Thursday 9 August 2018

JAPAN AUGUST BOMBING BY AMERICA: NAGASAKI LITTLE BOY ATTACK:


ACTION RESEARCH FORUM: THIS INCIDENCE REMINDS ENOUGH  TO READ AMERICAN'S MIND ABOUT ASIANS,MOST BRUTAL FACISM. THE PRESIDENT NOW IS BIRN WITH SAME ANCESTORY. HIS EXPRESSIONS ARE STILL OF SAME WAVE LENGTH AND HATE.  POSING TO BE GOD OF DEATH. 

WE ARE ASHMED OF AMERICAN HYPROCRICY, HOW THE WORLD ACCPTS THAT BRUTAL CRIMINALITY. 

HAD THAT NOT BEEN SO, THE WORLD COULD HAVE BEEN ? 
    


Source: https://www.bbc.com/urdu/world-45130707

بدقسمت ناگاساکی: ’جب مجھے ہوش آیا تو میرے بائیں بازو کی جلد کندھے سے لے کر انگلیوں کی پوروں تک کسی چیتھڑے کی طرح لٹک رہی تھی‘

ایٹم بمتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
1945 میں ایک عام جاپانی کی زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی۔ انڈے، دودھ، چائے اور کافی دکانوں سے غائب ہو گئے تھے۔ سبزیاں سونے کے بھاؤ بکتی تھیں اور پیٹرول عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو گیا تھا۔
سڑکوں پر نجی گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صرف فوجی ٹرک نظر آتے تھے یا پھر پیدل یا سائیکل سوار شہری۔
چھ اگست 1945 کو صبح سویرے جاپانی ریڈاروں نے دیکھا کہ چند امریکی جہاز جنوب کی طرف سے اڑتے ہوئے آ رہے ہیں۔ سائرن بجنا شروع ہو گئے، ریڈیو نشریات بند ہو گئیں۔
اسی بارے میں
اس وقت پیٹرول کی اس قدر قلت تھی کہ ان جہازوں کو روکنے کے لیے جاپانی جہاز اڑ نہیں سکے۔ آٹھ بجے ریڈیو پروگرام دوبارہ شروع کر دیے گئے۔
اینولا گےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاینولا گے جس نے ہیروشیما پر ’لٹل بوائے‘ گرایا
آٹھ بج کر نو منٹ پر امریکی فضائیہ کے کرنل پال ٹبیٹس بی29 طیارے کے انٹرکام سے اپنے ہوابازوں سے مخاطب ہوئے: 'اپنے گاگلز ماتھے پر رکھ لیں۔ جیسے ہی الٹی گنتی شروع ہو، فوراً انھیں پہن لیں اور اس وقت تک پہنے رکھیں جب تک آپ کو نیچے زبردست روشنی نہ دکھائی دے۔'
ہوائی جہاز کے پیٹ میں ساڑھے 11 فٹ لمبا، چار ٹن وزنی نیلے اور سفید رنگ کا بم تھا جس کا نام 'لٹل بوائے' تھا۔ نیو میکسیکو کی ٹاپ سیکرٹ لیبارٹری میں بننے والے اس 'چھوٹے لڑکے' کا وجود اس قدر خفیہ رکھا گیا تھا کہ امریکی نائب صدر تک کو اس کا علم نہیں تھا۔
سوا آٹھ بجے یہ چھوٹا لڑکا جہاز کے پیٹ سے چھوڑ دیا گیا۔ اسے زمین تک پہنچتے پہنچے 43 سیکنڈ لگے۔ جلد ہی ہواباز میجر چارلز سوین نے شہر کے مرکز سے آگ کا ایک عظیم گولہ اوپر اٹھتے دیکھا۔
شہر کے وسط میں جو کچھ تھا وہ لمحے میں بھسم ہو گیا۔ بم گرنے کے مقام سے 15 کلومیٹر کے دائرے میں ہر شیشہ پگھل گیا۔ درجۂ حرارت ایک لاکھ درجے تک جا پہنچا۔
ایٹم بمتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
پورا شہر آگ کے طوفان کے تھپیڑے کھانے لگا۔ شہر کی ڈھائی لاکھ لوگوں میں سے 80 ہزار ایک لمحے کے اندر اندر جل کر بھسم ہو گئے۔
جہاز کے پچھلے حصے میں بیٹھے باب کارن نے اپنے کوڈک کیمرے سے نیچے کے منظر کی تصویر لے لی جس میں جامنی بادلوں کے اندر سے روشنی کا تین ہزار فٹ بلند مشروم کی شکل کا مرغولہ اوپر اٹھ رہا ہے۔
ایٹم بمتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں کم از کم 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے
فوکوئیچی نامی ہیروشیما کے باسی اس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں:'اچانک میں ایک عظیم آگ کا گولہ دیکھا جو سورج سے کم از کم پانچ گنا بڑا اور دس گنا زیادہ روشن تھا۔ یہ سیدھا میری طرف آ رہا تھا۔'
