Thursday, 28 February 2019

HISTORY OF LOC FROM EAST TO WEST (BANGLADESH, INDIA, PAKSITAN,


SOURCE: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47373227 لائن آف کنٹرول پر کشیدگی: کشمیر پر پہلی جنگ سے ’سرجیکل سٹرائیک ٹُو‘ تک 27 فروری 2019 اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر تصویر کے کاپی رائٹAFP پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دو انڈین طیاروں کو بدھ کے روز مار گرایا ہے۔ گذشتہ روز یہ کہا گیا تھا کہ انڈیا کے جنگی طیاروں نے منگل کو علی الصبح پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستانی طیاروں کے فضا میں آنے کے بعد وہ جلد بازی میں اپنا 'پے لوڈ' گرا کر واپس چلے گئے۔ ادھر انڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے ایک 'غیر عسکری' کارروائی میں بالاکوٹ کے علاقے میں واقع کالعدم شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سنہ 1971 کی پاکستان انڈیا جنگ کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ دونوں ممالک میں سے کوئی ایک دوسرے کی فضائی حدود کے اندر داخل ہوا ہے اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دو ممالک میں کشیدگی میں اتنا زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، تاہم دوسری جانب ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان امن کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ سنہ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے براہ راست تصادم اور امن کوششوں کی ایک مختصر تاریخ کچھ یوں رہی ہے: یہ بھی پڑھیے۔ اوڑی سے پلوامہ حملے تک ’ایک نہیں بلکہ تقریباً پانچ دھماکے ہوئے، علاقہ لرز اٹھا‘ ’تین جانب سے کوشش کی، سٹرائک نہیں ہوئی‘ اکتوبر1947: پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلی جنگ دونوں ہمسایوں کے آزاد ممالک میں تقسیم ہونے کے محض دو ماہ بعد کشمیر کے محاذ پر ہوئی۔ اگست 1965: دونوں ہمسایوں کے درمیان کشمیر پر ایک اور مختصر جنگ ہوئی۔ دسمبر1971: انڈیا نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں اپنی فوجیں بھیج دیں تاکہ حکومت کے خلاف لڑنے اور ایک آزاد ریاست بننے میں ان کی مدد کی جا سکے۔ انڈین ائیر فورس نے پاکستان کے اندر بمباری کی۔ اس جنگ کا اختتام بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے پر ہوا۔ سنہ 1989: وادی کشمیر میں انڈین حکمرانی کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا۔ تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES Image caption 'اعلان لاہور' کے نام سے دونوں رہنماؤں نے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ فروری 1999: انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے ملاقات اور ایک امن معاہدے پر دستخط کے لیے بس کے ذریعے پاکستان کے شہر لاہور پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کوئی بھی بھارتی وزیر اعظم قیامِ پاکستان کی علامت سمجھے جانے والے مینارِ پاکستان کے سائے میں اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ایک دوستانہ ماحول میں دکھائی دیا۔ اس دورے کے اختتام پر ’اعلان لاہور‘ کے نام سے دونوں رہنماؤں نے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ اعلان لاہور کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ دونوں ممالک حادثاتی طور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اس حوالے سے کسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ دونوں ممالک کی پارلیمان نے اس معاہدے کی توثیق اسی سال کر دی تھی۔ مئی 1999: اٹل بہاری واجپائی کے دورے کے تین ماہ بعد پاکستانی فوج نے کارگل کے پہاڑوں پر بھارتی چیک پوسٹوں پر قبضہ کر لیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا جس میں انڈیا نے فضائی اور زمینی حملے کیے، تاہم یہ مسلح تصادم کارگل تک محدود رہا۔ مئی 2001: تقریباً اگلے دو سال تک کارگل کی لڑائی کے حوالے سے دونوں ممالک کی طرف سے دعوؤں اور جوابی دعوؤں کا سلسلہ جاری رہا، اور پھر بظاہر امن کی امید اس وقت دکھائی دی جب اس وقت کے پاکستان کے صدر اور کارگل آپریشن میں پاکستانی فوج کی جانب سے کلیدی کردار ادا کرنے والے جنرل پرویز مشرف انڈیا پہنچے۔ انھوں نے آگرہ میں وزیر اعظم واجپائی سے ملاقات کی، لیکن کسی دیرپا امن معاہدے کی امید اس وقت دم توڑ گئی جب دونوں فریقوں کے مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہو گئے۔ تصویر کے کاپی رائٹALAMY اکتوبر2001: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے صدر مقام سری نگر میں ریاستی اسمبلی کی عمارت پر ایک بڑے حملے میں 38 افراد ہلاک ہو گئے۔ 13 دسمبر 2001: دہلی میں پارلیمنٹ پر ایک مسلح حملے کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے اور انڈیا نے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ فروری 2007: پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی ریل سروس سمجھوتہ ایکسپریس پر بم حملے کے نتیجے میں 68 افراد ہلاک ہو گئے۔ 26 نومبر 2008: عسکریت پسندوں نے ممبئی کے ریلوے سٹیشن، لگثری ہوٹلوں اور یہودیوں کے ثقافتی مرکز پر حملے کیے جن میں 60 گھنٹوں کے دوران 166 افراد ہلاک ہو گئے۔ انڈیا نے ان حملوں کا ذمہ دار پاکستان سے تعلق رکھنے والے گروہ لشکر طیبہ کو قرار دیا۔ جنوری2016: انڈیا کی ریاست پنجاب میں واقع انڈین فضائیہ کے ایک اڈّے پر چار روز تک جاری رہنے والے حملے میں سات انڈین فوجی اور چھ عسکریت پسند مارے گئے۔ 18 ستمبر2016: انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں اوڑی کے مقام پر ایک فوجی اڈے پر حملے میں 19 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد دونوں دونوں ممالک میں کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر شدید اضافہ ہو گیا اور انڈیا نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی۔ 30 ستمبر 2016: انڈیا کے مطابق اس نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں پر 'سرجیکل سٹرائیکس' کیں۔ انڈیا کے اس دعوے کو پاکستان میں آج تک کسی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور اسے محض انڈیا کی خام خیالی تعبیر کیا جاتا ہے۔ 14 فروری 2019: انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تعینات پیرا نیم فوجی دستوں کے ایک قافلے پر حمہ ہوا جس میں 40 اہلکار ہلاک ہو گئے۔ سنہ 1989 کے بعد انڈین فورسز پر کشمیر میں ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ تھا۔ اس حملے میں سرینگر جانے والی سیکیورٹی اہلکاروں کی بس کو خودکش مواد سے بھری گاڑی کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور پاکستان میں موجود اسلامی شدت پسند گروپ جیش محمد نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ اس نے کیا، تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک تحریری بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پلوامہ میں حملہ تشویشنا ک معاملہ ہے۔ 26 فروری 2019: انڈیا کے مطابق اس نے پاکستانی حدود میں کشمیری عسکریت پسندوں پر فضائی حملہ کر کے ایک عسکریت پسند کیمپ کو تباہ کر دیا ہے۔ 27 فروری 2019: پاکستانی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بدھ کے روز ملکی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دو انڈین جنگی طیاروں کو مار گرایا ہے۔ ترجمان کے مطابق ایک انڈین پائلٹ کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ متعلقہ عنوانات انڈیا پاکستان فضائی حملےجنگ کہانی ک

