Saturday, 23 June 2018

PAKISTAN TALIBAN MEHSOOD ’ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری سے رقوم اکٹھی کیں‘، پاکستانی طالبان کا اعتراف


Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-42690993

’ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری سے رقوم اکٹھی کیں‘، پاکستانی طالبان کا اعتراف

ٹی ٹی پیتصویر کے کاپی رائٹTTP
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ طالبان گروہ اور تنظیمیں ماضی میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تحریک ہی کی چھتری تلے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتال جیسی کارروائیوں میں ملوث رہیں۔
690 صفحات پر مبنی ’انقلاب محسود، ساؤتھ وزیرستان - فرنگی راج سے امریکی سامراج تک‘ نامی ایک تفصیلی کتاب تحریک نے جاری کی ہے جس میں سنہ 2001 سے لے کر دسمبر 2017 تک کی اپنی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔

مزید پڑھیے

کتاب مفتی نور محسود عرف ابو منصور عاصم نے لکھی ہے۔ مصنف کے بقول اس کا مقصد یہ ہے کہ شدت پسند ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ سکیں اور انھیں مستقبل میں نہ دہرائیں۔ ایک اور وجہ ان کے بقول تجزیہ نگاروں، محققین اور مورخین کی ’تصحیح‘ کی جاسکے۔
کتاب میں اپنی ذرائع آمدن کے بارے میں تحریک نے بتایا کہ سال 2007 میں جنوبی وزیرستان میں اہلکاروں کے علاوہ مختلف قسم کے اسلحے اور گاڑیوں سے لیس ایک فوجی قافلے کے اغوا کے واقعے کے بعد حکومت سے ایک معاہدے کے تحت یہ سب کچھ مبینہ طور پر چھ کروڑ روپے کے بدلے واپس لوٹائی گئی تھیں۔
طالبان نے ان فوجیوں کو کئی ماہ تک اپنی حراست میں رکھا تھا اور بات چیت کے نتیجے میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اس رہائی اور سامان کی واپسی پر کسی رقم کا کسی نے کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ اس بارے میں فوج سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ بی بی سی اردو کو اس وقت طالبان کے رہنما حکیم اللہ محسود نے ان اغوا شدہ فوجیوں میں سے چند سے ملنے کی اجازت بھی دی تھی۔
اس کتاب میں پہلی مرتبہ تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو پر کارساز، کراچی اور راولپنڈی میں حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ اس سے قبل طالبان اس سے انکار کرتے رہے ہیں۔
احسان اللہ احسان پاکستان میں کیے جانے والے اکثر دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں

پاکستانی طالبان کو پیسے کہاں سے ملتے ہیں؟

پاکستان میں ہمیشہ یہ بحث رہی ہے کہ شدت پسندوں کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے۔ اس بارے میں کبھی حکومت پاکستان نے کوئی ٹھوس شواہد یا ثبوت تو فراہم نہیں کیے لیکن اکثر یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ انہیں رقم بیرونی ممالک خصوصا انڈیا کی طرف سے ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے ملتی ہیں۔
مفتی نور محسود لکھتے ہیں کہ 2003 سے لے کر 2016 تک تحریک طالبان خصوصا محسود شدت پسندوں نے کسی بھی ملک چاہے وہ مسلم ہو یا غیرمسلم، ان سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں لی ہے۔ تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ بعض گروپوں نے 2015 کے اواخر سے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔
کتاب کے مصنف نے ایسی ہی کارروائیوں کو تحریک میں انتشار کی وجہ بھی بیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ بظاہر ماننا مشکل ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوج کے خلاف استعمال کیا گیا تمام کا تمام اسلحہ اور گولہ بارود روس کا افغانستان میں چھوڑا ہوا تھا۔ ان دعوؤں کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کراچی بندرگاہ کے راستے جو اسلحہ امریکہ اور اس کے اتحادی افواج کے لیے افغانستان آتا تھا وہ بھی بڑی تعداد میں لوٹا گیا جو اب قبائلی علاقوں کے بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے۔
اس کتاب کو نائب امیر خالد محسود کی حمایت سے جاری کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں یہ بھی اقرار کیا گیا ہے کہ ملکی اور غیرملکی افراد کو اغوا کر کے ان کی رہائی کے بدلے رقم حاصل کرتے رہے ہیں۔ عام تاثر کے برعکس انھوں نے کسی بھی جنگجو کی ماہانہ تنخواہ سے بھی انکار کیا ہے تاہم کہا ہے کہ ان سے علیحدہ ہونے والے دھڑے جماعت الحرار میں یہ نظام موجود ہے۔ تاہم تنظیم نے منشیات یا قبائلی علاقوں میں سمگلنگ کے غیرقانونی کاروبار سے کسی قسم کی رقم ملنے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔

مزید پڑھیے

کتاب میں تحریک کے مالیاتی ذرائع کا پڑھ کر مجھے تقریباً ایک دہائی قبل کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ بیت اللہ محسود کے دور میں 2006 میں ایک دن ان کے نائب حکیم اللہ کے ساتھ گاڑی میں سفر کے دوران میران شاہ بازار میں ایک قریب سے گزرتے شخص نے حکیم اللہ کی جھولی میں ایک پلاسٹک بیگ پھینکا اور آگے نکل گیا۔ حکیم اللہ نے وہ لفافہ مجھے دکھایا جس میں بقول اس کے پانچ لاکھ روپے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھو اللہ ہماری مدد اس طرح کرتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم یہ کون شخص تھا لیکن وہ یہ پیسے ہمیں دے گیا ہے۔‘ بعد میں بیت اللہ نے ان پیسوں پر ایک نئی فور بائی فور گاڑی کا آڈر دیا اور بقیہ پیسے انتظامی امور کے لیے رکھ دیے۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تحریک کے اندر کسی نے اس قسم کی تحریر لکھی ہے جس میں نہ صرف تنظیم کی کمزوریوں بلکہ اپنے نظام پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

No comments:

Post a Comment