BB (BENAZEER) MURDER MYSTERY IN FAITH ORIENTED COUNTRY --> COUNTRY PAYING COST.
ACTION RESEARCH FORUM: CANDIDATE CASES OF BB MURDER MYSTERY ENDS UP ON FOOTPRINTS, BLOODMONEY BENEFICIARIES, ERUM PALZA FLATS, PUBLIC DISREAGARD OF BB AT KARACHI AIRPORT WHERE SHE WAS RUDELY TRATED BY THE CULPRIT AND FEAR AND GREED OF سب پر بھاری . WHO ADMINSITERED CLEANING OF RED BLOOD SPOTS, AND LIKEWISE DEFAULT LOGICAL PATH OF EVIDENCES, THEY WERE NOT ANGELS. UNFORTUNATE PAKISTAN, BUT TIME WILL RESOLVE. Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-42473098
دس سالہ معمہ: پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کا قاتل کون؟
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionراولپنڈی کے لیاقت باغ میں 27 دسمبر 2007 کو پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینیظر بھٹو انتخابی ریلی کے دوران جہاں انھیں تقریب کے اختتام پر خود کش حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔
بینظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون تھیں جنھیں کسی ملک کی سربراہی کا موقع ملا۔ مگر دسمبر 2007 میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوجانے کے بعد اگلے دس سالوں میں یہ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ آیا کہ پاکستان کا نظام کیسے کام کرتا ہے بجائے یہ معلوم ہونے کے کہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو قتل کرنے کا حکم کس نے دیا تھا۔
27 دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو کو 15 سالہ بلال نے خود کش دھماکے کی مدد سے قتل کر دیا۔ اس وقت بینظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی ریلی سے خطاب کر کے واپس جا رہی تھیں جب بلال ان کی گاڑی کے قریب گیا، پہلے انھیں گولی ماری اور پھر اس کے بعد خود کو اڑا لیا۔ بلال نے یہ حملہ پاکستانی طالبان کے حکم کے مطابق کیا۔
بینظیر بھٹو قتل کیس کے بارے میں جاننے کے لیے مزید پڑھیے
بینظیر بھٹو پاکستان کے پہلے جمہوری وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد کا سیاسی سفر ایک فوجی آمر نے ختم کیا جب 1979 میں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں انھیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
بینظیر بھٹو اس کے بعد دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں لیکن ملک کی فوج نے کبھی بھی ان پر اعتبار نہیں کیا اور کرپشن کے الزامات کی مدد سے انھیں حکومت سے نکال باہر کیا۔ اپنی موت کے وقت بینظیر بھٹو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لیے انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionراولپنڈی کے لیاقت باغ میں 27 دسمبر 2007 کو پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینیظر بھٹو انتخابی ریلی کے دوران جہاں انھیں تقریب کے اختتام پر خود کش حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔
بینظیر بھٹو کی موت کے بعد پاکستان میں بڑے پیمانے پر بدامنی پھیل گئی۔ ان کے چاہنے والوں نے سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ کیا اور ملک کے خلاف نعرے بازی کی۔
2007 میں پاکستان کے صدر اور فوجی آمر، سابق جنرل پرویز مشرف نے دس سال بعد دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ شاید ملک کی سٹیبلشمینٹ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سٹیبلیشمینٹ میں موجود سرکش عناصر کا پاکستانی طالبان سے بینظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تعلق تھا، تو انھوں نے جواب دیا: 'شاید۔ ہاں بالکل۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ مذہبی طور پر بٹا ہوا ہے۔'
اور پرویز مشرف کے مطابق ان عناصر کی موجودگی شاید بینظیر بھٹو کی موت کا سبب بنی ہو۔
پاکستان کے سابق سربراہ کی زبان سے نکلا ہوا یہ فقرہ کافی تعجب انگیز ہے۔ عمومی طور پر پاکستان میں فوجی رہنما شدت پسند جہادی حملوں میں ریاست کے ملوث ہونے کے الزام کو قطعاً غلط قرار دیتے ہیں۔
