Saturday 30 December 2017

'BETTER NEVER TO HAVE BEEN' - LOIFE REPRODUCTION BE STOPPED, ‘CAPETOWN UNIVERSItY PROFESSOR SERMON AS ANTI-NATURE

ACTION RESEARCH FORUM: ANTI LAW OF NATURE FOR TERMINATION OF HUMAN LIFE OF GLOBE. AS PRESDESSOR EVENT OF DEVIVE INTERNVENTION INCARNATION 


Source: http://www.bbc.com/urdu/science-42523231

’پیدائش کا عمل رکنا چاہیے کیونکہ زندگی تکالیف سے بھری ہے‘

بچہ
ڈیوڈ بیناٹر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ’دنیا میں ایک مایوس ترین فلسفی ہیں‘ کیونکہ وہ اس بات پر قائل ہو چکے ہیں کہ زندگی اتنی بری ہے کہ وہ گزارنے کے قابل نہیں۔
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے ڈپارٹمنٹ آف فلاسفی کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیناٹر اپنی کتاب ’Better Never To Have Been‘ میں لکھتے ہیں کہ پیدا ہونا انتہائی شدید اور خوفناک بدقسمتی ہے۔
اسی لیے 51 سالہ بیناٹر کا کہنا ہے کہ سب سے اچھا کام جو انسان کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ پیدائش کے عمل کو روک کر اس کرہِ ارض سے انسانیت کا مکمل خاتمہ کر دے۔
بی بی سی منڈو نے بیناٹر سے بات کی اور ’زچگی مخالف‘ فلسفے کے بارے میں جاننے کی کوشش کی اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس سوچ کو اپنی زندگی پر لاگو کرتے ہیں۔
Línea

زچگی مخالف فلسفیانہ رجحان کیا کہتا ہے؟

زچگی مخالف فلسفہ کہتا ہے کہ نئے لوگوں کو اس دنیا میں نہیں لانا چاہیے۔

کیوں؟

مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کی کئی بہتر وجوہات ہیں۔ نئے لوگوں کو اس لیے اس دنیا میں نہیں لانا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ تو وہ برے تجربات ہیں جس سے انھیں گزرنا پڑے گا۔
اس حوالے سے بہت سی توجیحات ہیں لیکن ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے ہونے میں بہت سی تکالیف اور درد ہیں، اس لیے نئے انسانوں کو اس دنیا میں لانا غلط ہے۔
مصنفتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

لیکن زندگی میں بہت سی اچھی چیزیں بھی تو ہیں۔۔۔

ہاں، یہ سچ ہے کہ اچھی چیزیں بھی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے سارے درد کے سامنے ان اچھی چیزوں کی کوئی وقعت ہے؟
مجھے ایسا لگتا ہے کہ لوگ اکثر بھول جاتے ہیں کہ زندگی میں ہونے والی بری چیزیں کتنی بری ہیں۔
یہاں بہت سے نفسیاتی شواہد موجود ہیں کہ لوگ اپنے معیار زندگی کو بڑھا چڑھا کر دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ حقیقت کے برعکس زیادہ بہتر ہے۔
ایک اور غلطی مستقبل کے بارے میں سوچنا اور اس بات کا احساس ہی نہ ہونا کہ زندگی کے آخری لمحات میں انھیں ممکنہ طور پر کتنی تکلیف ہوگی۔
سوچیں کہ لوگ کیسے مرتے ہیں، کینسر کے بارے میں سوچیں، چھوت کی بیماریوں کے بارے میں اور کمزوری کے بارے میں زندگی کے آخر میں بہت زیادہ تکالیف ہیں بہت زیادہ۔ اور اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں۔
روہنگیا خاتونتصویر کے کاپی رائٹREUTERS

لیکن اگر آپ صحیح ہیں اور زندگی حقیقت میں اتنی ہی بری ہے تو لوگ کبھی بھی خود کو مار سکتے ہیں، درست؟

