Saturday, 16 December 2017

EAST PAKISTAN 1971 SURRENDER BY GEN NIAZI OF PAK ARMY, WHY AND HOW?


(A.R): ACTION RESEARCH FORUM,  SUGGESTS TO REVIEW CRICTICALLY ARMED FORCES COMBAT CAPABILITIESAND WAR PLANNING, THEY COULD NOT REALISE THE END GAME OF EGO WAR, WITH NO ESCAPE IN CASE OF TRAP, AMIDST ENEMY FORCES. 

ONE CRUCIAL POINT IS RECRUITMENT POLICY DOMINANCE OF BATSMAN MINDSET WITH  LEAST SCIENTIFIC ACUMEN MOSTLY,  ILLITRATES, FAITH BIASED, PUNJABI (WHO WERE RULED BY SIKHS), LOCKED IN VIRTUAL BLACK HOLE OF SUPREMACY, COUNTING ON PHYSIQUE EMBEDDED DEFICIT OF  VIRTUALITTY. 

HOW MUCH IS DEVIATED, FOR MODERN NEEDS, ????  

 . 

Source:  http://www.bbc.com/urdu/regional-42379385

بنگلہ دیش کا قیام: جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟



جنگتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption1971 میں پاکستان اور بھارت کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش بنا

انڈیا کی مشرقی کمان کے سٹاف آفیسر میجر جنرل جے ایف آر جیکب نے 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران اہم کردار ادا کیا تھا۔
وہ جیکب ہی تھے جنھیں مانک شاہ نے پاکستانی فوج سے ہتھیار ڈلوانے کے لیے ڈھاکہ بھیجا تھا۔ انھوں نے ہی جنرل نیازی سے بات کر کے انھیں ہتھیار ڈالنے کے لیے راضی کیا تھا۔ جیکب نے 1971 کے جنگ پر دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔
بی بی سی ہندی سروس کے ریحان فضل نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا کہ عام تاثر یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت چاہتی تھی کہ بھارتی فوج اپریل 1971 میں بنگلہ دیش کے لیے نکل پڑے لیکن فوج نے اس فیصلے کی مخالفت کی، اس کے پیچھے کہانی کیا ہے؟


جنگتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionجنرل جیکب کا کہنا تھا کہ مانک شاہ کی منصوبہ بندی میں ڈھاکہ پر قبضہ کرنا شامل نہیں تھا

میجر جنرل جے ایف آر جیکب نے بتایا کہ جنرل مانک شاہ نے انھیں فون کر کے کہا کہ بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی تیاری کیجیے کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ ہم وہاں فوراً مداخلت کریں۔ ’میں نے انھیں بتانے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس پہاڑی ڈویژن ہے، ہمارے پاس کوئی پل نہیں ہے اور مون سون شروع ہونے والا ہے، ہمارے پاس بنگلہ دیش میں گھسنے کے لیے فوجی اور بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔‘


جیکب
Image captionبی بی سی کے نامہ نگار ریحان فضل کے ساتھ جنرل جیکب

’اگر ہم وہاں جاتے ہیں، تو یہ یقینی ہے کہ ہم وہاں پھنس جائیں گے۔‘ لہذا، میرا کہنا تھا کہ 15 نومبر تک اسے ملتوی کرنا چاہیے جب تک کہ زمین مکمل طور سے خشک نہ ہو جائے۔
جنرل جیکب کا کہنا تھا کہ مانک شاہ کی منصوبہ بندی میں ڈھاکہ پر قبضہ کرنا شامل نہیں تھا لیکن 'میں نے ان سے کہا کہ اگر ہم جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو ڈھاکہ پر قبضہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی سٹریٹیجک اہمیت یہ ہے کہ یہ مشرقی پاکستان کا جغرافیائی دل بھی ہے۔'
لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم کھلنا اور چٹاگانگ لے لیتے ہیں تو ڈھاکہ خود ہی ہمارے قبضے میں آ جائے گا۔ مجھے نہیں پتہ اس کی کیا وجہ تھی، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ ہمیں صرف کھلنا اور چٹاگانگ پر قبضہ کرنے کا تحریری حکم ملا تھا۔ ایئر مارشل پی سی لال نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈھاکہ پر قبضہ منصوبے کا حصہ ہی نہیں تھا اور اس بارے میں بھارتی ہیڈکوارٹر میں کافی اختلافات تھے۔


جنگتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption917 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا منظر
جنگتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاس جنگ میں لاکھوں لوگوں کو ہجرت کرنی پڑی