یہ پوچھنے پر کہ کیا انھیں ریاست کے شرپسند عناصر کے اس حملے میں ملوث ہونے کے بارے میں کوئی مخصوص معلومات تھیں، تو پرویز مشرف نے جواب دیا: 'میرے پاس کوئی حقائق تو موجود نہیں ہیں۔ لیکن میرے خیال میں میرا اندازہ کافی حد تک درست ہے۔ ایک ایسی خاتون جو مغربی ممالک کی جانب مائل ہو، وہ ان عناصر کی نظر میں آسکتی ہے۔'
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionپاکستان کے سابق صدر اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف پر بھی اس مقدمے میں مختلف الزامات لگے ہیں
پرویز مشرف پر خود اس مقدمے میں قتل کا الزام، قتل کی سازش اور قتل کرنے کے لیے مدد فراہم کرنے کے الزامات لگے ہیں۔ سرکاری وکلا کے مطابق پرویز مشرف نے 25 ستمبر کو بینظیر بھٹو کو فون کیا جب وہ نیو یارک میں تھیں اور اپنی آٹھ سالہ ملک بدری ختم کرنے سے تین ہفتے دور تھیں۔
بینظیر بھٹو کے طویل عرصے سے قریبی رفیق مارک سیگل اور صحافی ران سسکنڈ دونوں نے بتایا کہ وہ اس فون کال کے وقت بینظیر بھٹو کے ساتھ موجود تھے۔
مارک سیگل کہتے ہیں کہ فون کال ختم ہونے کے فوراً بعد بینظیر بھٹو نے کہا:'اس نے مجھے دھمکی دی ہے۔ اس نے کہا کہ واپس مت آؤ ۔ اس نے مجھے خبردار کیا کہ واپس مت آنا۔'
'اس نے کہا کہ میرے واپس آنے کے بعد اگر مجھے کچھ ہوا تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا اور مزید کہا کہ میری زندگی کی سلامتی اور سکیورٹی پرویز مشرف سے میرے تعلق پر منحصر ہے۔'
دوسری جانب پرویز مشرف سختی سے ایسی کسی بھی کال کرنے کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کے اقدامات جاری نہیں کیے۔
بی بی سی سے حال ہی میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس پر ہنستا ہوں۔ میں کیوں کروں گا اسے قتل؟'
لیکن پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی اس وقت معطل ہے کیونکہ کہ سابق صدر اس وقت دبئی میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹAFPImage captionبینظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو ان کے سیاسی وارث کے طور پر ابھرے ہیں
دوسری جانب بینظیر بھٹو کے صاحبزادے اور سیاسی وارث بلاول بھٹو پرویز مشرف کے صفائی کی مکمل تردید کرتے ہیں۔ 'پرویز مشرف نے ساری صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میری والدہ کو قتل کروایا۔ انھوں نے جان بوجھ کر میری والدہ کی سکیورٹی کو کمزور کیا تاکہ وہ قتل ہو جائیں اور منظر سے ہٹ جائیں۔'
پرویز مشرف کے خلاف کاروائی تو اس وقت رکی ہوئی ہے لیکن اس مقدمے میں نامزد دوسرے افراد کو بری کر دیا گیا ہے۔
بینظیر بھٹو کے قتل کے چند ہفتوں بعد پانچ ملزمان نے 15 سالہ بلال کی القاعدہ اور طالبان کے کہنے پر مدد کرنے کا اعتراف کیا۔
حراست میں لیے جانے والے پہلے شخص اعتزاز شاہ کو پاکستانی طالبان نے کہا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کے لیے خودکش بمبار منتخب ہوا ہے۔ لیکن اسے متبادل بمبار کی حیثیت پر منتقل کر دیا گیا تھا جو اس وقت سامنے آتا اگر پہلی کوشش ناکام ہو جاتی اور اس بات پر وہ خفا بھی ہوا۔
اس کے علاوہ دو اور افراد، رشید احمد اور شیر زمان نے اعتراف کیا کہ وہ اس سازش میں درمیانے درجے کے منتظمین تھے اور ان کے علاوہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے دو رشتہ دار حسنین گل اور رفاقت حسین نے حکام کو بتایا کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کو قتل کرنے سے ایک رات قبل بلال کو رہائش فراہم کی تھی۔
گو کہ یہ تمام اعترافی بیانات بعد میں واپس لے لیے گئے تھے، بینظیر بھٹو کے قتل سے چند گھنٹے قبل ملنے والے فون ریکارڈ سے سازشیوں کے محل وقوع اور گفتگو اِن اعترافی بیانات کی سچائی کی تصدیق کرتی ہے جو کہ بعد میں واپس لے لیے گئے تھے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionراولپنڈی کے لیاقت باغ میں خود کش دھماکے میں بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے علاوہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے تھے
حسنین گل نے پولیس کو اس اپارٹمنٹ میں مزید شواہد دکھائے تھے جہاں بلال نے رات گزاری تھی۔ بلال کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے اور اس اپارٹمنٹ سے ملنے والے ڈی این اے کو بعد میں امریکی لیب میں تصدیق کے لیے بھیجا گیا جہاں وہ آپس میں برابر کا جوڑ ثابت ہوئے۔
