Source: https://www.bbc.com/urdu/science-46033039
ہیلووین: خون کھائیں گے؟ ہمارے اندر خون کی چاہ کہاں سے آئی
GETTY IMAGES
شیف ٹِم ہیورڈ نے بی بی سی کے فُوڈ پروگرام کے لیے ایک بڑا چیلنج قبول کیا ہے۔ وہ خون کو ایک بار پھر آپ کے کھانے کا حصہ بنا رہے ہیں۔ 'بلیک پڈنگ' سے 'بلڈ براؤنی' تک یہ ہیں پانچ خونی پیشکشیں۔
بلیک پُڈنگ:
GETTY IMAGES
جس نے 'انگلش بریکفاسٹ' کھایا ہے وہ بلیک پُڈنگ سے ضرور واقف ہو گا۔ روایتی طور پر یہ تازہ خون سے بنتی تھی لیکن آجکل اس میں پاؤڈر کی صورت میں درآمد کیا گیا خون استعمال ہوتا ہے۔ بعض بلیک پُڈنگز میں تو پچانوے فیصد خون ہی ہوتا ہے۔
دنیا کے تقریباً ہر کلچر میں خون والے 'ساسج' بنتے رہے ہیں مثلاً کاتالونیا میں نیگرا، آئرلینڈ میں درِسِن، فرانس میں بو نوا، ہسپانیہ میں مورسیلا، وسطی امریکہ میں مورونگا اور جرمنی میں بلتورست وغیرہ۔
تائیوان کی بلڈ پُڈنگ تو بہت ہی حیرت انگیز ہے۔ یہ خنزیر کے خون میں ابلے ہوئے چاولوں سے بنتی ہے جس پر مونگ پھلی کا پاؤڈر لگایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
GETTY IMAGES
لیکن جو ساسج نہیں کھانا چاہتے تو بھی بہت سی چیزیں ہیں ان کے لیے مثلاً تھائی لینڈ کا 'نوڈل سُوپ' نام ٹوک جس میں خنزیر یا گائے کا خون شامل کیا جاتا ہے۔
انڈیا میں تمل ناڈو میں دنبے کے خون کا 'سٹر فرائی' ملتا ہے۔ ویتنام میں تیز مرچ کا شوربا ملتا ہے جس میں جما ہوا گاڑھا خون ذائقے کے لیے شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ سانپ کا خون ملا کر چاول کی ایک خصوصی وائن پی جاتی ہے۔
خون بہنے دیں:
GETTY IMAGES
دنیا کے بہت سے قبائل میں جانور کو ہلاک کیے بغیر اس کا خون پینے کی روایت ہے۔ جانور کا خون دوبارہ بن جاتا ہے اور دور دور تک سفر کرنے والے قبائلیوں کی توانائی کی ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ کینیا کے مسائی قبائل اور جنوب مغربی ایتھوپیا کے سوری قبائل میں یہ روایت عام ہے۔
بلڈ بیکنگ:
GETTY IMAGES
بیکر بننے کے خواہشمند لوگوں کے لیے اطلاع ہے کہ انڈے کا ایک نعم البدل خون بھی ہو سکتا ہے جس کی پروٹین کی مقدار انڈے جیسی ہوتی ہے۔ اسی چیز نے بہت سے بیکرز کو خون سے بیکنگ کا تجربہ کرنے پر مجبور کیا۔
کینیڈا کی بیکر جینیفر مکلیگن کیک، براؤنی، آئس کریم وغیرہ میں خون شامل کر چکی ہیں۔ بالٹک کی ریاستوں اور روس کے کچھ حصوں میں چاکلیٹ میں بھی خون شامل کیا جاتا ہے۔
ویمپائر کی کہانی:
GETTY IMAGES
خون میں انسان کی دلچسپی سے صرف اس کا پیٹ ہی نہیں بھرا بلکہ اس سے اس نے بہت سی کہانیاں بھی بنائی ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے دوران مشرقی یورپ میں انسانوں کا خون چوسنے والی ویمپائر کا چرچا عام تھا۔ اس تشدد بھرے دور میں ویمپائر کی کہانیاں آگ کی طرح پھیلیں اور ان کے دنیا بھر میں مقبول ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
ڈریکولا:
GETTY IMAGES
'ویمپائرز' کے مصنف سر کرسٹوفر کا کہنا ہے کہ ویمپائر پر بننے والی ڈراؤنی فلمیں درست تصویر پیش نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ کامیابی سے خون چوسنے کے لیے چوہوں کی طرح کا چبانے کا عمل اور نوکیلے دانت ضروری ہیں۔
ڈریکولا میں سر کرسٹوفر لی کے کردار کو اوپر کی طرف نوکیلے دانت دیے گئے ہیں جو کہ حقیقت میں خون چوسنے کے عمل میں پھنس جائیں گے۔
لیکن آپ کو اس سب سے منع ہی کیا جائے گا اور اگر کسی کو شوق ہے تو وہ بلیک پُڈنگ پر گزارا کرے۔
No comments:
Post a Comment