شریک ہواباز رابرٹ لوئس نے اپنی لاگ بک میں لکھا: 'میرے خدا، یہ ہم کیا کر رہے ہیں؟'
37 سالہ مقامی صحافی ناکامورا اس وقت ہیروشیما سے باہر تھے، لیکن دھماکے کے اثر سے وہ گر پڑے اور ان کا چہرہ شیشہ لگنے سے زخمی ہو گیا۔ تاہم انھوں نے اپنی موٹر سائیکل اٹھائی اور شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔
وہ ہیروشیما کی تباہی دیکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے اپنے اخبار کو بریکنگ نیوز بھیجی: 'سوا آٹھ بجے دشمن کے دو جہازوں نے ہیروشیما پر کوئی خصوصی بم گرا دیا ہے۔ ہیروشیما مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔'
جب اخبار کے بیوروچیف کو یہ خبر ملی تو اس نے یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ فوج اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی کہ شہر تباہ ہو گیا ہے اور اتنی تعداد میں لوگ مر گئے ہیں۔ اس نے ناکامورا سے کہا کہ وہ ہلاکتوں کی تعداد کو کم کر دے۔
ناکامورا نے جواب دیا، 'فوج بےوقوف ہے!'
تین دن بعد نو اگست کو ایک اور جاپانی شہر ناگاساکی پر اسی قسم کا ایک اور بم گرا دیا گیا۔ اس بار بم کا نام 'فیٹ مین' (موٹا آدمی) تھا۔ اسے بوکسکار طیارے سے گرایا گیا اور اس کے پائلٹ کا نام میجر چارلس سوینی تھا۔
ناگاساکیتصویر کے کاپی رائٹNAGASAKI ATOMIC BOMB MUSEUM
Image captionناگاساکی میں ہونے والی تباہی
ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں کم از کم 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل گذشتہ تین روز میں ہیروشیما پر دنیا کے پہلے ایٹمی حملے میں کم از کم ایک لاکھ 40 ہزار افراد مارے گئے تھے۔
دھماکے کی شدت اس قدر تھی کہ گھروں کے شیشے اڑ کر آٹھ کلومیٹر دور تک جا گرے۔
تانیگوچی اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'اچانک قوسِ قزح کی طرح کی روشنی نمودار ہوئی۔ ایک طاقتور جھکڑ نے میرے قدم اکھیڑ کر مجھے دور جا پھینکا۔
مشرومتصویر کے کاپی رائٹHULTON ARCHIVE
Image captionروشنی کا تین ہزار فٹ بلند مشروم کی شکل کا مرغولہ اوپر اٹھتا ہوا
'جب مجھے ہوش آیا تو میرے بائیں بازو کی جلد کندھے سے لے کر انگلیوں کی پوروں تک کسی چیتھڑے کی طرح لٹک رہی تھی۔ میرے کپڑے (جل کر) غائب ہو گئے تھے اور میری جلد جل گئی تھی۔
'سیاہ لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ گری ہوئی عمارتوں کے اندر سے لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ لوگوں کا گوشت بدن سے گر رہا تھا اور ان کی اندر کے اعضا باہر آ گئے تھے۔ یہ جہنم کا منظر تھا۔'
ناگاساکی کی بدقسمتی یہ ہے کہ حملے کے دن جہاز دراصل ایک شہر کوکورا پر بم گرانے جا رہا تھا، لیکن وہاں موسم خراب تھا اس لیے بوکسکار نے ناگاساکی کا رخ کر لیا۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ناگاساکی کا اچھا موسم اس کی تباہی کی وجہ بن گیا۔
امریکہ ایٹم بم کے استعمال کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی توجیح کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہونے والی فوجی اور شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اس کا استعمال کیا گیا تھا۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ جاپان پہلے ہی ہتھیار پھیکنے کے لیے تیار تھا اور امریکہ کی جانب سے ایٹم بم محض اپنی فوجی برتری کے اظہار کے لیے گرائے گئے تھے۔
ایک زخمیتصویر کے کاپی رائٹHULTON ARCHIVE
Image captionجو لوگ آگ سے بچ گئے، وہ بعد میں تابکاری سے ہونے والے امراض کا شکار ہوئے

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment