Tuesday 31 July 2018

RICH FOOD OF VEGETABLE ROOTS


Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-45002300

غذائیت کا پاور ہاؤس جڑ والی سبزیاں

گاجر
Image captionگاجر اور گاجر کا سوپ
بدلتے ہوئے طرز زندگی کے باعث ہمارے کھانے پینے کی عادات خاصی تبدیل ہو چکی ہیں۔ لہذا اب خواتین سطح زمین کے نیچے جڑوں کی شکل میں پیدا ہونے والی سبزیوں کو پکانے کی زحمت نہیں اٹھاتیں۔
لیکن اگر آپ کو ان کے فوائد معلوم ہوں تو آپ جڑ والی ذائقہ دار سبزیوں کو نظر انداز نہ کر پائيں۔
اکثر خواتین ان سبزیوں کو سستی سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہیں۔ جبکہ جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جڑوں کی شکل میں اگنے والی سبزیاں در حقیقت اینٹی اوکسیڈنٹ اور معدنیات سے مالا مال ہوتی ہیں۔
تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ شکر قندی پانچ ہزار سال قبل روایتی دواؤں کا اہم جزو تھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آلو ہماری وٹامن کی روز مرہ ضروریات کا 31 فیصد فراہم کرتے ہیں۔
گاجر کے بارے میں برطانیہ کے محققین کا خیال ہے کہ یہ امراض قلب اور سرطان جیسی موذی بیماریوں سے نہ صرف ہماری حفاظت کرتی ہے بلکہ یہ ہمیں جوان بھی رکھتی ہے۔
انجیر کے ساتھ چقندر کا سلاد
Image captionانجیر کے ساتھ چقندر کا سلاد
الغرض جڑ والی سبزیاں غذائیت کا پاور ہاؤس ہیں۔ زمین کے اندر پیدا ہونے والی سبزیوں کا رنگ واجبی سا ہوتا ہے لیکن یہ ہمیں توانائی دیتی ہیں اور اگر ان کے پکانے میں توجہ دی جائے تو یہ ایک صحت مند زندگی کا ضامن ہو سکتی ہیں۔
مورخ توسانی سمات اپنی کتاب 'کھانوں کی تاریخ' میں لکھتی ہیں کہ دس ہزار سال قبل کھانے کی تلاش میں بھوکے خانہ بدوشوں نے زمین کھود ڈالی اور اس کے اندر ملنے والی جنگلی جڑوں سے اپنی بھوک مٹائی۔ یہ زراعت کی جانب پہلا قدم تھا اور زیر زمین پیدا ہونے والی سبزیوں کی کاشتکاری کا آغاز ہوا اور رفتہ رفتہ جڑ والی سبزیوں کا ذخیرہ بڑھتا گیا۔
انھیں جانوروں کے شکار اور جنگلی پھلوں کی تلاش سے زیادہ ان سبڑیوں کو اگانا آسان معلوم ہوا اور وہ ان کی زراعت اور ترقی میں دل و جان سے لگ گئے۔ آج دنیا ان کی کاوشوں کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
چقندر کا سوپ
Image captionچقندر کا سوپ
آلو، ادرک، لہسن، شلجم، کمل ککڑی، چقندر، گاجر، اروی، مولی، شکر قندی، زمین قند، اور پیاز آج ہماری روز مرہ کی زندگی میں شامل ہے۔
یہ بات حیرت انگیز نظر آتی ہے کہ زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک ہندوستان کے بعض حصوں اور طبقوں میں ان سے پرہیز کیا جاتا ہے گوکہ ان میں شامل بیشتر سبزیاں سال بھر دستیاب رہتی ہیں۔
لیکن جاڑوں اور بہاروں میں ان کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی سبزیوں کا انتخاب موسم کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔ زمین ہمیں موسم کے اعتبار سے ہی سبزیاں دیتی ہے۔
یہ بہت جلد خراب بھی نہیں ہوتیں اس لیے باورچی خانے میں رکھی مل جاتی ہیں اور بوقت ضرورت ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض سبزیوں پیاز، ادرک، لہسن وغیرہ کے بغیر ہم اپنے کھانوں کا تصور نہیں کر سکتے۔
سبزیاں
اروی گو دیکھنے میں گاجر جیسی خوش شکل نہیں ہے لیکن اس کا استعمال وزن کم کرتا ہے، تھکن مٹاتا ہے اور موٹاپے سے نجات دیتا ہے۔ اس میں قدرت نے شفا بخش صلاحیت رکھی ہے۔
شلجم جو سردیوں کی سوغات ہے لامحدود طبی فوائد سے بھرپور ہے۔ اس میں کیلشیم اور پوٹاشیم کے اجزا پائے جاتے ہیں اور سردیوں میں شمالی ہند کے علاقے میں دلی کا خاص پکوان شب دیگ بڑے شوق سے بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح شلجم کا کریمی سوپ، ہلکے مسالے سے بنا بھرتہ، مرغ کے ساتھ پکایا پاستہ بچوں کی محبوب غذا ہے۔
سردیوں میں ان کا ذائقہ دوبالا ہوتا ہے۔ بعض شہروں میں سڑک کے کنارے مولی گاجر اور شکرقندی کی چاٹ گاہکوں کو للچاتی ہیں۔ توے پر بھونی شکرقندی کے قتلے اور اس پر چاٹ مسالے کی پچکاری منھ کا مزہ بدل دیتی ہے۔
زیر زمین اگنے والی سبزیاںتصویر کے کاپی رائٹPA
Image captionزیر زمین اگنے والی سبزیاں
سفید، پیلی، سرخ اور کالی گاجر کا حلوہ جاڑوں کا من بھاتا کھاجا ہے۔ بادام پستوں سے سجا یہ حلوہ حلوائی کی دکان کی رونق بڑھاتا ہے جبکہ گھروں میں گجریلا یعنی گاجر کی کھیر بھی بنائی جاتی ہے۔
آلو، پیاز، ادرک، لہسن وغیرہ کے بغیر باورچی خانہ ادھورا ہے کیونکہ مرغ ہو یا گوشت یا مچھلی ان کا استعمال لازمی ہے۔
ان کے علاوہ پانی کے نیچے بھی سبزیاں اگتی ہیں۔ جھیل اور تالابوں میں کنول کے بے شمار پھول دعوت نظارہ دیتے ہیں لیکن اس کی جڑیں جو پانی میں ہوتی ہیں وہ کشمیر کی محبوب غذا ہے۔ کسان گھٹنوں پانی میں اتر کر پاؤں سے ان کی جڑوں کو نکالتا ہے۔ کشمیر میں لڑکیوں کو کمل ککڑی کاٹنے کا ہنر بچپن سے سکھایا جاتا ہے تاکہ سسرال میں شرمندگی نہ ہو۔
گاجرتصویر کے کاپی رائٹDANISH INSTITUTE OF AGRICULTURAL SCIENCES
Image captionمختلف رنگ کے گاجر
کمل ککڑی کو دیگر علاقوں میں شلوکا بھی کہا جاتا ہے اور یہ قدیم سبزی ہے جس کا ذکر ویدک عہد میں بھی ملتا ہے۔ کشمیر کی جھیلیں کنول سے بھری پڑی ہوتی ہیں اور ان کی جڑیں کشمیری کھانوں کا حصہ ہوتی ہیں۔ ویدک زمانے میں کنول کے جڑ کی چٹنی کنول کے پتے پر رکھ کر بادشاہ اور مہمانوں کی پیش کی جاتی تھی۔
نیمی چندرا نے اپنی کتاب لیلاوتی میں اس کا ذکر کیا ہے کہ یہ چٹنی کپور کے ساتھ بنائی جاتی تھی اور نیلاپتی کہلاتی تھی۔
٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔

Monday 30 July 2018

PALESTINIAN GIRL (TAMIMI) SLABBED ISRAILI ARMY MAN; REALEASED AFTER 8 MONTHS IMPRISONMENT-

ACTION RESEARCH FORUM; 

WE LOVE TAMIMI COURAGE AND PASSION FOR MOTHERLAND.  THESE BANI ISRAEL HAVE BEEN RECKONED  FOR THEIR INHUMAN TORUTERING. NATAN YAHOO AND TRUMP ARE DEEP STATE ON WAR AGAINST WEEKERS.

TIME RESOLVES SUCH IMBALANCES. LET ARAB UNDERSTAND WHAT THEY SHOULD BE,  INSTEAD OF WHAT THEY ARE NIOW. WE SAW LAILA KHALID COURGEOUS WOMEN. 

*** 

Source: https://www.bbc.com/urdu/world-44996848


اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارنے والی فلسطینی لڑکی سزا کاٹنے کے بعد رہا



احمد تمیمیتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionدنیا بھر میں فلسطینوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں نے احمد تمیمی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا

ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارنے والی 17 سالہ فلسطینی لڑکی عھد تمیمی کو آٹھ ماہ قید کی سزا پوری ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
نبی صالع نامی علاقے میں عھد تمیمی نے ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارا تھا۔
عھد تمیمی پر 12 الزامات لگے تھے جن میں سے چار میں وہ قصور وار قرار پائی گئیں۔ ان میں اشتعال انگیزی کا الزام بھی شامل تھا۔
انھیں آٹھ ماہ قید اور5000 شیکلز ($1,440) جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
خیال رہے کہ یہ واقعہ 15 دسمبر سنہ 2017 کو پیش آیا تھا اور اس وقت عھد تمیمی کی عمر 16 برس تھی اور اس واقعے کی ویڈیو ان کی والدہ نے بنائی تھی۔ انھیں اپنے گھر کے باہر ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارتے دیکھا جا سکتا ہے، اس کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے
ان کی والدہ کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر اشتعال پھیلانے کی دفعات عائد کی گئیں۔ سزا میں وہ وقت شامل تھا جو انھوں نے مقدمے کے فیصلے سے قبل زیرحراست گزارا تھا۔
فلسطینیوں کے لیے عھد تمیمی اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاج کی ایک علامت بن گئیں جبکہ دوسری جانب بہت سے اسرائیلی انھیں ایک پرتشدد انسان سمجھتے ہیں جو کہ شہرت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس مقدمے کی سماعت کا آغاز بند کمرے میں 13 فروری کو مقبوضہ غرب اردن میں اوفر فوجی عدالت میں ہوا تھا۔ ان کی وکیل نے اس مقدمے کے لیے اوپن ٹرائل کی درخواست کی تھی تاہم جج کی جانب سے ’کم سن کے مفاد میں‘ سماعت ’ان کیمرہ‘ کرنے کا حکم دیا تھا۔
عھد تمیمی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ان کے رویے کی وجہ یہ تھی کہ اسی دن انھوں نے ان فوجیوں کی جانب سے اپنی کزن کو ربڑ کی ایک گولی مارے جانے کی ویڈیو دیکھی تھی۔


احدتصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE
Image captionعھد تمیمی پہلی مرتبہ 11 سال کی عمر میں منظر عام پر آئی تھیں جب انھیں ایک ویڈیو میں ایک فوجی کو مکے سے ڈراتے ہوئے دیکھا گیا تھا

جبکہ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ انھوں نے فوجیوں کو عھد تمیمی کے گھر اس لیے بھیجا تھا کیونکہ وہاں سے فلسطینی نوجوان پتھراؤ کر رہے تھے۔
بعد میں یہ بھی سامنے آیا کہ تمیمی کے کزن نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ بائیک سے گرنے کی وجہ سے زخمی ہوا تھا۔
دو سال قبل عھد تمیمی کی ہی ایک ویڈیو منظرِعام پر آئی تھی جس میں انھیں ایک اسرائیلی فوجی کے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس اسرائیلی فوجی نے ان کے بھائی کو پتھر پھینکنے کے شبہے میں حراست میں لیا تھا۔
عھد تمیمی پہلی مرتبہ 11 سال کی عمر میں منظر عام پر آئی تھیں جب انھیں ایک ویڈیو میں ایک فوجی کو مُکے سے ڈراتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
عھد تمیمی کی رہائی کے لیے ان کے والد کی جانب سے چلائی جانے والی آن لائن مہم پر 17 لاکھ افراد نے دستخط کیے۔
اس سے قبل انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کا کہنا تھا کہ عھد تمیمی کا کیس اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیلی فوج کس طرح فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ برا سلوک کرتی ہے۔
اسرائیلی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ تین برسوں میں نوجوانوں کے لیے بنائی گئی خصوصی فوجی عدالتوں میں 1400 فلسطینیوں کے خلاف مقدمات چلائے جا چکے ہیں۔

TANZEELA QAMBRANI: FIRST SHEEDI WOMEN TO BECOME MEMBER OF SINDH ASSEMBLY


ACTION RESEARCH FORUM: 

ANCESTRY DNA ANALYSISWILL SHOW REAL ROOTS, WHICH ARE COMMON THESE DAYS.

SOME OF THESE ARE OFTEN CALLED "KALEY SAYYED" WHEN SLAVERY TRADE FOR AMERICA WAS BOOMING RECALL 'KUNTER KANTE'.


Source: https://arynews.tv/en/tanzeela-qambrani-first-sheedi-woman-sindh/

Tanzeela Qambrani: First Sheedi woman to become member of Sindh Assembly

KARACHI: The elections 2018 concluded with some historic representations from minority groups in the assemblies. In one such case, a woman belonging to Sheedi ethnic group has become first such female to make her way into the Sindh Assembly.
Tanzeela Qambrani belongs to Pakistan People’s Party and has been elected on reserved seat for women on the PPP ticket.
The PPP had previously nominated her to head the municipal committee in Matli in Badin district, which, was opposed by some influential group in the district. A PPP member with a clout in the area went against the party decision and competed for the chairman’s post as an independent member. He got support of some other members and got elected eventually.
Tanzeela’s father was a lawyer and mother got retired as a school headmistress.
Tanzeela Qambrani PPP Sheedi woman
In an interview with a local daily, Tanzeela said getting a Sheedi elected was a bold step that required courage and praised Bilawal Bhutto, the son of late Benazir Bhutto for taking such a ‘courageous step’.
Sheedis are the descendants of Africans who brought to the shores of the subcontinent centuries ago. They rose to lofty positions as generals and leaders during the Mughal Empire, which ruled swathes of South Asia.
But, actively discriminated against during British rule, their traditions began to fade, and they found themselves wholly shunned when Pakistan was created in 1947, absent from the country’s elite political circles.



The list mentions Tanzeela Qambrani nominated by the PPP on reserved seats for women.

AFP reports that the figures are scant but it is generally accepted that Pakistan holds the highest number of Sheedis on the subcontinent, upwards of around 50,000 people.
But their history has been scantily written, making it difficult if not impossible for Sheedis — including even those like Akbar whose ancestors arrived in Pakistan relatively recently — to trace their antecedents.
0Save

Comments