اب سے کچھ ماہ قبل تک اس مقدمے پر تفتیش کرنے والے سرکاری وکلا کا خیال تھا کہ وہ مبینہ منصوبہ سازوں تک پہنچ جائیں گے لیکن ستمبر میں ان کے عزائم کے سامنے رکاوٹ آگئی جس سے یہ مقدمہ ختم ہو گیا کیونکہ کہ جج نے یہ فیصلہ دیا کہ شواہد جمع کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کے طریقہ کار میں غلطیاں تھیں جس کا مطلب تھا کہ تمام ملزمان کو بری کیا جائے۔ ابھی بھی پانچوں ملزمان اپیل کا نتیجہ آنے تک حراست میں ہیں۔
پاکستان میں یہ عام بات ہے کہ لوگ بینظیر بھٹو کے قتل کا قصوروار ان کے شوہر آصف علی زرداری کو ٹھراتے ہیں۔ یہ الزام لگنے کی وجہ یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ انھیں ہوا کیونکہ وہ ملک کے صدر بن گئے تھے۔
لیکن ان الزامات لگانے والوں نے آج تک ایسے کوئی بھی قابل قبول ثبوت پیش نہیں کیے ہیں جو آصف علی زرداری کا ان کی بیوی کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کو ثابت کر سکے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionآصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کے لیے اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کو پاکستان بلایا
آصف علی زرداری نے خود بھی ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ 'چپ رہیں۔'
آصف علی زرداری پر ایک اور الزام یہ بھی کہ انھوں نے اپنے دور صدارت میں مکمل طاقت رکھنے کے باوجود اپنی بیوی کے قاتلوں کی تلاش میں ناکام رہے۔
متعد خفیہ دستاویزات جو بی بی سی نے حاصل کی ہیں ان کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کی جانب سے کی گئی تفتیش اتنی خراب طریقے سے کی گئی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ پولیس والے نچلے درجے کے کارکنان کی گرفتاری کے بعد اصل سرغنہ یا ان کے گروہ کو ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
پولیس کی تفتیش میں کوتاہیاں 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد کافی عیاں ہوئیں۔
اس واقعے میں دو خود کش بمباروں نے بینظیر بھٹو کے کراچی ایئرپورٹ سے شہر آنے والے قافلے پر حملہ کیا جس میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور یہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں سب سے بڑے واقعات میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔
پولیس کی اس حملے میں تفتیش اتنی نیم دلی سے کی گئی تھی کہ خودکش بمباروں کی کبھی بھی شناخت نہ ہوسکی۔ اس تفتیش کے سربراہ، سعود مرزا نے کہا تھا کہ ایک شخص کی انھوں نے اُس کے چہرے کے مخصوص نقوش سے شناخت کی تھی کہ وہ کراچی میں رہائش پزیر افریقی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ خودکش بمباروں کی شناخت کے حصول میں یہ اہم اطلاع کبھی بھی عام عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔
تصویر کے کاپی رائٹAFPImage captionبینظیر بھٹو پر 18 اکتوبر 2007 کو کراچی میں ہونے والے حملے میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے
سابق صدر آصف علی زرداری پولیس پر کی جانے والی تنقید کے جواب میں کہتے ہیں کہ انھوں نے سکاٹ لینڈ یارڈ سے اپنی بیوی کے قتل کی تفتیش کی مدد لی تھی اور ساتھ ساتھ اقوام متحدہ سے تفتیشی کمیشن بھی بنوایا تھا جس نے بینظیر بھٹو کے قتل اور اس سے پہلے کے حالات اور عوامل کا جائزہ لیا تھا۔
لیکن اس انکوائری کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ تفتیش کے دوران ان کی راہ میں بار بار روڑے اٹکائے گئے اور یہ رکاوٹیں صرف فوج کی جانب سے نہیں بلکہ صدر زرداری کے وزرا کی جانب سے بھی کھڑی کی گئیں۔
انکوائری کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے بتایا: 'اسٹیبلیشمینٹ سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد تھے جن سے ہمیں انٹرویو کرنا تھا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔' ہیرالڈو منوز کہتے ہیں کہ منع کرنے والوں میں فوجی اہلکار اور سیاست دان دونوں شامل تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ تفتیش میں پیش قدمی ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے ان کو فراہم کیا ہوا حفاظتی مکان بھی واپس لے لیا گیا اور ان کی حفاظت پر معمور سیکورٹی اہلکاروں کو بھی ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا۔
