Thursday 21 February 2019

ATTABAD LAKE HOW FORMED

عطاآباد میں جھیل کیسے بنی https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2010/05/100517_hunza_attahabad عطاآباد میں جھیل کیسے بنی رضا ہمدانی بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، ہنزہ 17 مئ 2010 اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر Image caption فلک پوش پہاڑوں کے درمیان ہنزہ جھیل کا ایک منظر چار جنوری کو ہنزہ تحصیل کے گاؤں عطا آباد سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں ’مٹی کا تودہ’ گرنے کے باعث دریائے ہنزہ میں پانی کا بہاؤ رک گیا جس کے نتیجے میں ایک جھیل معرضِ وجود میں آگئی۔ تودے نما پہاڑ دریا میں گرنے اور جھیل بننے کا یہ واقعہ یوں پیش آیا کہ سنہ دو ہزار دو میں استور میں زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں عطا آباد کی پہاڑی میں شگاف پڑ گئے۔ عطاآباد تحصیل ہنزہ کا آخری گاؤں ہے جس کے دو حصے ہیں، ایک ’عطا آباد بالا ‘اور دوسرا ’عطا آباد پائن‘ ہے جسے سرکٹ بھی کہتے ہیں۔ پہاڑ پہلے تو دریا میں گرا جہاں اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور عطا آباد پائن پر جا گرا جس کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا، تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ سنہ دو ہزار دو کے بعد سے حکومت پاکستان اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’فوکس پاکستان انٹرنیشنل‘ نے کئی بار اس جگہ کا معائینہ کیا۔ سنہ دو ہزار نو کے وسط میں عطا آباد بالا کے رہائشیوں نے حکومت پاکستان اور فوکس پاکستان سے دوبارہ کہا کہ پہاڑ سرک رہا ہے اور شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔ عطا آباد بالا کے ایک رہائشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سنہ دو ہزار نو میں پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔ ہماری زمین ناہموار ہو گئی تھی۔‘ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ زمین ’ناہموار‘ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ ان کا کھیت ایک جگہ سے اوپر ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا۔ ’کئی جگہوں پر تو ایسے تھا جیسے سیڑھیاں بنی ہوں۔‘ یہ مصنوعی جھیل عطا آباد بالا کے قریب بنی تھی جوقدرے اونچائی پر ہے، جبکہ عطا آباد پائن نیچے کی جانب ہے۔ Image caption عطا آباد میں پہاڑ دریا میں جا گرنے سے بند ہونے والی مقام کوصاف کیا جارہا ہے۔ عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے اس گاؤں کے رہائشیوں کو دسمبر دو ہزار نو کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا تاہم حکومت نے عطا آباد پائن کو محفوظ قرار دے دیا۔ عطا آباد بالا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں۔ چار جنوری کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے درے نیچا تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد اب عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ پہاڑ گرنے اور ملبے کا زمین پرگر کر اچھلنے کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ ’سپلیش‘ کا نام دیتے ہیں۔ کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں ای میل فیس بک Messenger ٹوئٹر واپس اوپر جائیں اسی بارے میں ’جھیل کا بند ٹوٹنے کا فوری خطرہ نہیں‘ آخر کار ہنزہ جھیل سے کتنا خطرہ ہوگا؟ دریائے ہنزہ جھیل: تین دیہات ڈوب گئے ہنزہ میں لینڈ سلائیڈنگ سے بننے والی جھیل، تصاویر ہنزہ متاثرین کے بارے میں تشویش پاکستان کی مزید خبریں

No comments:

Post a Comment