Sunday, 24 March 2019

ITALY NEW MEMBER OF CPEC


اٹلی: چین کی نئی شاہراہ ریشم میں شامل پہلا یورپی ملک 23 مار چ 2019 اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر تصویر کے کاپی رائٹREUTERS Image caption معاہدے کے وقت حاضرین نے بہت دیر تک تالیاں بجائیں اٹلی نے چین کے ساتھ اس کی نئی شاہراہ ریشم کا حصہ بننے کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اٹلی جی 7 کا پہلا ملک ہے جو چین کے متنازعہ ’بیلٹ اینڈ روڈ سرمایہ کاری پروگرام‘ کا حصہ بنا ہے۔ چین کے صدر جمعرات کو اٹلی کے دارالحکومت روم پہنچے تھے اور امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ اٹلی کے ساتھ مواصلات کے شعبے میں ایک ایسے تاریخی معاہدے پر دستخط کریں گے جسے اٹلی کے مغربی اتحادی شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ کل ملا کر 2.8 ارب ڈالر کے 29 معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ صدر شی جنگ پنگ کا منصوبہ ایک نئی شاہراہ ریشم بنانے کا ہے جو چین کو یورپ سے جوڑ دے۔ اس نئی تجارتی راہداری سے اٹلی کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھل سکتے ہیں اور اسے نہ صرف چینی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے بلکہ چین سے خام مال درآمد کرنے کے نئے مواقع بھی ہاتھ آ سکتے ہیں۔ لیکن چین کے اس بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے امریکہ اور یورپی یونین میں شامل اٹلی کے دوسرے اتحادی فکرمند ہیں اور وہ چین کی نیت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ بحری و بری راستے چین کی اس نئی شاہراہ ریشم کو ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹِو‘ یا بی آر آئی بھی کا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین دنیا بھر میں مواصلات یا انفراسٹکچر کا ایک جال بچھا رہا ہے اور اس کے لیے بھاری رقوم فراہم کر رہا ہے۔ چین کے بقول اسں سرمایہ کاری کا بڑا مقصد چینی مصنوعات کو نہایت تیزی سے دور دراز کی منڈیوں تک پہنچانا ہے۔ تاہم، ناقدین کہتے ہیں کہ چین نئے سمندری اور زمینی راستوں سے تجارت کے علاوہ عالمی سیاست میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ اب تک چین ریل کی پٹریوں، سڑکوں اور بندرگاہوں پر بھاری رقوم خرچ کر چکا ہے اور یہ نہایت پرکشش تعمیراتی ٹھیکے چینی کپمنیوں کو دیے گئے جن کے لیے چینی بینکوں نے آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے۔ مغربی ممالک کہتے ہیں کہ ان منصوبوں کی وجہ سے افریقہ اور جنوبی ایشیائی ممالک پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر چین یہ سرمایہ کاری نہ کرتا تو ان ممالک میں نہ ریل کے نئے راستے بنتے اور نہ ہی سڑکیں۔ یوگنڈا میں بین الاقوامی ایئر ہورٹ تک رسائی کے لیے چین نے 50 کلومیٹر طویل سڑک پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔ تنزانیہ میں واقع ایک چھوٹا سا ساحلی شہر اب براعظم کی سب سے بڑی بندرگاہ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یورپ میں چینی کپمنیاں اینتھنز کے قریب ایک بندرگاہ کو چلانے والی کمپنی کے 51 فیصد حصص خرید چکی ہیں۔ لیکن اٹلی امیر ترین ملکوں کے اتحاد جی سیون میں شامل وہ پہلا ملک ہو گا جو چین سے امداد لینے جا رہا ہے۔ اگرچہ اٹلی دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہے لیکن پھر بھی روم آج کل کچھ پریشان ہے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں ایک بڑے پُل کے منہدم ہونے سے درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد سے اٹلی کی قدیم بوسیدہ عمارتیں پہلی مرتبہ ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن چکی ہیں۔ اور اٹلی کی معیشت شدید مشکلات کی شکار ہے۔ معیشت کی اس بد حالی کا آغاز سنہ 2018 میں اس وقت ہوا تھا جب دیکھتے ہی دیکھتے اٹلی یورپی یونین کے سب سے زیادہ مقروض ممالک میں شامل ہوگیا۔ پھر جون 2018 میں ایک نئی عوامیت پسند حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو وہ سرمایہ کاری کے بڑے بڑے منصوبے لیکر آئی، لیکن جلد ہی اسے یورپی یونین کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے ان منصوبوں کو پس پشت ڈالنا پڑ گیا۔ تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES Image caption صدر شی جنگ پنگ کے لیے بی آر آئی کا منصوبہ بہت اہم ہے یہی ہے وہ پس منظر جس میں اب چین نے اٹلی میں سرمایہ کاری کی پیش کش کی اور چینی امداد سے ماضی کی بحری شاہراہ ریسشم کے کنارے واقع اٹلی کے قدیم ساحلی شہروں کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔ اٹلی کے وزیر اعظم اس حوالے سے تریئستے اور گنووا کی بندرگاہوں کا ذکر کر چکے ہیں۔ اٹلی کے نائب وزیر برائے تجارت و سرمایہ کاری مسٹر گراسی کے بقول ’دنیا میں چین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ہم اپنی کمپنیوں کے لیے ایک اچھا موقع سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے یورپی اتحادیوں میں سے اٹلی پیچھے رہ گیا ہے اور ہم پہلے ہی وقت ضائع کر چکے ہیں۔‘ چین کو کیا ملے گا؟ یونیورسٹی آف آکسفرڈ سے منسلک عالمی تاریخ کے ماہر پروفیسر پیٹر فرینکوپان کہتے ہیں کہ اٹلی کا یہ قدم زیادہ تر علامتی ہے لیکن پھر بھی ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اٹلی اس چینی منصوبے میں کیوں شامل ہو رہا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اٹلی کے اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا ایک اہم عالمی کردار موجود ہے۔ لیکن پروفسیر فرینکوپان کے بقول ’اس میں اٹلی کے لیے مسائل بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر چین سے بندرگاہوں، ریلوے لائنوں وغیرہ کے لیے سرمایہ نہیں آتا تو پھر پیسہ کہاں سے آئے گا۔‘ روم آمد سے پہلے چینی صدر نے کہا تھا کہ چین اور اٹلی کے درمیان دوستی کی جڑیں ’عظیم تاریخی اثاثے‘ سے جڑی ہوئی ہیں۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ ایک مضمون میں پروفیسر فرینکوپان نے لکھا ’اٹلی میں بنا ہوا‘( Made in Italy) کی مہر کے معنی یہ ہوتے تھے کہ یہ چیز معیاری ہے۔ چاہے یہ اطالوی فیشن ہو یا کوئی اور چیز۔ یہ چیز چینی صارفین کے لیے بڑی بات ہے۔ اسی طرح نوجوان چینی لوگ پیزا اور ترمسو بھی پسند کرتے ہیں۔ میڈ اِن اٹلی کی مہر دنبا بھر میں معیاری مصنوعات کی علامت سمجھتی جاتی ہے۔‘ لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے اٹلی میں قائم چینی کمپنیوں نے اس مہر پر سوالیہ نشان اٹھا دیے ہیں۔ اور جب چین سے کم قیمت خام مال کی برآمد اور اٹلی سے مصنوعات کی برآمد میں اضافہ ہو جائے گا تو اس قسم کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک ’شکاری‘ کی سرمایہ کاری چینی صدر کے دورے کے دوران جن معاہدوں پر دستخط ہونے جا رہے ہیں ان میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا چینی کمپنی ’ہوواوے‘ کو اٹلی میں ذرائع مواصلات کے ٹھیکے ملیں گے یا نہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ پہلے ہی اس کمپنی پر الزام لگا چکا ہے کہ یہ مغربی ممالک میں چینی حکومت کے لیے جاسوسی کرتی ہے۔ اگرچہ یہ بات چین اور اٹلی کے درمیان حالیہ مذاکرات میں باقاعدہ شامل نہیں ہوگی، تاہم تقریباً ایک ہفتہ پہلے یورپی کمیشن نے ’چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور اس کے سیاسی اثرات‘ اور اس کی روشنی میں چین کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کے حوالے سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔ اسی طرح مارچ میں امریکہ کے قومی سلامتی کے ادارے کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’اٹلی ایک بڑی معیشت ہے اور اسے نہیں چاہیے کہ وہ ’چین کے ان تعمیراتی منصوبوں کو پذیرائی بخشے جو محض دکھاوے کے ہیں۔‘ تصویر کے کاپی رائٹOXFORD SCIENCE ARCHIVE/GETTY IMAG Image caption شاہراہ ریشم کا ذکر مارکو پولو کے سفرناموں میں بار بار ملتا ہے تاہم دوسری جانب اطالوی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جو معاہدے ہو رہے ہیں وہ کوئی ایسے بین الاقوامی معاہدے نہیں ہیں جن پر عمل در آمد ضروری ہے۔ اٹلی کے نائب وزیر برائے تجارت و سرمایہ کاری مسٹر گراسی کہتے ہیں کہ ہم خاص منصوبوں کی بات نہیں کر رہے ہیں، بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان جو معاہدہ ہو رہا وہ ایک قسم کی منظر کشی ہے کہ آئندہ دونوں ملکوں کے درمیان کس قسم کا تعاون ہو سکتا ہے۔ وزیر کے بقول دیگر یورپی ممالک پہلے ہی چینی سرمایہ کاری کو قبول کر چکے ہیں۔ مثلاً برطانیہ چین کے ایشیئن انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک سے مالی مدد پر رضامند ہونے والا پہلا یورپی ملک تھا۔ اس کے بعد فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت ہر ملک اسی راستے پر چل رہا ہے۔ ’میرا خیال ہے کہ اس مرتبہ اٹلی اس معاملے میں دیگر یورپی ملکوں سے آگے ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ سب کو حیرت ہو رہی ہے۔‘ متعلقہ عنوانات اٹلییورپچینیورپی یونینمعیشت کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں ای میل فیس بک Messenger ٹوئٹر واپس اوپر جائیں اسی بارے میں تصاویری گیلری سری لنکا میں چینی سرمایہ کاری کے خلاف مظاہرہ 7 جنوری 2017 عمران خان چین میں: سی پیک منصوبے کا مستقبل کیا ہو گا؟ 2 نومبر 2018 ’امریکہ کے لیے چین بھی اتنا ہی بڑا خطرہ جتنا روس' 30 جنوری 2

Sunday, 17 March 2019

کرائسٹ چرچ: ’دہشت گردی‘ کے حملے میں 49 ہلاک، شہری صدمے کا شکار 15 مار چ 2019


https://www.bbc.com/urdu/world-47580048 کرائسٹ چرچ: ’دہشت گردی‘ کے حملے میں 49 ہلاک، شہری صدمے کا شکار 15 مار چ 2019 اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر مسلح افراد کے حملے کے بعد شہری صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ GETTY IMAGES نیوزی لینڈ جاسنڈا آرڈرن نے پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی کہ 49 افراد اس ’دہشت گردی‘ کی بھینٹ چڑھ گئے GETTY IMAGES النور مسجد میں ہونے والے حملے میں بچ جانے والے حمزہ یوسف کرائسٹ چرچ ہسپتال کے باہر اپنی اہلیہ کا انتظار کر رہے ہیں GETTY IMAGES حملے کے بعد شہریوں نے تعزیتی پیغامات اور پھولوں کے گلدستے رکھنے شروع کر دیے ہیں GETTY IMAGES نیوزی لینڈ میں مساجد پر مسلح افراد کے حملے میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حملے میں بچ جانے والا ایک شخص ننگے پیر گھر کی جانب جاتے ہوئے فون پر گھر والوں کو اپنی خیریت سے مطلع رہا ہے AFP بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں کرائسٹ چرچ میں ہونے والے حملے کے خلاف مذمتی مظاہرے شروع ہوگئے GETTY IMAGES کرائسٹ چرچ شہر میں پولیس نے متاثرہ علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے GETTY IMAGES آسٹریلیا میں خواتین کی رگبی کی ٹیم نے میچ سے قبل خاموشی اختیار کی اور اپنے ہاتھوں میں کالی پٹیاں باندھیں GETTY IMAGES کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملے کے بعد ملک بھر میں قومی جھنڈا سرنگوں کر دیا گیا EPA پولیس کمیشنر مائیک بُش کے مطابق حملے ڈین ایوینیو پر واقع مسجد النور اور لِن ووڈ مسجد میں کیے گئے REUTERS حملے کے بعد عینی شاہدین اور متاثرین کے لواحقین REUTERS حملے مںی بچ جانے والے افراد صدمےس ے دوچار اور گھر والوں کو آگاہ کرتے ہوئے REUTERS زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا AFP ملک کی وزیرِ اعظم نے اسے دہشت گردی قرار دیا جس کے باعث شہر صدمے میں ہے REUTERS حملے میں متعدد افراد زخمی ہیں اور 20 سے زائد افراد کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں ای میل فیس بک Messenger ٹوئٹر اسی بارے میں نیوزی لینڈ: دو مساجد پر حملوں میں 49 ہلاک، متعدد زخمی 16 مار چ 2019

Thursday, 14 March 2019


مسعود اظہر: شعلہ بیان مقرر، صحافی اور جہادی ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی 4 گھنٹے پہلے اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES رواں برس پانچ فروری کو یوم کشمیر کے موقعے پر ہمیشہ کی طرح جب مذہبی جماعتوں نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جلوس نکالے تھے تو اس میں کالعدم جیشِ محمد بھی پیش پیش تھی۔ یہ سال کا وہ دن ہوتا ہے جب جیش سڑکوں پر اپنی موجودگی کا کھل کر اظہار کرتی ہے۔ اس دن جیش محمد کی جانب سے کراچی میں منعقدہ جلسے میں مسعود اظہر کا آڈیو پیغام بھی سنایا گیا تھا۔ جس میں انھوں نے شرکا کو جہاد کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا ’ہمت سے لگے رہیں اور ایک ایک کر کے کٹنے کی بجائے سارے ایک ساتھ باہر نکلیں تو انڈیا تو ایک مہینے کی مار نہیں ہے۔‘ کراچی اور مسعود اظہر کا گہرا تعلق رہا ہے۔ انھوں نے جہاد کی دنیا میں قدم رکھنے سے قبل یہاں کے مدرسہ بنوری ٹاؤن میں تعلیم حاصل کی۔ جیش محمد کا قیام بھی یہیں عمل میں لایا گیا تھا اور جب ان کی رہائی کے لیے انڈین طیارہ اغوا کیا گیا تو اغوا کاروں میں بھی اسی شہر کے نوجوان شامل تھے۔ یہ بھی پڑھیے جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت کالعدم، جیش محمد کے اہم ارکان زیرِ حراست انڈین میڈیا پر مسعود اظہر کی موت کی خبریں ’پاکستان غیر ریاستی عناصر کے خلاف ایکشن کا ارادہ رکھتا ہے‘ مذہبی گھرانے میں پیدائش مسعود اظہر نے سنہ 1968 میں پاکستان کے شہر بہاولپور میں ایک مذہبی گھرانے میں جنم لیا۔ ان کے والد طب اور حکمت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے نانا محمد حسین چغتائی تحریک ختم نبوت میں سرگرم تھے اور سنہ 1992 تک مجلس احرار عالمی کے امیر رہے۔ مولانا مسعود نے بہاولپور میں بنیادی تعلیم حاصل کی۔ ساتویں جماعت کے لیے ان کے چچا انھیں رحیم یار خان لے گئے۔ سنہ 1980 میں انھیں کراچی میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی بھیج دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جامعہ بنوریہ کے استاد سعید الرحمان، مسعود کے والد کے دوست تھے۔ استاد سے جہادی مدرسہ جامعہ بنوریہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مسعود اظہر کو وہاں استاد مقرر کر دیا گیا جہاں وہ صرف و نحو کی بنیادی کتب کے علاوہ غیر ملکی طلبا کو پڑھاتے تھے۔ عربی میں دسترس ہونے کی وجہ سے انھیں یہ ذمہ داری دی گئی تھی۔ رسائل جہد میں مولانا طاہر حمید لکھتے ہیں کہ سنہ 1988 میں مولانا مفتی احمد الرحمان افغانستان کے دورے پر گئے تھے۔ جہاں ان کی جلال الدین حقانی سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے طلبہ کو جہاد کی تربیت دلوانے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر جلال حقانی نے مولانا فضل الرحمان خلیل کو کراچی بھیجا کہ وہ طلبہ کو جہاد کی دعوت دیں۔ مولانا طاہر حمید جامعہ بنوریہ میں مولانا مسعود کے ساتھ زیر تعلیم رہے وہ مزید تحریر کرتے ہیں کہ سنہ 1988 کی سالانہ تعطیلات میں مدرسہ بنوری ٹاؤن کے کافی طلبہ تربیت کے لیے افغانستان گئے اور جہاد میں شرکت کی۔ سنہ 1989 میں مسعود اظہر بھی کچھ دیگر رفقا کے ساتھ مجاہدین کے حالات دیکھنے تین روز کے لیے افغانستان گئے لیکن پھر وہاں انھوں نے 40 روزہ تربیت مکمل کی اور مستقل جہاد میں رہنے کا عزم کیا۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو تفتیش کے دوران دیے گئے ایک بیان میں مولانا مسعود اظہر نے بتایا تھا کہ حرکت المجاہدین میں شمولیت کے بعد انھیں عسکری تربیت کے لیے افغانستان بھیج دیا گیا، تاہم کمزور جسامت کی وجہ سے وہ 40 روزہ لازمی کورس مکمل نہ کر سکے۔ تصویر کے کاپی رائٹAFP صحافت کی طرف رخ افغانستان سے واپسی کے بعد مسعود اظہر کی سوچ خیال اور زندگی میں تبدیلی آئی اور وہ کراچی کے علاوہ حیدرآباد، سکھر، کھپرو، نواب شاہ سمیت دیگر علاقوں میں جہاد کی دعوت دینے نکل جاتے تھے۔ اپنے نقطۂ نظر کو بیان کرنے اور جہاد کی تشہیر کے لیے انھوں نے صحافت کا سہارا لیا۔ سنہ 1990 میں جنوری میں ماہنامہ ’صدائے مجاہد‘ کا پہلا شمارہ جاری ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ حرکت المجاہدین کے زیر اثر تھا۔ مسعود اظہر نے 30 سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں جو جہاد اسلامی، تاریخ اور جہادی تربیت و انتظام کاری کے بارے میں ہیں۔ انھوں نے افغانستان جہاد کی اہمیت پر اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ افغانستان میں اچانک جہاد شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے قدیم اسلامی تحریکیں منظم ہو گئیں اور مزید نئی طاقتور تنظیمیں وجود میں آ گئیں۔ انڈیا میں گرفتاری اور رہائی مسعود اظہر عالمی جہاد کے قائل ہیں۔ انھوں نے انڈیا، بنگلہ دیش، سعودی عرب اور زیمبیا کے علاوہ برطانیہ کے بھی دورے کیے۔ ایسے ہی دورے کے دوران انھیں سنہ 1994 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گرفتار کر لیا گیا۔ پاکستان میں ہفت روزہ جریدے ’تکبیر‘ کے مدیر غازی صلاح الدین اور سینیئر صحافی مجیب شامی نے اس وقت ان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے انھیں صحافی قرار دیا۔ سی بی آئی کو دیے گئے بیان میں مولانا مسعود نے بتایا تھا کہ انھیں انڈیا اس لیے بھیجا گیا تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لے سکیں اس مقصد کے لیے پہلے بنگلہ دیش گئے اور وہاں سے پرتگالی پاسپورٹ پر دہلی پہنچے تھے۔ مسعود اظہر کا نام عالمی افق پر اس وقت ابھرا جب کشمیر میں سنہ 1995 میں چھ غیر ملکیوں کو اغوا کر لیا گیا۔ اغوا کار گروپ نے اپنا نام الفاران بتایا اور مسعود کی رہائی کا مطالبہ کیا جسے انڈین حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد عام رائے یہی ہے کہ پانچ سیاحوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ ایک فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ اس کے بعد 24 دسمبر 1999 کو کھٹمنڈو سے دلی جانے والے انڈین ایئر لائن کے طیارے کو اغوا کر لیا گیا، اس طیارے کو قندھار میں اتارا گیا جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ ہائی جیکروں نے طیارے میں سوار 155 مسافروں کی رہائی کے بدلے مولانا مسعود اظہر کی رہائی کا مطالبہ کیا اور طویل مذاکرات کے بعد مولانا مسعود اظہر کے ساتھ عمر سعید شیخ اور کشمیری رہنما مشتاق زرگر کو رہائی مل گئی۔ رہائی کے بعد تینوں رہنماؤں نے اطلاعات کے مطابق اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے ملاقات بھی کی تھی۔ عمر شیخ کو بعد میں کراچی میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور وہ قید میں ہیں۔ جیش محمد کا قیام تصویر کے کاپی رائٹAFP انڈیا میں گرفتاری سے قبل مولانا مسعود حرکت المجاہدین میں شامل تھے۔ انھوں نے رہائی کے بعد کراچی میں جیش محمد کے قیام کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں انھیں جامعہ بنوریہ ٹاؤن سمیت مختلف مدارس کے علما کی حمایت حاصل رہی۔ صحافی سبوخ سید کے مطابق کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ اعظم طارق بھی جیش کے قیام میں مولانا مسعود کے ساتھ ساتھ تھے جس کی وجہ سے حرکت المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمان خلیل اور ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے۔ جیش محمد نے حرکت المجاہدین کے کئی کیمپوں اور دفاتر پر قبضہ کر لیا اس قبضے میں سپاہ صحابہ بھی شریک کار تھی اس کے علاوہ مولانا مسعود کو لال مسجد اسلام آباد کی بھی مکمل حمایت حاصل رہی۔ جیش محمد کے مدرسے کا کنٹرول پنجاب حکومت کے پاس ’مسعود اظہر کے خلاف قرارداد انڈیا کا سیاسی حربہ‘ ’چین نے مسعود اظہر کو بلیک لسٹ کرنے کا راستہ روک دیا‘ کشمیر میں کارروایئوں میں شدت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں بادامی باغ کے قریب فوجی ہیڈ کوارٹر پر 19 اپریل سنہ 2000 میں کار خودکش بم حملہ کیا گیا۔ تحریکِ کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔ انڈین حکام نے اس کا ذمہ دار جیش محمد کو قرار دیا۔ اگلے سال اکتوبر میں جموں و کشمیر اسمبلی اور دسمبر سنہ 2001 میں دہلی میں انڈین پارلیمان پر حملہ کیا گیا اور ان کارروائیوں میں جیشِ محمد کا نام سامنے آیا۔ اس کے بعد کئی برس تک جیش محمد پر کوئی الزام نہیں آیا تاہم سنہ 2016 میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد اس تنظیم کا نام دوبارہ سامنے آیا۔ اس کے بعد انڈیا نے سنہ 2016 میں مزار شریف میں انڈین قونصل خانے اور اڑی پر فوج کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملے کا ذمہ دار بھی جیش محمد کو قرار دیا۔ اور اب تین سال بعد پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد دوبارہ جیشِ محمد اور مسعود اظہر کا نام سامنے آیا۔ تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES مقامی اور بین الاقوامی دباؤ انڈین پارلیمان پر حملے کے بعد امریکہ نے جیش محمد کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم ایف ٹی او کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔ انڈیا کی کوشش رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے جیش محمد اور مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے تاہم چین اس کوشش کو ویٹو کرتا رہا ہے۔ سنہ 2002 میں سابق صدر پرویز مشرف نے جیش محمد پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن بعد میں یہ تنظیم الفرقان کے نام سے سرگرم رہی اور اس نے الرحمت ٹرسٹ کے نام سے فلاحی تنظیم بھی بنائی۔ حکومت اور جیش میں تعلقات میں کشیدگی کے بعد پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے میں جیش محمد کا نام بھی سامنے آیا۔ ایف آئی اے کے مطابق اسے جیش محمد کے سات ملزمان مطلوب ہیں جو پرویز مشرف پر حملے کے علاوہ پولیس ٹریننگ سکول اور پی اے ایف بس پر حملوں اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں ملوث ہیں۔ پورا گھرانہ جہادی جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید احمد اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین کی طرح مولانا مسعود اظہر کا آبائی تعلق کشمیر سے نہیں لیکن ان دونوں جہادی فکر کے رہنماؤں کے برعکس ان کا خاندان عملی طور پر جہاد سے جڑا ہے۔ انڈین حکام نے انڈین ایئر لائن کے اغوا کا مقدمہ مسعود اظہر کے چھوٹے بھائی عبدالرؤف اصغر اور قریبی رشتے دار یوسف اظہر اور دیگر کے خلاف دائر کیا تھا۔ صحافی سبوخ سید کے مطابق مولانا مسعود اظہر کے چار بھائی ہیں۔ ان میں سب سے بڑے مولانا ابراہیم، ان سے چھوٹے مفتی عبدالرؤف اصغر، تیسرے نمبر پر خود مولانا مسعود اظہر ہیں، ان کے بعد طلحہ السیف ہیں اور سب سے چھوٹے بھائی حماد اظہر ہیں۔ گذشتہ سال اکتوبر میں انڈیا کے زیر اہتمام کشمیر میں انڈین فوج کے ساتھ جھڑپ میں ایک نوجوان مارا گیا تھا۔ انڈین حکام نے اس کا نام محمد عثمان ظاہر کیا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ مولانا مسعود کے بڑے بھائی ابراہیم کے فرزند تھے۔ اس سے قبل طلحہ رشید نامی نوجوان کو ہلاک کیا گیا جس کو بھی مولانا مسعود کا قریبی رشتے دار بتایا گیا تاہم خاندان نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ انڈیا مسعود اظہر اور ان کے بھائی عبدالرؤف اصغر کی حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور پلوامہ واقعے کے بعد یہ مطالبہ دوبارہ دہرایا گیا ہے تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی ٹی وی سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسعود اظہر اتنے بیمار ہیں کہ بستر سے اٹھ بھی نہیں سکتے۔ متعلقہ عنوانات بھارتسیاستپاکستانکراچی کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں ای میل فیس بک Messenger ٹوئٹر واپس اوپر جائیں اسی بارے میں جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت کالعدم قرار، جیش محمد کے اہم ارکان سمیت 44 زیرِ حراست 5 مار چ 2019 مسعود اظہر کی موت کی خبریں انڈین میڈیا اور سوشل میڈیا پر 4 مار چ 2019 غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں: شاہ محمود قریشی 1 مار چ 2019 جیش محمد کے مدرسے کا کنٹرول پنجاب حکومت نے سنبھال لیا 22 فروری 2019 پلوامہ حملہ: ذمہ داری قبول کرنے والا گروہ ’جیش محمد‘ کیا ہے؟ 15 فروری 2019 مسعود اظہر کے خلاف قرارداد انڈیا کا سیاسی حربہ: پاکستان 1 جنوری 2017 ’چین نے مسعود اظہر کو بلیک لسٹ کرنے کا راستہ روک دیا‘ 30 دسمبر 2016

Wednesday, 6 March 2019

پلوامہ: حملہ آورعادل ڈار کے گھر کا آنکھوں دیکھا حال زبیر احمد بی بی سی، سرینگر 6 مار چ 2019


پلوامہ: حملہ آورعادل ڈار کے گھر کا آنکھوں دیکھا حال زبیر احمد بی بی سی، سرینگر 6 مار چ 2019 اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر تصویر کے کاپی رائٹZUBAIR AHMAD/BBC Image caption سرینگر میں عادل ڈار کا گھر پلوامہ میں 14 فروری کو ہونے والا خودکش حملہ پاکستان اور انڈیا کو جنگ کے دہانے پر لے آیا۔ یہ حملہ جموں اور سرینگر کی ہائی وے پر ہوا، حملے کی جگہ سے 20 سالہ حملہ آور عادل ڈار کا گھر صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کاک پورہ گاؤں میں اپنے گھر سے ایک برس قبل بھاگ جانے کے بعد عادل ڈار جیش محمد میں شامل ہو گئے اور بندوق اٹھا لی۔ عادل ڈار کا گھر دو منزلہ ہے جہاں ان کے گھر والے پہلی منزل پر رہتے ہیں۔ یہ کسانوں کا خاندان ہے۔ جب میں سردی اور بارش کے موسم میں وہاں پہنچا تو عادل کے دو بھائیوں اور والد نے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ دیر بعد عادل کے والد غلام حسن ڈار نے بات چیت شروع کی اور بولے ’لاش کو یہاں نہیں لایا گیا، بیٹے کی تدفین نہیں ہوئی لہذا سب نامکمل لگتا ہے۔‘ یہ بھے پڑھیے شدت پسند تنظیم ’جیش محمد‘ کیا ہے؟ شدت پسند تنظیموں پر پابندیاں کتنی موثر؟ اوڑی سے پلوامہ حملے تک تصویر کے کاپی رائٹZUBAIR AHMAD/BBC Image caption اسداللہ نائیکو، ریاض نائیکو کے والد جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں سی آر پی ایف اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس ہے؟ انہوں نے جواب دیا ’ سپاہی بھی اپنا کام کر رہے تھے، ان کے خاندان بھی ان کو کھونے کے صدمے سے دوچار ہیں، ہماری طرح کچھ خاندانوں کو بھی ان کے بیٹوں کی لاشیں نہیں ملی ہیں، وہ بھی یہ درد محسوس کر رہے ہوں گے۔‘ عادل جیش محمد کا حصہ تھا لیکن پلوامہ سمیت جنوبی کشمیر میں متحرک جیش محمد اور لشکر طیبہ کی کارروائیاں انتہائی کم ہیں۔ ماہرین کے مطابق جنوبی کشمیر میں سب سے زیادہ متحرک حزب المجاہدین ہے۔ حزب المجاہدین کی قیادت 33 سالہ ریاض نیکو کے ہاتھ میں ہے جو ہمیشہ ایک استاد رہا ہے۔ نیکو کا نام وادی کے ’موسٹ وانٹڈ‘ افراد کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ تصویر کے کاپی رائٹZUBAIR AHMAD/BBC Image caption ریاض نائیکو کی دادی ریاض نائیکو کون ہیں؟ نائیکو کا تعلق پلوامہ کے گاؤں بیگ پورہ سے ہے،سات برس قبل ریاضی میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد نائیکو نے ہتھیار اٹھالیا۔ ریاض نائیکو کے اہل خانہ نے اب یہ تسلیم کر لیا ہے کہ گھر میں جلدی یا دیر سے نائیکو کی لاش ہی آئے گی۔ نائیکوکے والد اسداللہ نائیکو کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی انکاؤنٹر ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا مرنے والوں میں شامل ہوگا۔ جب ان سے علیحدگی پسند تحریک کی حمایت اور بحیثیت والد ان کے جذبات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا ’ بحیثیت مسلمان یہ فخر کی بات ہے، ہم یہ نہیں گے کہ یہ غلط ہے، اگر وہ منشیات یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتا تو ہمارا نام بدنام ہوتا لیکن ہمیں اس بات کا سکون ہے کہ وہ صحیح کام کر رہا ہے۔‘ تصویر کے کاپی رائٹZUBAIR AHMAD/BBC Image caption غلام حسن ڈار، عادل ڈار کے والد کشمیری لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کشمیر میں تعینات سرکاری حکام کے مطابق مقامی لوگ ان جیسے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ڈار یا نائیکو کا خاندان، یہ عام لوگ ہیں لیکن جب ان کے بچے ہتھیار اٹھا لیتے ہیں تو وہ معاشرے میں ایک اعلی مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں۔ انتہا پسندوں کو مقامی لوگوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ اگر مقامی لوگ انھیں پناہ نہ دیں، ان کے لیے کھانے کا بندوبست نہ کریں اور پولیس آنے سے پہلے انہیں خبردار نہ کریں تو یہ تحریک نہ چل سکے۔ لیکن دوسری طرف سیکورٹی فورسز کے پاس بھی مقامی لوگوں پر مشتمل مخبروں کا ایک بڑا نیٹ ورک موجود ہے۔ اکثر انکاؤنٹر کسی مقامی مخبر کی جانب سے پولیس کو شدت پسندوں کی سرگرمیوں کی اطلاع ملنے کے بعد کیے جاتے ہیں۔ ڈار اور نائیکو جیسے لوگ اکثر مقامی لوگوں کی مدد اور آنکھ مچولی کی وجہ سے بچ نکلتے ہیں۔ انکاؤنٹر کے وقت مقامی لوگ کبھی سینہ تان کر پولیس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی ان پر پتھر برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم نے جموں اور کشمیر کے گورنر ستیاپال ملک سے پوچھا کہ کیا حالیہ دنوں میں شدت پسندوں کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ اس کے جواب میں ستیاپال ملک نے کہا کہ ’جہاں تک مجھے ہے معلوم پاکستان میں موجود ان کے سربراہوں پر دباؤ آیا ہے کہ تم نے ہمارا نام ڈبو دیا۔ کسی بڑی کارروائی کی حکمت عملی پاکستان اور آئی ایس آئی کے دباؤ پر تیار کی جاتی ہے۔‘ وادی میں متحرک جیش محمد، لشکر طیبہ اورحزب المجاہدین مختلف نظریات کی تنظیمیں ہیں۔ پہلی دو تنظیمیں پاکستانی ہیں جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں موجود ہیں اور جن میں کچھ مقامی شدت پسند شامل ہیں جبکہ زیادہ تر بارڈر پار سےآتے ہیں۔ ان تینوں تنظیموں سے بنائی گئی جہاد کونسل پاکستان میں ہے، جس میں مسعود اظہر اور خافظ محمد سیعد بھی شامل ہیں۔ نظریات میں فرق کے باوجود اکثر ان میں آپریشنل مطابقت پائی جاتی ہے۔ حکام کے مطابق ایسا پلوامہ میں ہوا۔ کیا اس کے بعد بھی اتنے بڑے حملے ہوں گے؟ دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے ایمن ماجد نے کشمیر میں جاری علیحدگی پسند تحریک پر خاصی تحقیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں اس طرح کے اور حملے نہیں ہوں گے۔ میڈیا یہ کہہ رہا کہ کشمیر میں ایسے حملے دوبارہ ہوں گے لیکن میری سمجھ ہے کہ ایسے بڑے حملے کبھی کبھار ہوتے ہیں۔‘ تصویر کے کاپی رائٹEPA پلوامہ حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ لیکن کیا یہ حکومت کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے؟ یونیورسٹی آف کشمیر میں تدریس سے وابستہ ابراہیم وانی کا کہنا ہے کہ حکومت نے گزشتہ برس دعویٰ کیا تھا کہ وہ شدت پسندی پر قابو پا چکی ہے لیکن پلوامہ حملہ اس کی نفی کرتا ہے۔’2018 میں دعوی کیا گیا کہ بہت سے شدت پسند مارے جا چکے ہیں جسے فوج کی کامیابی سمجھا گیا لیکن پلوامہ نے اسے غلط ثابت کر دیا۔ حکام جانتے ہیں کہ انکاؤنٹر میں ایک شدت پسند مرتا ہے تو دوسرا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ایک وقت میں ریاست میں متحرک مسلح نوجوانوں کی تعداد 150 سے 250 ہے۔ شدت پسند جانتے ہیں کہ یہ تعداد سیکورٹی فورسز کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔ جنوبی کشمیر میں حملوں کی تعداد زیادہ ہے جس میں سکیورٹی اہلکاروں کے مرنے کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ حزب المجاہدین پہاڑی علاقوں میں زیادہ متحرک ہے جہاں جنگلات بھی کم ہیں۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد کے شدت پسندوں کو مشکل درپیش آسکتی ہے کیونکہ انھیں کشمیری زبان نہیں آتی ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کے مطابق شمالی کشمیر میں جیش محمد اور لشکر طیبہ کے شدت پسندوں کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ پہاڑوں اور جنگل کے راستوں سے واقف ہیں اور وہ حزب اللہ کے نوجوانوں سے زیادہ تجربہ کار ہیں اور پاکستان سے زیادہ لوگ آ کر ان میں شامل ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ہندوارا میں ایک انکاؤنٹر 72 گھنٹوں تک جاری رہا جس میں سیکورٹی اہلکار مارے گئے۔ ایک رپورٹر نے وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان سے آئے تھے لہذا انہیں کنٹرول کرنا مشکل تھا۔ تصویر کے کاپی رائٹZUBAIR AHMAD/BBC اب آگے کیا ہو گا؟ گورنر ستیا پال کا خیال ہے کہ پلوامہ کا حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب لگ رہا تھا کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ انھوں نے اعترف کیا کہ کشمیر میں جاری تشدد کا صرف ایک حل ہے اور وہ یہ کہ بات چیت شروع کی جائے لیکن ان کے مطابق ’ پہلے چیزوں کو بہتر ہونا چائیے، اگر پاکستان شدت پسندوں کی سپورٹ چھوڑ دیتا ہے تو اس کے بعد ہی مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔ غلام حسن ڈار ایک خود کش حملہ آور کے والد ہیں، وہ بار بار ان حالات کا ذمہ دار ریاست کے رہنماؤں کو سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو شدت پسند بننے سے نہیں روک پائے لیکن ان کے خیال میں پرتشدد کارروائیاں روکنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان، بھارت اور کشمیر کے درمیان بات چیت ہو۔ غلام حسن ڈار کے مطابق پر تشدد کارروائیوں میں ایک انسان مر جاتا ہے، ’ہندو، سکھ اور مسلمان سب انسان ہیں اور ایک انسان ہی مرتا ہے، بہتر ہوتا اگر لیڈر خود غرض بننے کی بجائے کشمیر کا مسئلہ حل کرتے۔‘ پلوامہ حلمے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے انکاؤنٹروں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پرتشدد کارروائیوں کا جلدی خاتمہ ابھی ممکن نہیں ہے۔ متعلقہ عنوانات انڈیا پاکستان فضائی حملےکشمیربھارتسیاستجنگمسئلہ کشمیرپاکستان کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں ای میل فیس بک Messenger ٹوئٹر واپس اوپر جائیں اسی بارے میں اوڑی سے پلوامہ حملے تک 15 فروری 2019 جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت کالعدم قرار، جیش محمد کے اہم ارکان سمیت 44 زیرِ حراست 5 مار چ 2019 پلوامہ حملہ: ذمہ داری قبول کرنے والا گروہ ’جیش محمد‘ کیا ہے؟ 15 فروری 2019 شدت پسند تنظیموں پر پابندیاں کتنی موثر ہیں؟ 4 مار چ 2019 پاکستان انڈیا کشیدگی: ورکنگ باؤنڈری کے قریبی دیہات کے باسی مسلسل خوف کا شکار 5 مار چ 2019