSEPTIVETO CERTAI...
      • SAUDI: CRIMINALITY ON THEIR CITIZENS IN ISTAMBOL
      • SCIENCE: IMAGES WHEN BRAIN FAILS TO RECALL?
      • HISTORY: TIPU SULTAN BLOODLINE NOOR INAYAT KHAN I...
      • PERSONAL: DATED: 23/10/2018; DOSSIER BY JAVED ASHR...
      • HEALTH: INSTANT DIAGONISIS OF BREAST CANCER LIKE R...
      • POWERFUL ACUPRESSURE POINTS TO INCREASE FOCUS, MEM...
      • BRAIN HEALTH; HOW TO IMPROVE BRAIN MEMORY, ACTIVIT...
      • SCIENCE; LIFE IN GALLAXY; 10 INTERESTING FACTS
      • CHRONIC KNEE PAIN, CAUSES, RISK, SYMPTOM, TREATING...
      • MODI RAJ 1992-GUJRAT (IND), MUSLIMS KILLING BY PU...
      • DATA SCIENCE COMING UP STATE-OF-THE ART LEARNING T...
      • HEALTH: TYPE 2 DIABETIES SYMPTOMS APPEAR MUCH EARLIER
      • DEVELOPERS: BEHRIA TOWNSHIP VS GOLDEN-PALM GWADAR ...
      • CHARNABEL (USSR) NUKE PLANT BLAST DAMAGES FOR 240...
      • FOR LIFE SECURITY -FORCED FAITH CONVERSION OF MUSL...
      • BILAWAL (3RD GEN) LOOKINGFOWARD JUSTICE IN BENAZI...
      • RECORD OF TIME CAHNGE IN PAKISTAN
    • ►  September (25)
    • ►  August (45)
    • ►  July (45)
    • ►  June (197)
    • ►  May (139)
    • ►  April (67)
    • ►  March (37)
    • ►  February (46)
    • ►  January (33)
  • ►  2017 (1003)
    • ►  December (21)
    • ►  November (28)
    • ►  October (34)
    • ►  September (31)
    • ►  August (44)
    • ►  July (46)
    • ►  June (27)
    • ►  May (38)
    • ►  April (69)
    • ►  March (104)
    • ►  February (550)
    • ►  January (11)
  • ►  2016 (10)
    • ►  December (6)
    • ►  November (4)
Simple theme. Powered by Blogger.