SURRENDER OF INDIA PILOT (DEVIL-DETTO) ABHINANDAN IN BALACOAT



انڈیا کے پائلٹ ابھینندن کی گرفتاری کی کہانی 28 فروری 2019 اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر تصویر کے کاپی رائٹPAKISTAN INFORMATION MINISTRY, ISPR پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوام کے ہاتھوں پکڑے جانے والے انڈین پائلٹ نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنی پستول سے کئی ہوائی فائر بھی کیے اور حساس نوعیت کی اپنی دستاویزات کو بھی ضائع کرنے کی کوشش کی۔ بی بی سی کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے گاؤں ہوران سے عینی شاہدین سے حاصل ہونے والی تفصیلات ایک انتہائی ڈرامائی صورت حال کی منظر کشی کرتی ہیں جس میں چند جذباتی نوجوان آدھے کلو میٹر تک ایک مسلح اور تربیت یافتہ فوجی کا پیچھے کرتے ہوئے اس پر قابو پالیتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے ابھینندن پر پتھر پھینکے اور انہوں نے جواب میں ہوائی فائرنگ کی۔ ابھینندن کا طیارہ بدھ کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستانی فضائیہ کے ساتھ جھڑپ میں نشانہ بن گیا تھا۔ پاکستان نے انہیں جمعہ کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں ان کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں کمی کرنا چاہتا ہے۔ ہوران کے محمد رزاق چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پائلٹ کو زندہ ہی پکڑنا چاہتا تھا۔ میں ان کے پیراشوٹ پر انڈیا کا جھنڈا دیکھ لیا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ انڈین ہیں۔‘ اٹھاون سالہ رزاق چوہدری نے بتایا کہ بدھ کے روز انہوں انڈیا کے مگ 21 کو نشانہ بنتے ہوئے اور زمین پر گرتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی باقی گاؤں والوں کے ساتھ اس جگہ پہنچے جہاں طیارہ گرا تھا۔ یہ بھی پڑھیے: فلائیٹ لیفٹینٹ نچِکیتا کیسے واپس گئے تھے؟ ’چائے پلائیں مگر جنگ نہ کریں‘ ’ٹارچ بھی نہیں جلاسکتے تھے‘ رزاق چوہدری نے کہا کہ انہیں ڈر تھا کہ ’گاؤں والے پائلٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے یا خود ان کا نشانہ بنیں گے۔‘ ان کے مطابق پائلٹ نے زمین پر اترنے کے بعد گاؤں والوں سے پوچھا کہ کیا وہ انڈیا میں ہیں اور ایک حاضر دماغ نوجوان نے علقمندی سے کام لیتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں یہ انڈیا ہے۔ ’پائلٹ نے اپنے آپ کو پیراشوٹ سے الگ کیا اور انڈیا کے حق میں نعرہ بازی کی جس کے جواب میں وہاں موجود لوگوں نے پاکستان کے حق میں نعرے لگانا شروع کر دیے۔‘ اس موقع پر پائلٹ نے پستول نکال لیا اور لوگوں کو ڈرانے کے لیے ہوا میں فائرنگ کی۔ رزاق چوہدری نے کہا کہ اس صورتحال میں لوگوں نے طیش میں آ کر پائلٹ پر پتھر پھینکنا شروع کر دیے جنہوں نے ہوا میں فائرنگ کرتے ہوئے بھاگنا شروع کر دیا۔ ’لڑکے ان کے پیچھے دوڑے اور پھر جب وہ ایک ندی میں گرے تو ایک نوجوان نے، جو میرا بھتیجا ہے، ان کی ٹانگ پر گولی بھی ماری۔‘ رزاق چوہدری کے مطابق پائلٹ نے ان کے بھتیجے کے کہنے پر پستول پھینک دیا اور پھر لوگوں نے انہیں پکڑ لیا تاکہ وہ کوئی اور ہتھیار نہ استعمال کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پائلٹ نے اپنی جیب سے کچھ دستاویزات نکالیں اور منہ میں ڈال کر ضائع کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے ان سے وہ کاغذ چھین کر فوج کے حوالے کر دیے۔ ’ہمارے لڑکے غصے میں تھے اور پائلٹ کو مکے اور تھپڑ مارنے لگے۔ کچھ لوگوں نے انہیں روکنے کی بھی کوشش کی۔ میں نے بھی انہیں روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ اسے فوج کے حوالے کرنا چاہیے۔‘ انڈیا نے بدھ کو ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ان کے سب پائلٹ خیریت سے ہیں لیکن پھر پاکستان کی حکومت کی طرف سے ایک وڈیو ریلیز کی گئی جس میں ابھینندن کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی اور چہرے پر خون تھا۔ اس کے بعد ایک اور وڈیو میں انہیں چائے پیتے دکھایا گیا اور ان کا چہرہ بھی صاف تھا۔ ابھینندن نے اس وڈیو میں کہا کہ پاکستانی افسران ان کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آئے۔ متعلقہ عنوانات انڈیا پاکستان فضائی حملے کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں

Tuesday, 26 February 2019

TALIBAN NEGOTIATIJNG TEAM

source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47359918 طالبان مذاکراتی ٹیم میں کون کیا ہے؟ رفعت اللہ اورکزئی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور 25 فروری 2019 اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر تصویر کے کاپی رائٹREUTERS افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے ایک بانی رہنما ملا عبدالغنی برادر کی قطر میں مذاکرات کے نئے دور سے پہلے ملاقات ہوئی ہے۔ یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کا پانچواں دور خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہورہا ہے۔ افغان طالبان کی طرف سے گذشتہ دنوں جاری کردہ ایک اعلامیہ میں امریکہ سے بات چیت کے لیے 14 رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا گیا تھا جن میں اکثریت کا تعلق قطر کے سیاسی دفتر سے بتایا گیا ہے۔ اس اعلامیہ میں قطر دفتر کی سربراہی ملا عبد الغنی برادر کی سپرد کی گئی تھی۔ طالبان کے مذاکراتی ٹیم میں کون کون شامل ہے؟ شیر محمد عباس ستانگزئی شیر محمد عباس ستانگزئی کا تعلق افغانستان کے صوبے لوگر سے بتایا جاتا ہے۔ وہ طالبان مذاکراتی ٹیم کے سب سے زیادہ اہم نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ستانگزئی نے کالج تک تعلیم افغانستان سے حاصل کی تاہم ستر کی دہائی میں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سکالرشپ پر انڈیا گئے جہاں سے انھوں نے ملٹری سکول سے ڈگری حاصل کی۔ افغانستان میں جب روس کے خلاف جہاد شروع ہوا تو وہ پاکستان آگئے اور یہاں کئی سال تک مقیم رہے۔ عباس ستانگزئی سابق افغان صدر برہان الدین کی جماعت جمعیت اسلامی کا حصہ بھی رہے تاہم بعد میں وہ عبد الرب رسول سیاف کی جماعت اتحاد اسلامی میں شامل ہوئے۔ تاہم جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو انھوں نے طالبان تحریک میں شمولیت اختیار کرلی اور حکومت میں ڈپٹی وزیر خارجہ سمیت اہم عہدوں پر فائز رہے۔ عباس ستانگزئی فوجی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عرصے سے طالبان کے سیاسی امور کے نگران بھی رہے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بات کی جاتی ہے کہ وہ کئی زبانوں کو جانتے ہیں لیکن انگریزی زبان پر انہیں خاص دسترس حاصل ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ماضی میں مختلف افغان جماعتوں کی ضرورت رہے ہیں۔ مولوی ضیاء الرحمان مدنی ان کا تعلق افغانستان کے صوبے تخار سے ہے۔ وہ تاجک قبیلے سے بتائے جاتے ہیں۔ مولوی ضیاء الرحمان مدنی طالبان حکومت میں تخار صوبے کے گورنر رہ چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو افغانستان کے شمالی علاقوں میں طالبان کے کئی اہم کمانڈر پھنس گئے تھے جنہیں نکالنے میں مولوی ٰضیاء الرحمان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ افغانستان کے شمالی علاقوں میں ایک اہم سیاسی شخصیت کے طورپر جانے جاتے رہے ہیں۔ مولوی عبد الاسلام حنفی ان کا تعلق جوزجان صوبے کے ازبک قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔ وہ ابتداء ہی سے طالبان تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ تاہم عام طورپر وہ طالبان میں ایک عالم دین کے حیثیت سے مشہور ہیں۔ انھوں نے مختلف دینی مدرسوں سے تعلیم حاصل کی۔ وہ کراچی میں بھی ایک دینی مدرسے سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ مولوی عبد الاسلام حنفی کچھ عرصہ تک کابل یونویرسٹی میں استاد کی حیثیت سے بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں محکمہ تعلیم کے نائب وزیر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ شیخ شہاب الدین دلاور ان کا تعلق لوگر صوبے سے بتایا جاتا ہے۔ وہ خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے دینی مدرسے دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ شیخ شہاب الدین بیشتر اوقات پشاور میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے ہیں اور اس دوران وہ پشاور میں ایک دینی مدرسہ بھی چلاتے رہے ہیں۔ تاہم نوے کے عشرے میں جب افغانستان میں طالبان کا ظہور ہوا تو یہ ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ بعد میں وہ طالبان حکومت میں پاکستان اور سعودی عرب میں سفیر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ وہ افغان قونصلیٹ پشاور میں کونسل جنرل کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ ملا عبد الطیف منصور ان کا تعلق افغانستان کے صوبے پکتیا سے ہے۔ وہ افغان جہاد کے مشہور کمانڈر مولوی نصر اللہ منصور کے بھتیجے بتائے جاتے ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں لوگر صوبے کے گورنر اور طالبان سیاسی کمیشن کے اہم رکن رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے! ’طالبان کے بانی رکن ملا برادر مذاکرات کے لیے قطر پہنچ گئے‘ ’افغان طالبان کے وفد کو پاکستان جانے سے روک دیا گیا` امن مذاکرات: طالبان نے اسلام آباد کا دورہ کیوں منسوخ کیا؟ ملا عبدالمنان عمری ان کا تعلق افغانستان کے صوبے اورزگان سے ہے۔ وہ طالبان تحریک کے سربراہ ملا محمد عمر کے بھائی ہیں۔ انھیں طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کے دور میں کچھ ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ تاہم بیشتر اوقات وہ منظر سے غائب رہے۔ تصویر کے کاپی رائٹTWITTER مولوی امیر خان متقی ان کا تعلق افغان صوبے پکتیکا سے ہے۔ وہ افغان جہاد کے دوران مولوی محمد بنی محمدی کی جماعت کا حصہ رہے تاہم جب طالبان تحریک ظہور پزیر ہوئی تو یہ اس میں شامل ہوگئے۔ امیر خان متقی طالبان حکومت میں اطلاعات کے وزیر کے اہم عہدے پر فائز رہے۔ موجودہ حالات میں بھی وہ طالبان کے محکمہ اطلاعات کے سربراہ سمجھے جاتے ہیں اور طالبان کے تمام ترجمان ان کے ماتحت ہیں۔ وہ طالبان کے مختلف کمیشنوں کی سربراہی کرتے رہے ہیں جبکہ ان پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے سفری پابندیاں بھی عائد ہیں۔ ملا محمد فاضل مظلوم ان کا تعلق افغانستان کے صوبے اورزگان سے بتایا جاتا ہے۔ وہ طالبان حکومت میں ملٹری کے سربراہ کے عہدے پر فائز رہے۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ طالبان کے دور میں ان کی طرف سے ہزارہ اور شعیہ برادریوں پر لاتعداد مظالم ڈھائے گئے اور ان کو ناحق قتل کیا گیا۔ وہ امریکی جیل گوانتانامو میں بھی قید رہ چکے ہیں۔ تاہم 2018 میں جب طالبان کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والے امریکی شہری بوئی برگودال کو رہا کیا گیا تو اس کے بدلے میں گوانتانامو میں قید پانچ طالبان قیدیوں کی بھی رہائی عمل میں لائی گئی جن میں محمد فاضل مظلوم بھی شامل تھے۔ ملا خیراللہ خیرخواہ ان کا تعلق افغان صوبے قندھار سے ہے۔ وہ افغان جہاد کے دوران مولوی یونس خالص کی جماعت حزب اسلامی کا حصہ رہے ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں ہرات صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے جبکہ امریکہ کی طرف سے گرفتاری کے بعد گوانتانامو جیل میں قید کردیئے گئے۔ تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES مولوی مطیع الحق ان کا تعلق افغان صوبے ننگرہار سے ہے۔ وہ افغان جہاد کے نامور کمانڈر مولوی یونس خالص کے صاحبزادے ہیں۔ وہ اور ان کے بھائی تورہ بورہ محاذ کے نام سے ایک عسکری تنظیم چلاتے رہے ہیں۔ انس حقانی وہ طالبان کے قطر سیاسی دفتر اور مذاکراتی ٹیم کے واحد رکن ہیں جو اس وقت افغانستان میں پابند سلاسل ہیں۔ انس حقانی مشہور جہادی کمانڈر مولوی جلال الدین حقانی کے صاحبزادے اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ تقریباً چار سال قبل امریکہ نے انس حقانی کو خلیجی ملک بحرین سے حراست میں لیا تھا اور بعد میں انھیں افغان حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ بدستور افغانستان کے خفیہ اداروں کی حراست میں ہیں۔ ملا نوراللہ نوری اطلاعات کے مطابق ملا نوراللہ نوری کا تعلق افغانستان کے صوبے زابل سے ہے۔ وہ امریکی جیل گوانتانامو میں قید رہ چکے ہیں اور ان کا افغانستان کے مشرقی صوبوں میں خاصا اثر رسوخ رہا ہے۔ انھوں نے جلال الدین حقانی گروپ کو طالبان تحریک کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملا عبد الحق وثیق ان کا تعلق غزنی صوبے سے ہے۔ وہ طالبان حکومت میں انٹیلی جنس چیف کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ متعلقہ عنوانات افغانستانطالبانامریکہقطر کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں ای میل فیس بک

Sunday, 24 February 2019

AUTHOR OF FRANCE, VETICAN IS SEXUAL ABUSE INSTITUTION?