جی ہاں، لیکن خودکشی کی ایک قیمت ہوتی ہے جو آپ کو نہیں بھرنا پڑے گی اگر آپ پیدا ہی نہ ہوتے۔
اگر آپ پیدا نہیں ہوئے، آپ کا وجود ہی نہ ہوتا، تو آپ ان زندگی میں تمام بری چیزوں سے بنا کوئی قیمت ادا کیے ہی چھٹکارہ پا لیتے۔
خودکشی شاید بیماری سے کم ہو، لیکن پھر بھی بیماری تو ہے، جو کہ بری ہے۔
لوگ اصل میں مرنا نہیں چاہتے۔ اسی وجہ سے زیادہ تر اپنے وجود کے ساتھ ہی چلتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کے وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہو رہے اور یہ ایک مثبت تجربہ نہیں ہے۔
خودکشی کی ایک اور قیمت وہ درد اور تکلیف ہے جو آپ اپنے پیچھے دوسروں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔
فرانسیسی اداکار جیک بونافیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

لیکن انسان نسل کو آگے بڑھانے کے لیے بنا ہے، نسل آگے بڑھانا ایک قدرتی عمل ہے۔ تو کیا پھر زچگی مخالف فلسفہ قدرت کے خلاف ہے؟

ہر قدرتی چیز اچھی نہیں۔ مثال کے طور پر بیماریوں میں مبتلا ہونا مکمل طور پر قدرتی ہے، اور اس کے قدرتی ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ادویات کے ذریعے علاج یا آپریشن وغیرہ کروانے سے نہیں روکا جاتا۔
غصہ بھی انسانوں اور جانوروں میں ایک قدرتی جذبات کی شکل ہے اور بظاہر یہ ہمارے لیے صحیح نہیں۔
قدرتی ہونا اور اخلاقی طور پر چاہنا یا مشورہ دینا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

تو آپ کے لیے اسقاط حمل اخلاقی طور پر صحیح ہے؟

جی بالکل، زچگی کی مخالفت کہتی ہے کہ اس دنیا میں نئے لوگوں کو لانا غلط ہے اور اسقاط حمل اس کو حاصل کرنے کا ایک راستہ ہے۔

صرف انسان ہی نہیں جنھیں یہ سب سہنا پڑتا ہے، کئی جانور دردناک زندگیاں گزارتے ہیں۔ تو ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟ کیا ہم انھیں ان کے وجود کے درد سے چھٹکارہ دلانے کے لیے مار ڈالیں؟

بیخ کنی کرنے اور موت کے وقت مرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔
مٹا دینا قتل کر دینا ہے، اور میں انسانوں یا جانوروں کو قتل کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ کچھ ایسے واقعات، مناظر ہو سکتے ہیں جب میں اس کا تصور کروں۔
لیکن عام طور پر میں لوگوں یا جانوروں کو قتل کرنے کا حامی نہیں ہوں، لیکن میں نابُودگی کے حق میں ہوں اور فنا کرنے کا ایک راستہ نئے انسانوں کو جنم نہ دینا ہے۔
جانوروں کو دیکھا جائے تو ان میں بہت سے جانور آزاد رہتے ہیں اور ان کی افزائش انسان نہیں کرتے۔ لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کی افزائش ہم کرتے ہیں، جیسے کہ فارمی جانور، جنھیں صرف مارنے اور کھانے کے لیے بڑا کیا جاتا ہے۔
ایسے جانوروں جنھیں ہم نہ بیان کیے جانے والی تکلیف میں ڈالتے ہیں کی افزائش کو میں روکوں گا۔ ہم اپنا پیٹ انھیں مارے بغیر بھی اچھی طرح بھر سکتے ہیں۔
جانورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

دنیا میں بچے نہ لا کر خود کو فنا کرنے سے اچھا نہیں کہ ہم دنیا ہی کو بہتر کر دیں تاکہ زندگی زیادہ سخت نہ ہو؟

دیکھیں، میرا ماننا ہے کہ ہم ہمیشہ ہی دنیا کو بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں اور جو وجود رکھتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی بہتری کے لیے کچھ بھی کریں۔
لیکن یہ سوچنا ایک امید ہی ہے کہ ہم دنیا کو تمام تکالیف ختم کرکے بہتر بنا دیں گے اور بچے ہوں گے جو زندہ رہنے کا درد محسوس نہیں کریں گے۔
لیکن اگر ہم ایسا کر بھی لیتے ہیں تو یہ مستقبل بعید میں ہوگا۔ لاتعداد نسلوں کے بعد، لوگوں کی نسلیں جو اس دنیا میں لانے کے شدید درد سے گزریں گی۔
مستقبل کے نام پر اتنی نسلوں کو قربان کرنا میرے لیے بہت ہی خوفناک ہے۔
بچےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

اگر زندگی اتنی بری ہے، تو آپ کے خیال میں لوگ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟

میں نہیں جانتا۔ بہت سے تو سوچتے ہی نہیں کہ بچے ہونے کا کیا مطلب ہے، بس وہ پیدا کرتے ہیں۔ اندازے کے مطابق دنیا میں موجود بچوں میں سے نصف تو وہ ہیں جن کی خواہش نہیں تھی۔
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس بارے میں سوچتے ہیں اور وہ بچے پیدا کرنے کی جو وجوہات بیان کرتے ہیں ان کی بنیاد ذاتی خواہش پر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے جین آگے برھانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ یہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہ بچے پیدا کرنا اور انھیں بڑا کرنا کیسا ہوگا ۔۔۔ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کی بہبود کے لیے بچے پیدا کرتے ہیں، جن کے بچے لوگوں کے لیے ہوتے ہیں، یا تو وہ اپنے والدین کی پوتے پوتیوں کی خواہش پوری کرتے ہیں۔
لیکن میرے خیال میں زیادہ تر واقعات میں لوگ خود بچے پیدا کرنے کے بارے میں سوال ہی نہیں کرتے۔
اور اس پر کوئی سوال بھی نہیں کرتا کیونکہ یہ انتہائی عام بات ہے اور عادت بن چکی ہے۔ اور یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ بچے ہونا ضروری ہیں۔ بہت کم لوگ ہی دنیا میں کسی انسان کو لانے سے جڑے اخلاقی مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔
انسانی زندگیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

چلیں مثال کے طور پر تصور کریں کہ ایک بچہ جو ابھی ابھی پیدا ہوا ہے اور اس کی زندگی مکمل،اچھی اور خوشی سے سرشار ہوگی، کیا اس بچے کو اچھی زندگی سے محروم کر دینا غیر اخلاقی نہیں ہوگا؟

دیکھیں، بچے کبھی کبھار خوش ہو سکتا ہے، میں اس پر بحث نہیں کرتا۔ لیکن جب اس بچے کو اس دنیا میں لایا جاتا ہے تو صرف وہی لمحات خوشی پر مبنی نہیں ہوتے۔
وہی بچہ بوڑھا بھی ہوگا، تکلیف سے بھی گزرے گا، بیمار ہوگا، مستقبل میں مر جائے گا۔ ہمیں اس کی مکمل زندگی کے بارے میں سوچنا چاہیے، نہ کہ صرف ان خوشگوار لمحات کے بارے میں۔
اور صرف سوچیں بچے اکثر ناخوش ہوتے ہیں، آپ کو اس وقت کے بارے میں سوچنا ہوگا جو وہ نہ امیدی اور مایوسی میں رو رو کر گزارتے ہیں۔
لیکن اگر ہم صحیح معنوں میں خوش بچے کے بارے میں بات کریں تو وہ ’ترجیحات میں ڈھل جانے‘ والے کیس میں آتا ہے۔
ذرا سوچیں مثال کے طور پر لوگوں کا ایک گروہ جنھیں دیگر افراد غلام بنا لیتے ہیں۔ وہ غلام لوگ اپنی اس حالت سے خوش ہو سکتے ہیں، اور شاید انھیں غلامی سے کوئی اعتراض نہ ہو کیونکہ انھیں ایسا سوچنے والا ہی بنایا جاتا ہے۔
اگر وہ لوگ خوش ہیں پھر بھی میں اس کی مخالفت کروں گا۔
غلامی