اس بات میں قطعی طور پر کوئی شک نہیں ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے عوامل ڈھونڈنے کے عمل کو روکا گیا ہے۔
بی بی سی کی جانب سے کی گئی تفتیش سے یہ ثبوت ملا ہے کہ وہ دو افراد جنھوں نے بلال کو بینظیر بھٹو تک پہنچنے میں مدد کی تھی انھیں 15 جنوری 2008 کو ایک فوجی چوکی پر مار دیا گیا۔ زرداری حکومت کے ایک اعلی عہدے دار نے بی بی سی کو نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ 'ان دونوں کا قتل انکاؤنٹر تھا' جو کہ پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کا عام نام ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹAFPImage captionآصف زرداری صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار اپنی بیوی بینظیر بھٹو کی قبر پر پھول ڈالتے ہوئے
نادر اور نصراللہ طالبان کے حامی حقانی نیٹ ورک کے مدرسے میں طلبہ تھے۔ اس مدرسے سے تعلق رکھنے والے اور سازشی بھی ہلاک کیے جا چکے ہیں۔
بی بی سی نے اس تفتیش سے متعلق ایک نہایت جامع پریزینٹیشن حاصل کی جو کہ سندھ اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔ اس کے مطابق حقانی مدرسے کے سابق طلبہ اور بم بنانے کے ماہر عباد الرحمان نے بلال کو خود کش جیکٹ فراہم کی تھی جس کی مدد سے بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ عباد الرحمان کو پاکستان کے قبائلی علاقے میں 13 مئی 2010 کو قتل کر دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ عبدللہ بھی تھے جو اس پریزینٹیشن کے مطابق خود کش جیکٹ کو حملے سے پہلے راولپنڈی تک پہنچانے کے ذمہ دار تھے۔ وہ مہمند ایجنسی میں 31 مئی 2008 کو ہونے والے ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔
بینظیر بھٹو قتل کیس سے منسلک اموات میں سے ایک انتہائی اہم موت خالد شہنشاہ کی تھی جو کہ سابق وزیر اعظم کے سکیورٹی گارڈز میں سے ایک تھے۔ خالد شہنشاہ بینظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کے دن ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر تھے جب وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنی تقریر ختم کر رہی تھیں۔
اس دن کی ملنے والی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خالد شہنشاہ نے کچھ عجیب و غریب حرکات کی تھیں جن کا کوئی جواز نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے ان کی تسلی بخش وضاحت کی ہے۔ اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خالد شہنشاہ کا سر تو اپنی جگہ ساکن تھا لیکن انھوں نے اپنی آنکھیں بینظیر بھٹو کی جانب اٹھائیں اور ساتھ ساتھ اپنی انگلیوں سے گلا کاٹنے کا اشارہ بنایا۔ یہ فوٹیج سامنے آنے کے بعد وائرل ہو گئی اور اس کے چند ماہ بعد، 22 جولائی 2008 کو انھیں کراچی میں اپنے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
دوسرے اہم ہلاک ہونے والے شخص تفتیش پر معمور سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار تھے۔ ان کی ساکھ بحیثیت نہایت قابل اور مستقل مزاج وکیل کے طور پر تھی اور انھوں نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں کافی پیش قدمی حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
3 مئی 2013 کو اسلام آباد میں وہ عدالت جا رہے تھے جب انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
اور تیسرا شخص وہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مار دیا ہے لیکن وہ درحقیقت ابھی زندہ ہے۔
مبینہ سازشیوں نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ بینظیر بھٹو پر حملے والے دن ایک اور خود کش بمبار اکرام اللہ بلال کے ہمراہ تھا۔ کیونکہ بلال اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تو اکرام اللہ کی ضرورت نہیں پیش آئی اور وہ وہاں سے چلا گیا۔
سالوں تک پاکستان حکام کہتے رہے کہ اکرام اللہ کو ڈرون حملے میں ہلاک کیا جا چکا ہے۔ 2017 میں مرکزی پراسکیوٹر محمد اظہر چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستانی تفتیشی اداروں کی جانب سے جمع کیے گئے شواہد کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا 'اکرام اللہ زندہ نہیں ہے۔'