ACTION RESEARCH VETICAN SEWXUAL PRACTICES

’ویٹیکن ایک ہم جنس پرست ادارہ ہے‘: فرانسیسی مصنف کا دعویٰ لیومن لیما بی بی سی ہسپانوی سروس ایک گھنٹہ پہلے اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر تصویر کے کاپی رائٹAFP Image caption مختل کے مطابق ویٹیکن میں اکثریت ہم جنس پرستوں کی ہے ’اطالوی دارالحکومت رومن کیتھولک فرقے کے ہزاروں پادری دعائیہ اجتماعات کے انعقاد کے بعد اپنے لبادے اتار کر ہم جنس مناظر سے محضوظ ہوتے ہیں۔‘ یہ دعویٰ فرانس کے صحافی فیڈرک مختل نے اپنی کتاب 'ان کے کلوزٹ آف دی ویٹیکن' میں کیا ہے جو گزشتہ جمعرات کو شائع ہوئی۔ اسی دن روم میں چرچ نے ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں اغلام بازی کے خلاف حکمت عملی اختیار کرنے پر غور کیا گیا۔ تحقیقات مختل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس کتاب کے لیے تحقیق کرنے کے لیے کئی ملکوں کا سفر کیا، درجنوں پادریوں اور کلیسا کے سربراہوں اور ویٹیکن سے قربت رکھنے والے مذہبی سکولوں کے سربراہوں سے بات کی۔ تصویر کے کاپی رائٹAFP Image caption یہ دھماکہ خیز کتاب ایک ایسے وقت شائع ہوئی ہے جب ویٹیکن میں ہم جنس پرستی کے الزامات پر بات کرنے کے لیے ایک خصوصی اجلاس ہو رہا ہے انھوں نے بتایا کہ اس تحقیق کے دوران انھوں نے 41۔ کارڈینل،52 ۔بشپ اور دو سو کے قریب پادریوں اور سفارت کاروں سے انٹرویو کیے۔ مختل کے بقول تاریخی اور سماجی حالات کی بنا پر ہزاروں کی تعداد میں نوجوانون کو جنہیں ان کے دیہات اور قصبوں میں ان کے جنسی میلان کی وجہ سے نفرت اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا ان کے لیے رہبانیت فرار کا ایک آسان راستہ ثابت ہوا۔ اس طرح مختل کے بقول چرچ ایک ایسے ادارے میں تبدیل ہو گیا جس میں اکثریت ہم جنس پرستوں کی ہو گئی ہے۔ مختل نے کہا کہ انھوں نے یہ دریافت کیا کہ ویٹیکن ایک ہم جنس پرست تنظیم ہے جس کے ارکان دن کی روشنی میں اپنے جنسی جذبات یا ہوس کو دبائے رکھتے ہیں لیکن سورج غروب ہونے کے بعد اکثر ٹیکسی پکڑ کر کے اپنے ہوس کی تسکین کے لیے کسی ہم جنس پرست کلب کا رخ کرتے ہیں۔ مختل کو کسی ذریعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ویٹیکن کے اسی فیصد ارکان اور پادری ہم جنس پرست ہیں لیکن فرانسیسی صحافی اور مصنف اس دعوی کی کسی آزاد ذریعے سے تصدیق حاصل نہیں کر سکے۔ تصویر کے کاپی رائٹAFP Image caption مختل ایک مصنف اور ماہر عمرانیات ہیں جو فرانسیسی حکومت کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں خفیہ زندگی انھوں نے کہا کہ انھیں یہ بھی علم ہوا کہ بہت سے پادری ایسا طرز زندگی اختیار کیے ہوئے ہیں جس کی وہ دعائیہ اجتماعات میں نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ اس سے باز رہنے کی بھی نصیحتیں کرتے ہیں۔ بی بی سی نے فرانسیسی مصنف مختل کے دعوؤں پر رد عمل معلوم کرنے کے لیے ویٹیکن سے رابطہ کیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ لیکن مختلف ادیان کا مطالعہ کرنے والے ایک مشہور عالم جیمز مارٹن نے فرانسیسی مصنف مختل کے اتنے زیادہ لوگوں کے انٹرویوز سے معلومات اخذ کرنے کے طریقۂ کار پر اعتراض کیا۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختل نے اپنی کتاب کے لیے کافی متاثر کن تحقیقات کی ہیں اور اس کتاب میں چرچ کے ہم جنسیت کے بارے میں پائے جانے والے دوغلے پن پر روشنی ڈالی ہے۔ لیکن یہ دوغلہ پن گپ شپ، اندازوں اور قیاس آرائیوں پر قائم ہے جو قارئین کو حقیقت اور افسانے میں امتیاز کرنے میں ابہام کا شکار کر دیتا ہے۔ تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES Image caption مختل نے اپنی کتاب کے لیے درجنوں پادریوں سے بات کی راہبانیت اور ہم جنس پرستی مختل جو خود بھی ہم جنس پرست ہیں ان کا کہنا ہے کہ چرچ کے اندر یہ مسئلہ پادریوں کے جنسی میلان کا نہیں ہے بلکہ جنسی رحجانات کے بارے میں چرچ کی دہری اخلاقیات کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنسی بدسلوکیاں صرف ہم جنسی پرستی کی وجہ سے نہیں ہوتیں اور دنیا میں جنسی زیادتیوں کا شکار زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ لیکن اگر آپ چرچ پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر واقعات میں ہم جنس پرست پادری ملوث ہوتے ہیں۔ تصویر کے کاپی رائٹAFP Image caption ناقدین کا کہنا ہے کہ فرانسیسی مصنف اپنے دعوؤں کے حق میں ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مختل کا استدال ہے کہ رازداری کا ماحول جو چرچ میں پایا جاتا ہے اس طرح کے واقعات کو چھپائے رکھنے اور خفیہ رکھنے کی وجہ بنتا ہے۔ بہت سے پادری اور بشپ ہم جنس پرست ہیں اور وہ ذرائع ابلاغ میں سکینڈل بن جانے سے ڈرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان میں بہت سے پادری عوامی سطح پر ہم جنس پرستی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فرانسیسی مصنف اپنے دعوؤں کے حق میں ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تصویر کے کاپی رائٹAFP Image caption پوپ فرانسس کئی مرتبہ اس مسئلہ پر بات کر چکے ہیں ’شیطان کے ساتھی‘ ادھر پوپ فرانسس نے آج رومن کیتھولک چرچ کے سربراہی اجلاس کے اختتام پر بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ ایسا فعل کرنے والے پادرای دراصل ’شیطان کے ساتھی‘ ہیں اور اس قسم کے ہر واقعے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا انھیں قدیم مذہب میں بچوں کی قربان کی رسومات کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس سے مجھے ایک زمانے میں مختلف معاشروں میں رائج ظالمانہ مذہبی روایت کی یاد آتی ہے۔‘ امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں ویٹیکن کی جانب سے بچوں سے جنسی زیادتی کے الزامات کا سامنا کرنے والے پادریوں کے خلاف حکمت عملی پیش کی جائے گی۔ پوپ فرانسس نے کہا کہ اب متاثرین ترجیح ہوں گے اور بشپس کو کارروائی کے لیے نئی اور واضح ہدایات دی جائیں گی۔ اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’چھوٹے بچوں کی دبی ہوئی چیخوں کی آواز، جنھیں روحانیت کی بجائے عذاب جھیلنا پڑا، منافقت اور طاقت تلے دبے دلوں کو ہلا کر رکھ دیں گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان خاموش دبی ہوئی چیخوں کو غور سے سنیں۔‘ متعلقہ عنوانات رومن کیتھولک چرچمذہب کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں ای میل فیس بک Messenger ٹوئٹر واپس اوپر جائیں اسی بارے میں پوپ فرانسس کا اعتراف، عبادت کے دوران سو جاتا ہوں 1 نومبر 2017 سربیا کی ہم جنس پرست وزیر اعظم کی ہم جنس پرست پریڈ میں شرکت 18 ستمبر 2017 ہم جنس پرست عارف نے 17 سال بعد چپ کیوں توڑی؟ 8 ستمبر 2018 ویڈیو 100 سال سے چرچ کی دیکھ بھال کرنے والا مسلمان خاندان 26 دسمبر 2018 ویڈیو انڈیا کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کے قانون پر از سرِ نو غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے 20 دسمبر 2016 نیدر لینڈز: چرچ میں پورن ویڈیو کی عکس بندی کے خلاف درخواست مسترد 16 اگست 2017