آپ کے دلائل کے مطابق بچوں کی تکالیف کے ذمہ دار والدین ہیں کیونکہ انھیں اس دنیا میں لانے کا فیصلہ ان کا تھا۔ یا وہ اپنے بچوں کے بچوں کے بچوں اور ان کے پوتے پوتیوں کی تکالیف کے بھی ذمہ دار ہیں؟

ایک طرح سے ہاں، بالواسطہ۔ ان کی ساری ذمہ داری نہیں ہوگی۔ ان کی صرف ان کے اپنے بچوں کی وجہ سے ان سے جوڑا جائے گا۔
لیکن جب کوئی بچے پیدا کرنے کا سوچتا ہے، تو انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ممکنہ طور پر پیدائش کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔

آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا پیدائش کے عمل کو روک کر انسانوں کو ختم کرنے کا خیال کبھی سمجھا جائے گا؟

نہیں میں نہیں سمجھتا، کم از کم بڑے پیمانے پر تو نہیں۔ میرے خیال میں چند افراد ہی ہوں گے جو پیدائش کے عمل کو روکنے کا فیصلہ کریں گے، درحقیقت میں ایسے چند لوگوں کو جانتا ہوں۔
لیکن میرا ماننا ہے کہ زچگی کی مخالفت چھوٹے پیمانے پر کامیاب ہو گی۔
چھوٹے پیمانے پر ہی سہی یہ اہم ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس دنیا میں نہ لا کر تکلیف سے بچایا جائے گا۔
میں سیدھا سادھا نہیں ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ میں ہر کسی کو اپنے خیال سے قائل کر لوں گا۔
لیکن میں پختہ یقین سے کہتا ہوں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ لوگ خود سے سوال کریں اور حقیقت میں سوچیں کہ بچے پیدا کرنے کا کیا مطلب ہے۔
سپرمتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

آپ نے زچگی کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کب کیا؟

میں اس بارے میں کافی عرصے سے سوچ رہا تھا، جس کی وجہ سے ان سالوں کے دوران میں نے اس خیال کو جنم دیا۔
بنیادی عقیدہ میرے لیے بالکل ہی واضح ہے، جبکہ میں نہیں جانتا کہ یہ اوروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔

آپ کو زندہ ہونے پر افسوس ہے؟

میں ذاتی سوالات کے جواب دینا پسند نہیں کرتا۔ میں تصورات اور خیالات کے بارے میں بات کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔

کیا آپ اس دنیا میں آنے کے لیے اپنے والدین کو الزام دیتے ہیں؟

شاید آپ کو یہ جان کر دلچسپی ہوگی اگر آپ میری کتاب کے آغاز میں دیکھیں کہ میں نے اسے کس سے منسوب کی ہے۔
جی میں نے اسے پڑھا ہے اس پر لکھا ہے: ’میرے والدین کے نام، اس کے بجائے کہ انھوں نے مجھے زندگی دی۔‘
تو پھر آپ پہلے ہی سے جانتے ہیں۔ میں اس میں مزید کچھ اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔

ایک آخری سوال: آپ کے بچے ہیں؟

یہ ایک اور ذاتی سوال ہے۔


Friday 29 December 2017

GHALIB-E-KHASTA: غالب کی دلی میں اردو کی حالتِ زار


Source; http://www.bbc.com/urdu/regional-42507538

غالب کی دلی میں اردو کی حالتِ زار

ڈیئر غالب، سالگرہ مبارک!
دو دن کی تاخیر سے مبارک باد دینے پر معذرت قبول فرمائیں۔
ویسے فیس بک پر تو میں نے اُسی روز گلی قاسم جان، کوچہ بَلّی ماراں، پرانی دلی میں واقع آپ کی حویلی کے صدر دروازے پر کھینچی ہوئی اپنی تصویر پوسٹ کر دی تھی۔ آپ کی تاریخ پیدائش یعنی 27 دسمبر 1797 کا بھی ذکر کر دیا تھا اور یہ بھی کہ ’ریختہ کے استاد' کو پیدا ہوئے 220 سال ہو چکے ہیں۔
اب تک 77 لائکس مل چکے ہیں اس پوسٹ کو۔
غالب کی حویلیتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image caption1969 میں غالب کی 100ویں برسی پر متحدہ پاکستان میں جاری کردہ 15 پیسے مالیت کا یادگار ڈاک ٹکٹ جس کا نمونہ غالب کی حویلی میں آویزاں ہے
ویسے کیا آپ نے کبھی اپنی سالگرہ منائی؟ یا اس زمانے میں ہیپی برتھ ڈے، سالگرہ مبارک اور جنم دن کی شُبھ کامناؤں کا رواج نہیں تھا۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں اردو، کہاں اسد اللہ خان غالب کی زبان اور کہاں یہ آفریدی پٹھان!
یہ بات میرے لیے بھی حیرانی کا باعث ہے۔
ہوا یہ کہ اِسی موسمِ خزاں میں بی بی سی اردو کے وظیفے پر ولایت (لندن) سے آپ کے شہر دِلی گیا تھا تاکہ وہاں ہندی والوں سے ڈِیجیٹل میڈیا کی تربیت حاصل کروں۔
غالب کا مجسمہتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
اوہ ہو، آپ دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ آخر کو ہے نا پٹھان، خالص اردو میں بھی انگریزی اصطلاحوں کی آمیزش کر ڈالی۔
آپ تو خیر فورٹ وِلیئم کالج میں استاد کی نوکری ٹھکرا کر وہاں سے اس لیے لوٹ آئے تھے کہ انگریز پرنسپل یعنی صدر مدرس آپ کے استقبال کے لیے کالج کے دروازے پر موجود نہیں تھا۔ مگر انگریز ہندوستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں ایسی چھاپ چھوڑ گئے ہیں کہ انگریزی الفاظ ہر زبان کا حصہ بن گئے ہیں۔
ہندی بولنے والوں نے بعض انگریزی اصطلاحوں کے ہندی متبادل اختراع کیے مگر سچ یہ ہے کہ سننے میں مضحکہ خیز سے لگتے ہیں۔
غالب کی مہر کا عکستصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionغالب کی مہر کا عکس
اردو والوں نے یہ کہہ کر کہ 'اردو کا دامن بڑا وسیع ہے'، دھڑا دھڑ ان ولایتی الفاظ کو سمو لیا۔
ویسے بھی جن انگریزی الفاظ کا اردو متبادل ہے بھی ان میں سے بھی بعض کانوں کو بھلے نہیں لگتے۔ مثلاً لبلبے کو انگریزی میں 'پینکرِیاس' کہتے ہیں۔ خدا لگتی کہیے صوتی اعتبار سے آپ کو کونسا لفظ بھایا؟
غالب کی پوشاکتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionغالب کی پوشاک
ارے آپ تو ویب سائٹ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سمارٹ فون، سیلفی، فیس بُک، پوسٹ، بی بی سی، ڈیجیٹل اور میڈیا سے بھی مانوس نہیں۔ صرف آپ کے لیے میں ان کا بالترتیب لفظی ترجمہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں: جالا مقام، برقیاتی شمارکنندہ، بین الجال، ذہین آلۂ سماعت، خودعکسی، چہرہ کتاب، چسپی، فرنگی نشریاتی ادارہ، ہندسئی، وسلیہ۔
