A CTION RESEARCH FORUM: BIRTH OF INVENTIONS/ EVOLUTION IS HUMAN MIND WHEN 'WHY' STARTED BOTHERING. OFTEN THERE IS NO WAY IN HUMAN POSSESSION AND CONTROL,
CREATOR'S WILL, WE WERE THE MEANS, ULTIMATELY ALL SUBSTANCE PHYSICAL OR VIRTUAL ARE TO END BY WILL OF DESTRUCTOR. WE DO WHAT WE SUPPOSED TO DO, AS ROBOT. ROBOT HAS NO COGNITION, SO THIS WHY IS BEYOND MANKIND, WHO IS CONTROLLING COGNITION,
ALMIGHTY AN INVISIBLE CREATOR TO MANKIND, WHICH IS BEYOND EXISTANCE OF VISIBLES.
Source: https://www.blogger.com/blogger.g?blogID=4068553338055038448#editor/target=post;postID=7377642948393695677
CREATOR'S WILL, WE WERE THE MEANS, ULTIMATELY ALL SUBSTANCE PHYSICAL OR VIRTUAL ARE TO END BY WILL OF DESTRUCTOR. WE DO WHAT WE SUPPOSED TO DO, AS ROBOT. ROBOT HAS NO COGNITION, SO THIS WHY IS BEYOND MANKIND, WHO IS CONTROLLING COGNITION,
ALMIGHTY AN INVISIBLE CREATOR TO MANKIND, WHICH IS BEYOND EXISTANCE OF VISIBLES.
Source: https://www.blogger.com/blogger.g?blogID=4068553338055038448#editor/target=post;postID=7377642948393695677
’مجھے کیوں پیدا کیا؟‘ انڈین شخص اپنی پیدائش پر غصہ، والدین پر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان
انڈیا کے 27 سالہ نوجوان نے اپنے والدین کے خلاف اسے بغیر اجازت پیدا کرنے پر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والے رافیل سیموئیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ والدین کا بچے پیدا کرنے کا عمل بالکل غلط ہے کیونکہ پھر ان بچوں کو زندگی بھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پیدا ہونے سے پہلے پیدا کرنے کی اجازت تو نہیں لی جا سکتی لیکن پھر بھی وہ مصر تھے کہ 'پیدا ہونے کا فیصلہ ہمارا نہیں تھا ' اور کیونکہ ہم اپنی مرضی کے بغیر پیدا ہوئے ہیں تو ہمیں زندگی گزارنے کے لیے پیسے دیے جائیں۔‘
کسی بھی خاندان میں اگر اس قسم کی باتیں کی جائیں تو لڑائی ہو سکتی ہے لیکن رافیل سیموئیل کے والدین نے اسے مذاق میں لیا ہے اور رافیل کے کہنا ہے کہ ان کے اپنے والدین سے اچھے روابط ہیں۔
رافیل سیموئیل کے والدین وکیل ہیں اور ان کی ماں کویتا کرناد کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ہمیں اپنے بیٹے کی ہمت پر ناز ہے کہ اس نے ہمیں عدالت لے جانے کی دھمکی دی یہ بات جانتے ہوئے کہ ہم دونوں وکیل ہیں۔ اگر وہ کوئی جائز اور ذہانت بھرا نکتے پیش کریں گے تو میں اپنی غلطی مان لوں گی۔'
رافیل سیموئیل کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کا اگر خاتمہ ہو جائے تو یہ زمین کے لیے بہت سودمند ثابت ہوگا۔
'انسانی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اتنے لوگ تکلیف میں ہیں۔ اگر ہم یہاں نہ ہوں تو زمین کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ جانور خوش ہوں گے۔ اور کیونکہ کوئی انسان ہی نہیں ہوگا تو کسی کو تکلیف بھی نہیں ہوگی۔'
رافیل سیموئیل نے بتایا کہ وہ پانچ برس کے تھے جب انھیں پیدائش مخالف خیالات آنے شروع ہوئے تھے۔
'میں ایک عام بچہ تھا۔ ایک دن مجھے سکول جانے کا دل نہیں کر رہا تھا لیکن میرے والدین نے زبردستی کہا کہ نہیں تم جاؤ گے۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مجھے کیوں پیدا کیا اور میرے والد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شاید اگر وہ کچھ بتا پاتے تو میں آج ایسا نہ سوچتا۔'
ان کی ماں کہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کے خیالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ زمین کے قدرتی وسائل کا کتنا خیال کرتے ہیں اور کتنے حساس ہیں۔
'مجھے بہت خوشی ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر اتنا بہادر اور آزادانہ سوچ رکھنے والا شخص بنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسے زندگی میں خوشیاں ملیں گی۔'
رافیل نے اپنے خیالات کے پرچار کے لیے فیس بک پر اپنا پیج بنایا جہاں انھیں ان کے خیالات کی وجہ سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان پر الزامات لگانے والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ سب اپنی مشہوری کے لیے کیا ہے۔
اپنا دفاع کرتے ہوئے رافیل کہتے ہیں کہ ایسا درست نہیں ہے۔
'میں یہ سب مشہوری کے لیے نہیں کر رہا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ پیدائش مخالف سوچ کو عوامی طور پر آگاہی ملے۔ یہ بہت سادہ سے بات ہے: بچے پیدا نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔'
بی بی سی کے سوال پر کہ کیا وہ اپنی پیدائش پر خوش ہیں، ان کا کہنا تھا: 'میں سوچتا ہوں کہ کاش میں پیدا نہ ہوا ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ میں اپنی زندگی سے ناخوش ہوں۔ میری زندگی بہت اچھی ہے لیکن کاش میں یہاں نہیں ہوتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ایک بہت اچھے سے کمرے میں ہوں، لیکن آپ اس کمرے میں رہنا نہ چاہتے ہوں۔'
No comments:
Post a Comment