SOURCE: http://www.bbc.com/urdu/regional-42470742
انڈیا میں غلامی کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟
حالیہ دنوں تاریخ کو جس طرح سے توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
اب جبکہ ان لوگوں (ہندو قوم پرستوں) کی حکومت ہے تو وہ تاریخ کو اپنے طریقے سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اب کوئی تاریخ نہیں بچی۔ یہ تو ایک قسم کی اساطیری داستانیں بن کر رہ گئی ہیں۔
تاریخ کو مسخ کر کے غلط انداز میں پیش کرنے والے دو چیزیں زیادہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہندوستان کی ثقافت کو قدیم ترین کہنا۔ دنیا میں آریہ کی تھیوری رد ہو چکی ہے لیکن یہاں یہ تسلیم کی جا رہی ہے کہ آریہ ہندوستان سے گئے اور ہر چیز پہلے ہم نے دریافت کی۔
وزیر اعظم نریندر مودی بھی ایسی باتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ گنیش (ہندو دیوتا) کے ہاتھی کے سر سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں آرگن ٹرانسپلانٹ ہوتا تھا۔
ایسا ہی رویہ نازیوں کا تھا جو یہ کہتے تھے کہ آریہ جرمنی سے نکلے تھے۔ انڈیا میں بالکل اسی طرز پر نازیوں کی نقل کی جا رہی ہے کہ ہندوستان سے نکلنے والے آریوں نے پوری دنیا کو تہذیب و تمدن سکھایا۔
'آزادی تحریک میں ایک بھی ہیرو نہیں'
۔یہ لوگ ہندوستان میں غلامی کے دور کی ابتدا سنہ 700 عیسوی بتاتے ہیں 1200 سال مسلمانوں کی اور اس کے بعد انگریزوں کی غلامی۔ یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی کئی نسلوں سے ہندوستان میں آباد ہے تو اُسے کسی دوسرے ملک کا حکمراں نہیں کہا جا سکتا ہے۔
ان کے دور حکومت میں ملک کی دولت باہر نہیں گئی تھی جیسا کہ انگریزوں کے دور حکومت میں 'ڈرین آف ویلتھ' ہوا تھا۔ کئی انگریز ماہر معاشیات بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
یہ لوگ برطانیہ اور مسلم حکمرانوں کے دور حکومت کو ایک ساتھ ملا دیتے ہیں۔ ان کا ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے والی تحریک میں تو ان کا کوئی تعاون نہیں تھا اس لیے انھوں نے غلامی کے ڈیڑ سو سال کو بڑھا کر 1200 کر دیا۔
ایسا کرنے سے تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو دو فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے میں انھیں کامیابی ملتی ہے۔
دوسرے یہ کہ آزادی کی تحریک میں ان کے صفر کا کردار کی پردہ پوشی ہو جاتی ہے۔ قومی تحریک میں ان کا اپنا ایک ہیرو نہیں ہے۔ وہ کبھی سردار پٹیل کو اپناتے ہیں تو کبھی بھگت سنگھ کو لیکن بھگت سنگھ سے ان کا کیا واسطہ۔
لہذا یہ لوگ ایسی کہانی پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بھی پڑھیں
مذہب اور کارپوریٹ کا نعرہ: سود مند سودا؟
اگر آپ کارپوریٹ سیکٹر کی بات مان لیں اور مذہب کو نعرہ دیں تو یہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے بہت اچھا ہے۔
مذہب کے نام پر عام لوگ آپ کی گرفت میں آ جاتے ہیں اور کارپوریٹ کی مدد سے آپ کو روپے مل جاتے ہیں۔ آپ 'الیکٹورل بانڈ' کو دیکھ لیں۔ اسے لانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اب کمپنیاں الیکٹورل بانڈز خرید لیں گی اور صارفین کو یہ پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کمپنی کس پارٹی کو فنڈ دے رہی ہے۔
یہ سب چالیں ہیں اور اسی پر وہ عمل پیرا ہیں۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے اقدام سے چھوٹی صنعتیں متاثر ہوئیں۔ بڑی صنعتوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ موڈیز نے ہندوستان کی ریٹنگ بی اے اے 3 سے بڑھا کر بی اے اے 2 کر دی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے نجی اور کارپوریٹ شعبے کو بہت خوش کیا۔
مسلمانوں کے خلاف فلمیں بنائی جا رہی ہیں
واضح ہے کہ فلم پدماوتی خیالی فلم ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ اس فلم کے اثر کی وجہ سے مسلمانوں پر حملہ ہوا۔
پدماوتی میں علاءالدین خلجی کو جس طرح پیش کیا جا رہا ہے، وہ تاریخی طور پر تصدیق شدہ نہیں ہے۔ اگر آپ کو فلم بنانی تھی تو اتنے سارے راجپوت راجہ اور رانیاں تھیں اور ان کی آپس میں کئی جنگیں بھی ہوئیں تو ان پر بناتے۔ لیکن وہ آپ کرنا نہیں چاہتے۔
پدماوتی پر چھڑنے والی بحث سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں آج بھی ذات پات کا نظام ختم نہیں ہو سکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سے 'راجپوت وقار' پر اثر پڑ رہا ہے۔ یہ راجپوت پرائڈ کیا چیز ہے؟ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ ذات پات کو ختم کرنا ہے اور دوسری جانب ایسی باتیں؟
میں دیکھ رہا ہوں کہ ایسی فلمیں بنائی جا رہی ہیں جس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جذبات کو بھڑکایا جا سکے۔
(بی بی سی ہندی کے وکاس ترویدی نے پروفیسر عرفان حبیب سے بات کی ہے)
No comments:
Post a Comment