لیکن اگست 2017 میں پاکستان حکام نے 28 صفحات پر مبنی ایک فہرست جاری کی جس میں ملک کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گردوں کا نام درج تھے۔ اس فہرست میں نویں نمبر پر درج نام جنوبی وزیرستان کے رہائشی اکرام اللہ کا تھا اور ان کے نام کے آگے درج تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹAFPImage captionگڑھی خدا بخش میں بینظیر بھٹو کا مزار جہاں بھٹو خاندان کے اور افراد بھی مدفن ہیں
اندازہ ہے کہ اکرام اللہ اس وقت مشرقی افغانستان میں مقیم ہے جہاں وہ پاکستانی طالبان کے لیے درمیانے درجے کا کمانڈر بن چکا ہے۔
گذشتہ دس سالوں میں اب تک بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں صرف دو پولیس اہلکاروں کو سزا ہوئی ہے جنھوں نے جائے قتل کو دھو دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ کئی پاکستانی ان کی سزا کو ناانصافی قرار دیتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ پولیس ایسا کام فوج کے کہنے کے بغیر کر ہی نہیں سکتی۔
یہ ایک دفعہ پھر ظاہر کرتا ہے کہ حاضر اور ریٹائرڈ فوجی افسران پر مبنی پاکستان کی اسٹیبلیشمینٹ ایک خفیہ نیٹ ورک ہے جو کہ ملک کے قومی مفاد کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اسی کے تحفظ کی خاطر فیصلے کرتے ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹAFPImage captionاس مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری اظہر نے سماعت کے دوران حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی آڈیو ریکارڈنگ اس مقدمے کے ملزم اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تیار کی تھی
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں بری کیے جانے والے پانچ افراد کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
ان افراد میں رفاقت، حسنین گل، شیر زمان، عبدالرشید اور اعتزاز شاہ شامل ہیں۔
بینظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے کے فوری بعد پنجاب حکومت نے وزارت داخلہ اور پولیس کے انسداد دہشت گردی کے محکمے کی سفارشات کی روشنی میں ان افراد کو خدشہ نقص امن کے تحت 30 روز کے لیے نظربند کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ31 اگست کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ پانچ افراد کو رہا جبکہ سابق ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد کو 17،17 سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
سابق وزیر اعظم کے قتل کے بعد ان افراد کو مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ گذشتہ 9 سال سے اڈیالہ جیل میں قید تھے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں رہائی پانے والے افراد کو نہ ہی اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی اُنھیں اس مقام کے بارے میں بتایا گیا ہے جہاں پر ان افراد کو رکھا گیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں کالعدم تحریک طالبان نے مالاکنڈ ڈویژن کے کمشنر کے توسط سے حکومت کو جن 300 افراد کو رہا کرنے کے بارے میں کہا تھا ان میں بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے رفاقت اور حسنین گل بھی شامل تھے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان افراد کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
دوسری طرف وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں اس فیصلے کی مصدقہ نقول حاصل کرنے کے لیے متعلقہ عدالت میں درخواست دے دی ہے۔
اس مقدمے کے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر نے بی بی سی کو بتایا کہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 15 ستمبر کو فیصلے کی مصدقہ نقل مل جائے گی۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی بینظیر بھٹو کے قتل کے اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ تو کیا ہے لیکن ابھی تک اس جماعت کی طرف سے اس فیصلے کی مصدقہ نقل حاصل کرنے کے لیے متعلقہ عدالت میں درخواست نہیں دی گئی۔