غالب کا ایک شعرتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionان کے بعض اشعار کو اردو کے ساتھ ہندی میں بھی لکھا گیا ہے جب کہ انگریزی میں شعر کا مفہوم بیان کیا گیا ہے
مان گئے نا آپ بھی کہ ترجمے سے اصل فصیح تر ہے۔ ویسے اردو اور انگریزی کے ملاپ سے بننے والی زبان کو بعض لوگ 'اُردریزی' کہتے ہیں۔
برا مت مانیے گا آپ کے شہر دلی میں بھی اردو کا حال بے حال ہے۔
بات ہو رہی تھی آپ کی سالگرہ اور آپ کی حویلی پر میری حاضری کی۔
غالب اور حقہتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionغالب نے اپنا روزہ بہلانے کے لیے حقہ پینے کا ذکر کیا ہے
آپ کے شہر کے تاریخی آثار اور سلاطینِ دلی کی قبریں دیکھنے کے علاوہ میں نظام الدین اولیا، امیرخُسرو، بختیار کاکی اور مٹکا پیر کے مزاروں کو بھی دیکھنے کی غرض سے گیا۔
غالب کی تصویرتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionغالب پسِ مرگ کسی مصور کی آنکھ سے
گزر تو آپ کی آخری آرام گاہ کے پاس سے بھی دو مرتبہ ہوا۔ مگر بقول شخصے آپ نے 'حاضری' کی اجازت نہیں دی۔ کیونکہ مجاور سورج ڈوبتے ہی آپ کی قبر کے احاطے کو مقفل کر دیتا تھا۔
خیر، میں جہاں بھی جاتا وہاں کی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کر دیتا۔
غالب کی حویلیتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionغالب کی شادی تیرہ برس کی عمر میں ہوگئی تھی
میرے رفقائے فیس بک میں سعودی عرب (حجاز) سے ڈاکٹر اسمعیل بھی شامل ہیں۔ انھوں نے شکایت کی کہ تم ہر جگہ گئے مگر غالب کے مزار پر نہیں گئے۔ آپ کی اطلاع کے لیے ان کا اصل وطن سوات ہے۔ یعنی وہ بھی میری طرح پٹھان ہیں۔
ان کی فرمائش پر میں آپ کی حویلی گیا کہ 'سر زیرِ بارِ منت درباں' کر کے 'چند تصاویرِ بتاں' حاصل کر کے پوسٹ کر دوں۔
اب پالکی کا زمانہ تو رہا نہیں، اس لیے چاندنی چوک سے آپ کی حویلی کے لیے سائیکل رکشا لیا۔ مگر رکشابان نے آدھے راستے میں یہ کہہ کر اتار دیا کہ آگے سڑک پر گاڑیوں کا ازدحام ہے لہذا پیدل جانا بہتر ہوگا۔ آپ کی گلی کا پوچھتے پوچھتے آپ کی دہلیز پر پہنچ گیا۔
غالب کی حویلیتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionحکومت نے غالب کی حویلی سے ہیٹر بنانے والوں کو نکال کر اسے قومی ورثے کا درجہ دیدیا ہے
حکومتِ ہند نے بائیس سال پہلے عوامی دباؤ میں آکر حویلی کو ہیٹر (گرمالہ) بنانے والوں سے خالی کروا کر اِسے قومی وِرثہ قرار دیدیا تھا۔ ویسے آدھے حصے میں اب بھی کوئی 'رقیبِ روسیا' دفتر لگائے بیٹھا ہے۔
غالب کی حویلیتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionغالب کی حویلی کے ایک حصے میں ’سفری انصرام کے گماشتے‘ دفتر اور کاغذات کی نقول بنانے والی کی دکان
آپ کو یہ سن کر دکھ ہوگا کہ حویلی کی حالت زیادہ اچھی نہیں۔ آپ کی کچھ یادگاریں محفوظ تھیں۔ گرد میں اٹے اشعار کے طُغرے دیواروں پر آویزاں تھے۔ گھر اور دشت کی ویرانی میں مماثلت پیدا کر کے اپنی حویلی کی بے رونقی کا اقرار تو آپ اپنی زندگی ہی میں کر چکے تھے۔