اس سوال پر کہ کیا یہ بات درست ہے کہ اگر پاکستان 3 دسمبر کو بھارت پر حملہ نہ کرتا تو آپ 4 دسمبر کو پاکستان پر ہلہ بول دیتے، جنرل جیکب کا کہنا تھا کہ یہ بلکل درست ہے۔ ’میں نے آرمی ڈپٹی چیف سے ملاقات کی اور مجھے بتایا گیا کہ اس حملے کی تاریخ پانچ دسمبر طے پائی ہے لیکن مانک شاہ نے اسے ایک دن پہلے کر دیا کیونکہ چار ان کا لکی نمبر تھا۔‘
سولہ دسمبر کا دن یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا میرے پاس مانک شاہ کا فون آیا کہ جیکب ڈھاکہ جا کر ہتھیار ڈلوائیں۔ میں جب ڈھاکہ پہنچا تو پاکستانی فوج نے مجھے لینے کے لیے ایک بریگیڈیئر کو بھیجا۔


جنگتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionجنرل جیکب کے مطابق اس وقت ڈھاکہ میں پاکستان کے پاس 26400 فوجی تھے جبکہ بھارت کے پاس صرف تین ہزار

مکتی باہنی اور پاکستانی فوج کے درمیان لڑائی جاری تھی اور گولیاں چلنے کی آواز سنی جا سکتی تھی۔ ہم جیسے ہی کار میں بیٹھے مکتی فورسز نے اس پر گولیاں چلا دیں کیونکہ وہ پاکستانی فوج کی کار تھی۔
میں ہاتھ اوپر کر کے کار سے نیچے اتر گیا۔ وہ پاکستانی برگیڈیئر کو مارنا چاہتے تھے، ہم کسی طرح مشکل سے پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر پہنچے۔
جب میں نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے سے متعلق دستاویز پڑھ کر سنائیں تو انھوں نے کہا کہ ’کس نے کہا ہے کہ ہم ہتھیار ڈال رہے ہیں، آپ یہاں صرف جنگ بندی کرانے آئے ہیں۔ اس بارے میں بحث ہوتی رہی میں نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کو بہت اچھی پیشکش کی ہے اور اس سے بہتر پیشکش نہیں کر سکتے، ہم آپ کی اور آپ کے خاندانوں کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں لیکن آپ اس پیشکش کو نہیں مانتے تو پھر ہماری کوئی ذمہ دار نہیں ہوگی۔ اس پر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘


جنگ
Image captionجنرل جیکب کے مطابق ڈھاکہ میں مکتی باہنی اور پاکستانی فوج کے درمیان لڑائی جاری تھی

جنرل جیکب نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کو تیس منٹ دیتا ہوں اگر آپ نہیں مانتے تو میں پھر سے جنگ شروع کرنے اور ڈھاکہ پر بمباری کا حکم دے دوں گا۔ ’یہ کہہ کر میں باہر چلا گیا لیکن دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں اور ان کے پاس ڈھاکہ میں 26400 فوجی ہیں اور ہمارے پاس صرف تین ہزار اور وہ بھی ڈھاکہ سے تیس کلو میٹر باہر۔ اگر وہ نہ کر دیتے ہیں تو میں کیا کروں گا۔‘
’میں تیس منٹ بعد اندر گیا دستاویز وہیں میز پر تھیں، میں نے ان سے پوچھا کیا آپ کو یہ منظور ہے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے تین بار سوال کیا پھر کاغذ میز سے اٹھا کر کہا میں یہ مان کر چل رہا ہوں کہ آپ کو یہ منظور ہے۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ پاکستانیوں کے پاس ڈھاکہ کا تحفظ کرنے کے لیے فوجی تھے تب بھی انھوں نے ہتھیار کیوں ڈالے، جنرل جیکب نے حمودد الرحمن کمیشن کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب جنرل نیازی سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس ڈھاکہ میں 26400 فوجی تھے جبکہ بھارت کے پاس صرف تین ہزار آپ کم سے کم دو ہفتے اور لڑ سکتے تھے۔ سکیورٹی کونسل کا اجلاس جاری تھا، اگر آپ ایک دن اور لڑ پاتے تو بھارت کو شاید واپس جانا پڑتا تو پھر آپ نے ایک شرمناک شکست اور بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈالنا کیوں منظور کیا۔ اس پر نیازی کا جواب تھا کہ مجھے ایسا کرنے کے لیے جنرل جیکب نے مجبور کیا تھا۔ انھوں نے مجھے بلیک میل کیا اور ہمارے خاندانوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ نیازی کی یہ بات بالکل غلط تھی اور کمیشن نے نیازی کو قصور وار ٹھہرایا۔‘

متعلقہ عنوانات

اسی بارے میں


No comments:

Post a Comment