تصویر کے کاپی رائٹISHTIAQ MEHSUDImage captionاکرام اللہ محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین سے ہے
پیپلز پارٹی کی رہنما اور دو مرتبہ وزیر اعظم بننے والی بینظیر بھٹو کو قتل کرنے والا شخص ایک نوجوان سعید عرف بلال تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے لیاقت باغ میں بینظیر کی گاڑی کے قریب پہلے گولی چلائی اور اس کے فوراً بعد خود کو بم سے اڑا دیا۔
تاہم اس واقعے کی تحقیقات کرنے والوں کو یقین ہے کہ بینظیر کے قتل کے لیے ایک نہیں بلکہ دو خودکش حملہ آور بھیجے گئے تھے۔ اس دوسرے حملہ آور کا نام اکرام اللہ محسود بتایا گیا لیکن وہ زندہ ہے یا ہلاک ہوچکا ہے اس بارے میں خود تمام حکومتی تحقیقاتی ادارے واضح نہیں ہیں۔
پنجاب پولیس اور ایف آئی اے کی تحقیقات میں ایک فرق یہ بھی ہے۔ ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق بینظیر پر حملے کے وقت دو مختلف شدت کے دھماکے ہوئے جبکہ پنجاب پولیس کے خیال میں دھماکہ ایک ہی تھا جو بلال نے کیا تھا۔
ایف آئی اے کے تحقیقات کاروں کے خیال میں اکرام اللہ دوسرا بمبار تھا جس نے لیاقت باغ کے گیٹ کے قریب خود کو اڑایا تھا۔ بینظیر بھٹو کے مقدمۂ قتل کے سرکاری وکیل چوہدری اظہر کے مطابق دو دھماکوں کی تصدیق لیبارٹری رپورٹس سے بھی ہوتی ہے۔
چوہدری محمد اظہر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی اداروں کی چھان بین کے مطابق اکرام اللہ محسود ہلاک ہو چکے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں جو رپوٹس ملی ہیں ان کے مطابق اکرام اللہ ہلاک ہوچکے ہیں۔ 'ان افراد کے اہل خانہ اور مقامی پولیٹکل انتظامیہ کی رپورٹس میرے پاس ہیں جن میں اکرام اللہ کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔' ان کے بقول یہ رپورٹس چالان میں شامل نہیں ہیں لیکن ان کے پاس موجود ہیں۔
لیکن اس کے برعکس پنجاب کی صوبائی حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں میڈیا کو جاری کی گئی انتہائی مطلوب افراد کی ایک فہرست میں اکرام اللہ محسود کا نام بھی موجود ہے۔
حکومتِ پنجاب نے اکرام اللہ محسود کی گرفتاری یا ہلاکت کی صورت میں 20 لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا ہوا ہے۔ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہونے کا مطلب ہے کہ کم از کم حکومتِ پنجاب ان کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کر رہی ہے۔
قبائلی علاقے کے صحافی اشتیاق محسود کی تحقیقات کے مطابق بھی اکرام اللہ محسود زندہ ہیں اور افغانستان میں روپوش ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹISHTIAQ MEHSUDImage captionایف آئی اے کے تحقیقات کاروں کے خیال میں اکرام اللہ دوسرا بمبار تھا جس نے لیاقت باغ کے گیٹ کے قریب اپنے آپ کو اڑایا تھا
'وہ اس وقت افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان شہریار گروپ کے پاس ہے۔ اس پر گذشتہ دنوں ماہ رمضان میں افغانستان میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس میں وہ بال بال بچ گیا تھا۔'
ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستانی حکام نے اس کی گرفتاری کے لیے گذشتہ دنوں اس کے خاندان کے کئی لوگوں کو جن میں اکرام اللہ محسود کا دس ماہ کا بچہ اور سسر شامل ہیں حراست میں لیا تھا۔
اشتیاق محسود کے مطابق انھیں بعد میں اس تنبیہ کے ساتھ چھوڑ دیا گیا کہ وہ اکرام کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہیں گے۔
اکرام اللہ مسحود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین سے ہے۔ وہ بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے اور سنہ دو ہزار سات میں قائم ہونے والی تحریک طالبان کے سرگرم رکن بھی تھے۔
وزارت داخلہ نے بینظیر بھٹو کے قتل کے فورا بعد بیت اللہ محسود کی ایک نامعلوم شخص کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو ٹیپ کی جو میڈیا کو جاری کی گئی تھی۔ اس میں بھی وہ شخص بیت اللہ کو بتا رہا ہے کہ کارروائی کرنے والے بلال اور اکرام تھے ۔
وزارت داخلہ کے مطابق بینظیر بھٹو پر حملے کی سازش پر عمل کے لیے پانچ رکنی ٹیم تیار کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کے ابتدائی بیانات کے مطابق ان میں سے دو خودکش حملہ آور تھے۔
مبصرین کو امید ہے کہ دس سال کی تحقیقاتی اور قانونی کوششوں کے بعد اکرام اللہ محسود کے زندہ یا ہلاک ہونے کے بارے میں صورتحال پر بھی حکام توجہ دیں گے اور ریکارڈ درست کرنے کی کوشش کریں گے۔
1- سعود عزیز (سینئر پولیس افسر)، سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی، 17 برس قید کی سزا۔
2- خرم شہزاد حیدر (سینئر پولیس افسر) پر سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی اور جائے واقع کو جلد دھونے کا جرم۔ 17 برس قید کی سزا۔
3- پاکستان کے سابق صدر ریٹائیرڈ جنرل پرویز مشرف پر بھی بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی اور انھیں دھمکی دینے کا الزام ہے۔ جنرل مشرف کو مفرور قرار دیا گیا ہے اور ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم دیا گیا ہے۔
سات دیگر ملزمان کہاں ہیں؟
1۔ بیت اللہ محسود (تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر) امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
2۔ عباد الرحمان عرف نومان عرف عثمان (مالاکنڈ اور اکوڑہ خٹک سے تعلق۔ نوشہرہ کے ایک مدرسے کے طالب علم) ہلاک ہو چکے ہیں۔
3۔ عبد اللہ عرف صدام (مہمند ایجنسی اور اکوڑہ خٹک سے تعلق۔ نوشہرہ کے ایک مدرسے کے طالب علم ) مارے جا چکے ہیں۔
4۔ فیض محمد عرف کسکٹ (صوابی اور اکوڑہ خٹک سے تعلق۔ نوشہرہ کے ایک مدرسے کے طالب علم) ہلاک ہو چکے ہیں۔
5۔ اکرام محسود (سرکاری وکیل کے بقول ہلاک لیکن صورت حال مکمل طور پر واضح نہیں ہے)
6۔ نصر اللہ عرف احمد (مدرسہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک کے طالب علم) مارے جا چکے ہیں۔
7۔ نادر عرف قاری اسماعیل (مدرسہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک کے طالب علم) ہلاک ہو گئے ہیں۔
ان پر الزامات کیا تھے؟
تمام ملزمان پر قتل اور قتل کی سازش کے الزام تھے۔
ملزمان کی عمریں کیا ہیں؟
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت بیک وقت اعتزاز کے کم سن ہونے کے بارے میں ایک درخواست بھی سن رہی ہے اور اس پر فیصلہ دے گی۔ باقی تمام ملزمان بالغ ہیں۔
اپیل کا حق؟
تمام ملزمان ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔ آخر میں وہ صدر مملکت سے رحم کی اپیل کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔
وکیلِ صفائی کون تھے؟
ہر ملزم کا مختلف وکیل تھا۔ شیر زمان کے وکیل نصیر ہیں، داد رحیم کے وکیل رشید ترابی ہیں۔ پرویز مشرف کے ابتدا میں فروغ نسیم جبکہ اب اختر شاہ وکیل ہیں۔ سعود عزیز اور خرم شہزاد کی نمائندگی ملک وحید اور بعد میں ملک حبیب نے کی۔
ملزمان کہاں ہیں؟
پانچ ملزمان اڈیالہ جیل میں ہیں۔ سعود عزیز اور خرم شہزاد کو عدالت کے احاطے سے گرفتار کرلیا گیا۔ جبکہ پرویز مشرف سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ہر سماعت پر حاضر ہونے سے مستثنی تھے، تاہم انھیں اب تک ضمانت حاصل تھی۔
کتنے ججوں نے مقدمہ سنا؟
سنہ 2008 سے راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جاری اس مقدمے کے مجموعی طور پر آٹھ جج رہے۔ ان کے نام یہ ہیں۔ اکرام الحق، رانا باقر، رانا ناصر، حبیب الرحمان، پرویز اسماعیل، ایوب مارتھ اور اصغر خان۔
کتنے چالان اور رپورٹیں پیش کی گئیں؟
مجموعی طور پر نو چالان اور تحقیقاتی رپورٹیں پیش کی گئیں۔ ان میں سے پانچ وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے نے جبکہ چار پنجاب پولیس نے پیش کیں۔
کیا دستاویزات/ شواہد پیش کیے گئے؟
سرکاری وکیلوں نے عدالت میں مجموعی طور پر 88 دستاویزات پیش کیں جن میں ڈی این اے رپورٹس بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 68 گواہان جن میں اکثریت عام لوگوں کی تھی پیش ہوئے۔ گواہان میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
پاکستانی فوج نے اس مقدمہ پر کوئی بات کی؟
پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک اہلکار جنھوں نے ابتدا میں بیت اللہ محسود اور ایک دوسرے شخص کے درمیان ٹیلیفون پر گفتگو ریکارڈ کرنے کا دعویٰ کیا تھا بعد میں غائب ہوگئے۔ فوجی تحقیقاتی اداروں کا ان تحقیقات میں کتنا عمل دخل تھا یہ واضح نہیں لیکن پاکستان فوج نے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا ہے۔