Thursday, 21 February 2019

ATTABAD LAKE HOW FORMED

عطاآباد میں جھیل کیسے بنی https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2010/05/100517_hunza_attahabad عطاآباد میں جھیل کیسے بنی رضا ہمدانی بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، ہنزہ 17 مئ 2010 اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر Image caption فلک پوش پہاڑوں کے درمیان ہنزہ جھیل کا ایک منظر چار جنوری کو ہنزہ تحصیل کے گاؤں عطا آباد سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں ’مٹی کا تودہ’ گرنے کے باعث دریائے ہنزہ میں پانی کا بہاؤ رک گیا جس کے نتیجے میں ایک جھیل معرضِ وجود میں آگئی۔ تودے نما پہاڑ دریا میں گرنے اور جھیل بننے کا یہ واقعہ یوں پیش آیا کہ سنہ دو ہزار دو میں استور میں زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں عطا آباد کی پہاڑی میں شگاف پڑ گئے۔ عطاآباد تحصیل ہنزہ کا آخری گاؤں ہے جس کے دو حصے ہیں، ایک ’عطا آباد بالا ‘اور دوسرا ’عطا آباد پائن‘ ہے جسے سرکٹ بھی کہتے ہیں۔ پہاڑ پہلے تو دریا میں گرا جہاں اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور عطا آباد پائن پر جا گرا جس کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا، تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ سنہ دو ہزار دو کے بعد سے حکومت پاکستان اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’فوکس پاکستان انٹرنیشنل‘ نے کئی بار اس جگہ کا معائینہ کیا۔ سنہ دو ہزار نو کے وسط میں عطا آباد بالا کے رہائشیوں نے حکومت پاکستان اور فوکس پاکستان سے دوبارہ کہا کہ پہاڑ سرک رہا ہے اور شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔ عطا آباد بالا کے ایک رہائشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سنہ دو ہزار نو میں پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔ ہماری زمین ناہموار ہو گئی تھی۔‘ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ زمین ’ناہموار‘ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ ان کا کھیت ایک جگہ سے اوپر ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا۔ ’کئی جگہوں پر تو ایسے تھا جیسے سیڑھیاں بنی ہوں۔‘ یہ مصنوعی جھیل عطا آباد بالا کے قریب بنی تھی جوقدرے اونچائی پر ہے، جبکہ عطا آباد پائن نیچے کی جانب ہے۔ Image caption عطا آباد میں پہاڑ دریا میں جا گرنے سے بند ہونے والی مقام کوصاف کیا جارہا ہے۔ عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے اس گاؤں کے رہائشیوں کو دسمبر دو ہزار نو کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا تاہم حکومت نے عطا آباد پائن کو محفوظ قرار دے دیا۔ عطا آباد بالا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں۔ چار جنوری کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے درے نیچا تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد اب عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ پہاڑ گرنے اور ملبے کا زمین پرگر کر اچھلنے کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ ’سپلیش‘ کا نام دیتے ہیں۔ کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں ای میل فیس بک Messenger ٹوئٹر واپس اوپر جائیں اسی بارے میں ’جھیل کا بند ٹوٹنے کا فوری خطرہ نہیں‘ آخر کار ہنزہ جھیل سے کتنا خطرہ ہوگا؟ دریائے ہنزہ جھیل: تین دیہات ڈوب گئے ہنزہ میں لینڈ سلائیڈنگ سے بننے والی جھیل، تصاویر ہنزہ متاثرین کے بارے میں تشویش پاکستان کی مزید خبریں

Tuesday, 19 February 2019

INDIAN POLICE COMPLICIT IN KILLINGS BY COW VIGLANTEE GROUPS; HUMAN RIHGTS

Indian police complicit in killings by cow vigilante groups: Human Rights Watch Source: Indian police complicit in killings by cow vigilante groups: Human Rights Watch AFP On Feb 20, 2019 Indian police are often complicit in killings carried out by cow vigilante groups, Human Rights Watch said on Tuesday, calling on authorities to take tougher action to halt lynchings. The slaughter of cows — revered by Hindus — is a powder-keg issue in secular India. Men accused of killing or trading in cattle have increasingly been targeted since the Hindu nationalist government came to power in 2014. Critics have accused Prime Minister Narendra Modi’s governing party of pandering to fringe groups to win votes. “Calls for cow protection may have started out as a way to attract Hindu votes, but it has transformed into a free pass for mobs to violently attack and kill minority group members,” said Meenakshi Ganguly, South Asia director at Human Rights Watch (HRW). “Indian authorities should stop egging on or justifying these attacks, blaming victims, or protecting the culprits,” Ganguly said. The damning report said some members of the governing Bharatiya Janata Party had justified attacks on minority Muslims and low-caste Dalits who eat beef. At least 44 people were killed in such attacks between May 2015 and December last year, the report said. Thirty-six of the dead were Muslims and in almost all cases, police initially stalled investigations, ignored procedures, or were complicit in the killings and cover-ups, HRW alleged. Police even filed complaints against victims’ family members under laws banning cow slaughter, making them afraid to pursue justice. The damning report said some members of the governing Bharatiya Janata Party had justified attacks on minority Muslims and low-caste Dalits who eat beef. In one case in 2016, a vigilante group beat to death a Muslim cattle trader and a 12-year-old boy travelling to an animal fair in the eastern state of Jharkhand. Their badly bruised bodies were found hanging from a tree with their hands tied behind them. Police even filed complaints against victims’ family members under laws banning cow slaughter, making them afraid to pursue justice. “If I stepped out, they would have killed me, too. My son was screaming for help, but I was so scared that I hid,” the report quoted the boy’s father as saying. In another case, the murder of a Muslim man by a mob in June 2018 was described in police records as a “motorbike accident”. The report includes testimonies from relatives of victims, describing police threats and intimidation. “They (police) also threatened us with arrest under cattle protection laws, saying they will put our whole family in jail,” the report quoted the brother of one victim as saying. The slaughter of cows and the possession or consumption of beef is banned in most Indian states, and in some are punishable by life sentences. Modi, who will seek a second term in office in elections due by May, has condemned cow vigilantism and urged a crackdown on groups using religion as a cover for violence. 0Save Comments

Sunday, 17 February 2019

DEPRESSION DRUGS SOLD IN PAK, LIKE TOFEE, BY 18TH CONSTITUTION AMENDMENTDraft


ACTION RESEARCH FORUM: THE GREATEST CORRUPTION SOURCE IS 18TH AMENDMENT, (RAZA RABBNI AND CORRUPTION MONGERS: SHERIF, ZARDR, POLITIICAL HUBS FOR MONEY LAUDERING THAT WILL THEIR YOUNGESTERS), SHAH AND CORRUPT GROUPS WILL LET IT GO TO ZEROISE INTELLECTUCAL ANCESTR. PROVNCE OF ALL DUFFERS.


Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47167458

ادویات بغیر نسخے کے ’کریانے کی دکان پر ٹافیوں کی طرح فروخت ہو رہی ہیں‘

ادویاتتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
پاکستان میں منشیات کے خلاف کئی مہمات چلائی جا چکی ہیں اور حال ہی میں اعلان ہوا کہ صوبہ پنجاب کے سکولوں میں ڈرگ ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے۔
لیکن ذہنی امراض کے مریضوں کے لیے تجویز کردہ نُسخے کے ساتھ ملنے والی ادویات کا یہ حال ہے کہ وہ ’کریانے کی دکان پر ٹافیوں کی طرح فروخت ہو رہی ہیں۔‘
ذہنی امراض پر کام کرنے والے سماجی کارکن عدیل چوہدری کا کہنا ہے کہ ان ادویات کی کم قیمت اور عام دستیابی کے باعث لوگ ان کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.19 ماہر نفسیات موجود ہیں اور یہ خطے میں بدترین تناسب ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ کسی نہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض سے متعلق بات کرنا مایوب سمجھا جاتا ہے، اسی لیے کئی لوگ اپنا علاج خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تجویز کردہ ادویات کے غلط استعمال کی شرح میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مزید پڑھیے
عدیل چوہدری نے 18 ماہ قبل ’ٹاک ٹو می پاکستان‘ نامی ذہنی مسائل سے دوچار افراد کے لیے ہیلپ لائن متعارف کروائی جس کو اب تک ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد لوگوں کی کال موصول ہوچکی ہیں۔
ان کے مطابق اس سروس کو استعمال کرنے والوں میں سے تقریباً 68 فیصد لوگوں کو ڈپریشن یعنی ذہنی دباؤ کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ اس کے باعث عمومی طور پر الپرازولیم (Alprazolam) اور برومیزیپیم (Bromazepam) نامی کیمیکلز پر مشتمل ادویات کا غلط استعمال عروج پر ہے۔ یہ ادویات مارکیٹ میں زینکس (Xanax) اور لیگزوٹینل (Lexotanil) سمیت دیگر ناموں سے فروخت کی جاتی ہیں۔
زینیکستصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionزینکس بینزوڈائزپین کی ساخت میں سے ایک دوا ہے

کیا بینزوڈائزپین (Benzodiazepine) میں نشہ آور عنصر پایا جاتا ہے؟

لاہور کے سروسز ہسپتال کے ماہر نفسیات و منشیات ندیم اختر کے مطابق ’ڈیپریشن، بے چینی اور گھبراہٹ کے شکار مریضوں کو زینکس یا لیگزوٹینل تجویز کی جاتی ہے۔ ان ادویات کا شمار بینزوڈائزپین کی ساخت میں ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ ادویات اُن لوگوں کو بھی دی جاتی ہیں جن کو نیند نہ آنے کی شکایات ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان ادویات میں نشہ آور عنصر پائے جاتے ہیں اور اس لیے زینکس یا لیگزوٹینل جیسی ادویات کو چار ہفتوں سے زیادہ کے لیے تجویز کرنا نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہر نفسیات احسان چشتی کا کہنا تھا کہ ’مریض کو بینزوڈائزپین کی لت لگنا بے حد آسان ہے۔ اسی لیے اِن ادویات کو بہت کم مقدار اور محدود وقت کے لیے تجویز کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس کے عادی نہ ہوجائیں۔‘
ڈاکٹر احسان چشتی کے مطابق ’نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں تجویز کردہ ادویات کا نشہ عروج پر ہے۔ بینزوڈائزپین کی ساخت کی بیشتر ادویات سمیت بہت سی درد کُش ادویات کا بھی غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
ادویات

کیا یہ ادویات باآسانی دستیاب ہیں؟

’ٹاک ٹو می پاکستان‘ کے عدیل چوہدری نے بتایا کہ ’تعلیمی اداروں کے مضافات میں کریانے کی دکانوں اور چھوٹی فارمیسیز میں ان ادویات کو نسخے کے بغیر فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ امر اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ بہت سے طلبا ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور خود اپنا علاج کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔‘
ڈاکٹر ندیم اختر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کہ پاس متعدد مریض ایسے آئے جنھوں نے نسخے کے بغیر ان ادویات کو خریدا اور اب ان کے عادی ہوچکے ہیں۔
ان کے مطابق ’زینکس یا لیگزوٹینل کی ایک گولی آٹھ سے دس روپے تک کی ملتی ہے اور اس کی کم قیمت ہی کئی لوگوں کو اس نشے کی طرف راغب کرتی ہے۔‘
ڈاکٹر احسان چشتی کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں حکومت نے اس حوالے سے مثبت اقدامات اٹھائیں ہیں اور اب بہت سی بڑی فارمیسیاں یہ ادویات بغیر نسخے کے فروخت نہیں کرتیں۔
یہ بھی پڑھیے
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے ڈپٹی ڈائریکٹر اختر عباس خان نے اس حوالے سے بتایا کہ ’گذشتہ سال مارچ میں ایک نیشنل ٹاسک فورس قیام میں آئی جس کا مقصد جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے کے علاوہ ریکارڈ کے بغیر نشہ آور ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنا تھا۔‘
اختر عباس خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک تین ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف کاروائی بھی عمل میں لائی گئی ہے۔ چونکہ صحت اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک صوبائی معاملہ بن گیا ہے، اس لیے اس کی عمل داری سے متعلق ہر صوبے کا لائحہ عمل مختلف ہے۔
’ہم نے ادویات فروخت کرنے والے مراکز کو نسخوں کا ریکارڈ رکھنے کی تاکید کی ہے تاکہ نسخے کے بغیر کسی کو یہ ادویات فروخت نہ کی جائیں۔‘
ادویاتتصویر کے کاپی رائٹDNY59
’اپنا علاج آپ‘ کتنا خطرناک ہے؟
عدیل چوہدری کے مطابق ’طلبا میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے ذہنی مسائل کا خود علاج کرنے لگ جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پایا جانے والا مواد بیشتر اوقات بچے کو گمراہ کردیتا ہے۔
’ہمیں ہزاروں شکایات ایسے لوگوں کی موصول ہوئیں ہیں جنھیں ذہنی مسائل کا سامنا تھا مگر بجائے اس کے کہ وہ ماہرین سے رابطہ کرتے انھوں نے اِن نشہ آور ادویات کا استعمال مناسب سمجھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے عادی ہوگئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ حیران ہوں گے کہ اب تو اس حوالے سے بہت سی ڈیلوری سروسز بھی پائی جاتی ہیں جو خفیہ طور پر ان ادویات کی فراہمی ممکن بناتی ہیں۔‘
ڈاکٹر احسان چشتی نے کہا کہ ’بیشتر اوقات لوگ ادویات کی تجویز کردہ مقدار اور اوقات پر عمل نہیں کرتے، وقتی طور پر دی گئی دوا کا غلط استعمال کرتے ہیں اور جلد ان میں اس نشہ آور کیمیکل کی برداشت بڑھ جاتی ہے۔
’اس کی بدولت وہ دوا کی مقدار میں بتدریج اضافہ کرتے رہتے ہیں اور ان کے عادی ہوجانے کے بعد اُن کا نشہ چُھڑوانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

اسی بارے میں