ستم یہ ہے کہ جس شعر میں آپ نے اس ویرانی کا ذکر کیا ہے اس کے مِصْرَعِ ثانی میں کسی ستم ظریف نے تصرف کر کے اسے الٹا کر دیا ہے۔ یعنی 'دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا' کی بجائے 'گھر کو دیکھ کے دشت یاد آیا' لکھ دیا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ہندی رسم الخط میں بالکل صحیح طور سے نقل کیا گیا ہے۔ جبکہ اس کا انگریزی ترجمہ بھی اصل شعر کے خاصا قریب ہے۔ اپنی بات کا یقین دلانے کے لیے میں تصویر بھی ساتھ لایا ہوں۔ یہ دیکھیے!
غالب کی حویلیتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionکاش غالب کے شعر کے ساتھ ان ہی کی حویلی میں ایسی زیادتی نہ ہوتی
آپ تو خیر انتہائی کمزور مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر کے مصاحب تھے۔ دلی والوں نے تو ایک سڑک کی لوح پر شہنشاہ اکبر اعظم کا نام بھی الٹا لکھ دیا ہے۔ اور یہ سب ایسے میں ہو رہا ہے کہ دلی میں آپ کی قبر کے ساتھ ہی غالب اکیڈیمی قائم ہے اور اب تو شہر میں جشنِ ریختہ کا اہتمام بھی باقاعدگی سے ہونے لگا ہے۔
دلی کا اکبر روڈتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionکیا اکبر روڈ کے اکبر کو کسی نے غور سے نہیں دیکھا
ویسے بقول آپ کے جو 'چند تصویر بتاں، کچھ حسینوں کے خطوط' بعد مرنے کے آپ کے گھر سے نکلے، ان کا وہاں کوئی سراغ نہ تھا۔ ہو سکتا ہے اسی کوتوالِ شہر کی شرارت ہو جو نواب جان کے دل میں آپ کے لیے محبت کی وجہ سے آپ کا عدو بن گیا تھا۔
دیوان غالبتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionحویلی میں رکھا دیوانِ غالب کا بوسیدہ نسخہ
ذکر حویلی کی ویرانی کا ہو رہا تھا۔ میں پہنچا تو وہاں ایک گارڈ (دربان) موجود تھا۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان نے اندر کی کچھ تصاویر بنائیں۔ پھر دو ادھیڑ عمر افراد آئے۔ نام یاد نہیں مگر ایک ہندو تھا دوسرا سِکھ۔ تعارف کے بعد بتایا کہ آس پاس ہی رہتے ہیں اور انھیں اردو پڑھنا نہیں آتی مگر کبھی کبھار اس عظیم شاعر (یعنی آپ) کی حویلی کا چکر لگا لیتے ہیں۔
ان صاحبانِ ذوق سے ملاقات کے بعد جس چیز نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈالا وہ تھی آپ کی حویلی میں دو مزید پٹھانوں کی موجودگی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ افغانستان کے صوبے لغمان سے ہندوستان کسی کام سے آئے تھے اور اگلے روز واپسی سے پہلے مرزا غالب کی حویلی دیکھنے آئے ہیں۔
غالب کی حویلیتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
غالب کی حویلیتصویر کے کاپی رائٹUMER AFRIDI
Image captionبحیثیتِ شاعر دوسروں نے تو غالب کا لوہا مانا ہی ہے، انھیں بھی اپنی عظمت کا بخوبی احساس تھا
گویا سوات کے ایک پٹھان کی فرمائش پر، تیراہ کا ایک پٹھان آپ کی حویلی جاتا ہے اور وہاں دو افغان پٹھانوں سے ملاقات ہوتی ہے۔
استاد ذوق نے تو آپ کی قدر نہیں کی مگر شاید اب وہ گلشن آباد ہو گیا ہے جس کا ذکر آپ نے کیا تھا: 'میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں'
فقط
آپ کے دَرَجات کی بلندی کے لیے دعا گو
عمر آفریدی
پس نویشت: امید ہے کہ ’غمِ عشق اور غمِ روزگار‘ سے چھٹکارے کے بعد اپنے تصورِ ’جنت‘ کی تصدیق یا تردید کر لی ہوگی۔

متعلقہ عنوانات

اسی بارے میں