Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-45002300
غذائیت کا پاور ہاؤس جڑ والی سبزیاں
بدلتے ہوئے طرز زندگی کے باعث ہمارے کھانے پینے کی عادات خاصی تبدیل ہو چکی ہیں۔ لہذا اب خواتین سطح زمین کے نیچے جڑوں کی شکل میں پیدا ہونے والی سبزیوں کو پکانے کی زحمت نہیں اٹھاتیں۔
لیکن اگر آپ کو ان کے فوائد معلوم ہوں تو آپ جڑ والی ذائقہ دار سبزیوں کو نظر انداز نہ کر پائيں۔
اکثر خواتین ان سبزیوں کو سستی سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہیں۔ جبکہ جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جڑوں کی شکل میں اگنے والی سبزیاں در حقیقت اینٹی اوکسیڈنٹ اور معدنیات سے مالا مال ہوتی ہیں۔
تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ شکر قندی پانچ ہزار سال قبل روایتی دواؤں کا اہم جزو تھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آلو ہماری وٹامن کی روز مرہ ضروریات کا 31 فیصد فراہم کرتے ہیں۔
گاجر کے بارے میں برطانیہ کے محققین کا خیال ہے کہ یہ امراض قلب اور سرطان جیسی موذی بیماریوں سے نہ صرف ہماری حفاظت کرتی ہے بلکہ یہ ہمیں جوان بھی رکھتی ہے۔
الغرض جڑ والی سبزیاں غذائیت کا پاور ہاؤس ہیں۔ زمین کے اندر پیدا ہونے والی سبزیوں کا رنگ واجبی سا ہوتا ہے لیکن یہ ہمیں توانائی دیتی ہیں اور اگر ان کے پکانے میں توجہ دی جائے تو یہ ایک صحت مند زندگی کا ضامن ہو سکتی ہیں۔
مورخ توسانی سمات اپنی کتاب 'کھانوں کی تاریخ' میں لکھتی ہیں کہ دس ہزار سال قبل کھانے کی تلاش میں بھوکے خانہ بدوشوں نے زمین کھود ڈالی اور اس کے اندر ملنے والی جنگلی جڑوں سے اپنی بھوک مٹائی۔ یہ زراعت کی جانب پہلا قدم تھا اور زیر زمین پیدا ہونے والی سبزیوں کی کاشتکاری کا آغاز ہوا اور رفتہ رفتہ جڑ والی سبزیوں کا ذخیرہ بڑھتا گیا۔
انھیں جانوروں کے شکار اور جنگلی پھلوں کی تلاش سے زیادہ ان سبڑیوں کو اگانا آسان معلوم ہوا اور وہ ان کی زراعت اور ترقی میں دل و جان سے لگ گئے۔ آج دنیا ان کی کاوشوں کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
آلو، ادرک، لہسن، شلجم، کمل ککڑی، چقندر، گاجر، اروی، مولی، شکر قندی، زمین قند، اور پیاز آج ہماری روز مرہ کی زندگی میں شامل ہے۔
یہ بات حیرت انگیز نظر آتی ہے کہ زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک ہندوستان کے بعض حصوں اور طبقوں میں ان سے پرہیز کیا جاتا ہے گوکہ ان میں شامل بیشتر سبزیاں سال بھر دستیاب رہتی ہیں۔
لیکن جاڑوں اور بہاروں میں ان کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی سبزیوں کا انتخاب موسم کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔ زمین ہمیں موسم کے اعتبار سے ہی سبزیاں دیتی ہے۔
یہ بہت جلد خراب بھی نہیں ہوتیں اس لیے باورچی خانے میں رکھی مل جاتی ہیں اور بوقت ضرورت ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض سبزیوں پیاز، ادرک، لہسن وغیرہ کے بغیر ہم اپنے کھانوں کا تصور نہیں کر سکتے۔
اروی گو دیکھنے میں گاجر جیسی خوش شکل نہیں ہے لیکن اس کا استعمال وزن کم کرتا ہے، تھکن مٹاتا ہے اور موٹاپے سے نجات دیتا ہے۔ اس میں قدرت نے شفا بخش صلاحیت رکھی ہے۔
شلجم جو سردیوں کی سوغات ہے لامحدود طبی فوائد سے بھرپور ہے۔ اس میں کیلشیم اور پوٹاشیم کے اجزا پائے جاتے ہیں اور سردیوں میں شمالی ہند کے علاقے میں دلی کا خاص پکوان شب دیگ بڑے شوق سے بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح شلجم کا کریمی سوپ، ہلکے مسالے سے بنا بھرتہ، مرغ کے ساتھ پکایا پاستہ بچوں کی محبوب غذا ہے۔
سردیوں میں ان کا ذائقہ دوبالا ہوتا ہے۔ بعض شہروں میں سڑک کے کنارے مولی گاجر اور شکرقندی کی چاٹ گاہکوں کو للچاتی ہیں۔ توے پر بھونی شکرقندی کے قتلے اور اس پر چاٹ مسالے کی پچکاری منھ کا مزہ بدل دیتی ہے۔
سفید، پیلی، سرخ اور کالی گاجر کا حلوہ جاڑوں کا من بھاتا کھاجا ہے۔ بادام پستوں سے سجا یہ حلوہ حلوائی کی دکان کی رونق بڑھاتا ہے جبکہ گھروں میں گجریلا یعنی گاجر کی کھیر بھی بنائی جاتی ہے۔
آلو، پیاز، ادرک، لہسن وغیرہ کے بغیر باورچی خانہ ادھورا ہے کیونکہ مرغ ہو یا گوشت یا مچھلی ان کا استعمال لازمی ہے۔
ان کے علاوہ پانی کے نیچے بھی سبزیاں اگتی ہیں۔ جھیل اور تالابوں میں کنول کے بے شمار پھول دعوت نظارہ دیتے ہیں لیکن اس کی جڑیں جو پانی میں ہوتی ہیں وہ کشمیر کی محبوب غذا ہے۔ کسان گھٹنوں پانی میں اتر کر پاؤں سے ان کی جڑوں کو نکالتا ہے۔ کشمیر میں لڑکیوں کو کمل ککڑی کاٹنے کا ہنر بچپن سے سکھایا جاتا ہے تاکہ سسرال میں شرمندگی نہ ہو۔
کمل ککڑی کو دیگر علاقوں میں شلوکا بھی کہا جاتا ہے اور یہ قدیم سبزی ہے جس کا ذکر ویدک عہد میں بھی ملتا ہے۔ کشمیر کی جھیلیں کنول سے بھری پڑی ہوتی ہیں اور ان کی جڑیں کشمیری کھانوں کا حصہ ہوتی ہیں۔ ویدک زمانے میں کنول کے جڑ کی چٹنی کنول کے پتے پر رکھ کر بادشاہ اور مہمانوں کی پیش کی جاتی تھی۔
نیمی چندرا نے اپنی کتاب لیلاوتی میں اس کا ذکر کیا ہے کہ یہ چٹنی کپور کے ساتھ بنائی جاتی تھی اور نیلاپتی کہلاتی تھی۔
٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