تحقیقات کیسے ہوئیں؟
اس مقدمے کی تحقیقات پہلے پنجاب پولیس نے کی اور بعد میں ایف آئی اے نے کی۔ پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ ایک دھماکہ ہوا جبکہ ایف آئی اے کے خیال میں دو دھماکے ہوئے تھے۔ ایف آئی اے کے پاس اس کے فورنزک ثبوت بھی موجود ہیں۔
سابق سرکاری وکیل کے قتل میں پیش رفت ہوئی؟
سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار علی کو گھات لگا کر اسلام آباد میں مئی سنہ 2013 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے مقدمے کی سماعت نئے قانون پاکستان پروٹیکشن ایکٹ کے تحت ایک فوجی عدالت میں ہو رہی ہے۔ مقدمے کے ایلک ملزم کو مردہ پایا گیا جبکہ دوسرا جو کہ اپاہج ہے اسے ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionبےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کو قتل کردیا گیا تھا
پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی تفتیش کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلنج کردیا ہے۔
حکومت نے اعلیٰ عدلیہ میں اس مقدمے کی پیروی کے لیے پراسیکیوٹر کو تبدیل کر دیا ہے۔ اب اس مقدمے کی پیروی اسسٹنٹ اٹارنی جنرل فیصل محمود راجہ کریں گے۔ اس سے پہلے چوہدری اظہر اس مقدمے میں سرکاری وکیل کے طور پر پیش ہوتے رہے ہیں۔
بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کو قتل کردیا گیا تھا اور اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ اس قتل میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے لوگ ملوث تھے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق انسداد دہشت گردی کے فیصلے کے خلاف عدالتِ عالیہ میں دائر کی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی طرف سے 31 اگست کو سنائے جانے والے فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مقدمے کے پانچ ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر رہا کرنے کے فیصلے میں بھی سقم موجود ہیں کیونکہ تفتیش کے دوران عدالت کی طرف سے رہائی پانے والے ان پانچ ملزمان سے نہ صرف اسلحہ برآمد ہوا تھا بلکہ اُنھوں نے اعتراف جرم بھی کیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے دائر کی جانے والی اس درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس افسران جن میں ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد شامل ہیں، کو اس مقدمے میں درج ہونے والی دو دفعات میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ اس مقدمے میں انسداد دہشت ایکٹ کی دفعہ بھی لگائی گئی ہے لیکن اس دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔
ان پولیس اہلکاروں نے بھی عدالتی فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔
اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی نے اس مقدمے میں فریق بننی اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جسے عدالت نے سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 31 اگست کو اپنے فیصلے میں اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان جن میں رفاقت، حسنین گل، اعتزاز شاہ، شیر زمان اور عبدالرشید شامل ہیں، کو عدم ثبوت اور شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا تھا۔
عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو اس مقدمے میں اشتہاری قرار دینے کے علاوہ اُن کی جائیداد کی ضبطگی کے احکامات جاری کیے تھے۔
راولپنڈی کی انتظامیہ نے انسداد دہشت گردی کے محکمے کی رپورٹ کی روشنی میں ان افراد کو خدشہ نقص امن کے تحت 30 روز کے لیے نظربند کردیا تھا جس کی معیاد سنیچر کے روز ختم ہو رہی ہے۔ راولپنڈی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان افراد کی نظربندی میں مزید ایک ماہ کی توسیع کیے جانے کا امکان ہے۔
بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں عدالت سے رہائی پانے والے پانچ افراد نے راولپنڈی کی انتظامیہ کے اس اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے جس پر عدالت نے متعقلہ حکام سے چار اکتوبر کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment