Sunday 26 August 2018

US: MUSLIM YOUNG GIRL BODY SCREEING OF PORN ORGANS BY SECURITY STAFF IS HATE MODEL BARBARIAISM OF ADMIN- TORTURE MONGERING


ACTION RESEARCH FORUM: THE US NATION SET PRECEDENCE PUBLICALLY, COMMITIING AGONY ON THE GROUND OF FACISIM, DISCRIMINATION OF BLOODLINE LIKE DISTRESS OF NATIVE AMERICANS CLEANSING AND DISTRESS OF NATIVES BY 2ND NATION. 

RULING CLASS IS SET SUCH PRECEDENCE (MIGHT IS RIGHT BEYOND LOGICAL NORMS); RECALL PM OF PAKISTAN, BODY SEARCH ON LAST VISIT TO US.

LIKE FOR LIKE BE TREATED TO AMERICAN VISITORS BY OTHER NATIONS IN ODER TO SET HOW THEY FEEL. WHY US OFFICIALS NOT BE TREATED IN SAME WAY TO FIT THEM AS HUMANS OF THIS WORLD.   

OH!  TRUMP; HUMANITY IS ASHAMED OF BEHAVING WITH WEAK GENDER NATURAL PRIVILEGES ALIKE MANIFESTED FOR MERIUM  AND ISSA BEN MERIUM BIRTH PRIDE. 

**** 


Source: https://www.dawnnews.tv/news/1085671/

امریکی ایئرپورٹ حکام کا مسلم لڑکی سے ’پیڈز‘ دکھانے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 26 اگست 2018
زینب کو پینٹ اتارنے پر مجبور کیا گیا، رپورٹ—اسکرین شاٹ
زینب کو پینٹ اتارنے پر مجبور کیا گیا، رپورٹ—اسکرین شاٹ
امریکی ایئرپورٹ پر اسکریننگ کے حوالے سے پہلے بھی متنازع خبریں سامنے آتی رہی ہیں، تاہم اس بار ایک حیران کن خبر نے دنیا بھر کی خواتین کو پریشان کردیا۔
امریکی شہر واشنگٹن میں ایئرپورٹ حکام نے 27 سالہ مسلمان لڑکی کی تضحیک کرتے ہوئے اسکریننگ کے دوران ان سے اپنے خصوصی ایام میں استعمال کیے جانے والے پیڈز دکھانے کا مطالبہ کیا، جس کی وجہ سے انہیں سخت ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی ویب سائٹ ‘ہفنگٹن پوسٹ’ کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو کی رہائشی لڑکی 27 سالہ زینب مرچنٹ کو حال ہی میں بوسٹن سے واشنگٹن ڈی سی کے سفر کے دوران ‘ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن‘ (ٹی سی اے’ یعنی ایئرپورٹ حکام نے تلاشی کے بہانے تضحیک کا نشانہ بنایا۔
رپورٹ کے مطابق ایئرپورٹ حکام نے اسکریننگ کے دوران زینب مرچنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک خصوصی کمرے میں چل کر اضافی تلاشی دیں۔
مجھ سے ہر بار اضافی تلاشی لی جاتی ہے، زینب کا دعویٰ—اسکرین شاٹ
مجھ سے ہر بار اضافی تلاشی لی جاتی ہے، زینب کا دعویٰ—اسکرین شاٹ
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ زینب مرچنٹ نے ایئرپورٹ حکام کو بتایا کہ ان دنوں اُن کے خصوصی ایام چل رہے ہیں اور انہوں نے پیڈز پہن رکھے ہیں تاہم عہدیداروں نے ان کی ایک نہ مانی اور انہیں خصوصی کمرے میں چل کر اضافی تلاشی دینے کو کہا۔
رپوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ساتھ ہی زینب مرچنٹ کو دھمکایا گیا کہ اگر انہوں نے عہدیداروں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تو ایئرپورٹ پر کھڑے ریاستی فوجی مداخلت کریں گے اور انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق اس عمل کے دوران زینب مرچنٹ کو اپنے وکیل سے فون پر بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی اور انہیں ایک کمرے میں چلنے کو کہا گیا۔
زینب کو اپنے وکیل سے بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی—اسکرین شاٹ
زینب کو اپنے وکیل سے بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی—اسکرین شاٹ
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس دوران زینب مرچنٹ نے اضافی تلاشی لینے اور تضحیک کرنے والے عہدیداروں سے ان کے نام بھی معلوم کرنے کی کوشش کی، تاہم حکام نے انہیں کوئی معلومات فراہم نہیں کی، ساتھ ہی انہوں نے اپنے ناموں کے بیجز بھی اتار رکھے تھے۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ 3 بچوں کی ماں اور ایک صحافی مسلمان خاتون کی ایئرپورٹ پر تضحیک کی گئی ہو، اس سے قبل بھی زینب مرچنٹ کی اضافی تلاشی لی جاتی رہی۔
زینب مرچنٹ کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 2 سال سے ہوائی جہاز کے ذریعے امریکا کی مختلف ریاستوں کے دوران سفر کر رہی ہیں اور انہیں ہر بار ایئرپورٹ پر اضافی تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
زینب مرچنٹ کے مطابق ہر بار وہ اضافی تلاشی پر خاموشی اختیار کرتی تھیں، تاہم اس بار معاملہ حد سے بڑھ گیا تو انہوں نے خاموشی توڑنے کا فیصلہ کیا۔
زینب مرچنٹ کے ساتھ ہونے والی تضحیک پر امریکا کی ایک سماجی تنظیم ‘امریکن سول لبرٹیز یونین کالڈ’ (اے سی ایل سی) نے ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ (ایچ سی ڈی) کو تحریری شکایت کرکے افسران کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
علاوہ ازیں اے سی ایل سی نے اس حوالے سے ایک آن لائن مہم کا بھی آغاز کیا ہے اور لوگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اس پٹیشن کے خلاف شکایت کرکے زینب مرچنٹ جیسی دیگر خواتین کو ایئرپورٹ پر تضحیک کا نشانہ بننے سے بچنے میں ان کی مدد کریں۔
اے سی ایل نے زینب مرچنٹ کی ایئرپورٹ پر اضافی تلاشی لیے جانے کے حوالے سے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے۔
خیال رہے کہ زینب مرچنٹ نے ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن بھی کر رکھی ہے اور ساتھ ہی ‘زینب رائٹ’ نامی حالات حاضرہ کی ویب سائٹ کی ایڈیٹر بھی ہیں۔

No comments:

Post a Comment