Friday 5 October 2018

FOR LIFE SECURITY -FORCED FAITH CONVERSION OF MUSLIM FAMILY IN BAGHPAT UP- MODDI HINDUATA RAJ



SOURCE: https://www.bbc.com/urdu/india-45747434


انڈیا: اتر پردیش کا ایک مسلم خاندان جس کے مرد تو ہندو بن گئے لیکن کچھ عورتوں نے انکار کر دیا


اختر علی
Image captionسوال یہ ہے کہ کیا 64 سال تک مسلمان رہنے والے اختر علی کیا باقی کی زندگی دھرم سنگھ بن کر جی لیں گے؟

آپ کا نام کیا ہے؟ ’میرا نام اختر علی ہے۔‘ 64 سالہ اختر علی شاید بھول گئے تھے کہ باغ پت کے بدرکھا نامی گاؤں میں وہ دو اکتوبر کو ہندو مذہب اختیار کر چکے ہیں۔ اچانک انھیں یاد آیا اور انھوں نے کہا، ’نہیں میرا نام اب دھرم سنگھ ہے۔‘
تین اکتوبر کی شام کو پانچ بجے کا وقت ہے ان کے گھر کے پیچھے ایک چھوٹی سی مسجد ہے مسجد سے آذان کی آواز آتی ہے، دھرم سنگھ درمیان میں ہی بات چیت بند کر دیتے ہیں اور آذان ختم ہونے تک خاموش رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا 64 سال تک مسلمان رہنے والے اختر علی اپنی باقی کی زندگی دھرم سنگھ بن کر جی لیں گے۔
وہ کہتے ہیں ’مجبوری ہے جی، نہ وہاں سُکھ تھا نہ یہاں چین ہے۔ یووا ہندو واہنی نے یوگی مودی سرکار سے انصاف دلوانے کا وعدہ کیا ہے۔
اگر یہاں بھی انصاف نہیں ملا تو؟ وہ کہتے ہیں، ’وہی ہوگا، نہ گھر کے نہ گھاٹ کے۔‘ کیا اچھا نہیں ہوتا کہ ’انصاف‘ کے لیے آپ کو ہندو نہیں بننا پڑتا؟ اس سوال پر دھرم سنگھ خود کو سنبھالتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

اختر علی
Image captionدلشاد کا کہنا ہے کہ اب وہ دلیر سنگھ بن گئے ہیں

اتر پردیش میں باغ پت شہر سے 35 کلومیٹر دور بدرکھا گاؤں میں دو اکتوبر کو اختر علی اور ان کے تین بیٹوں کے ساتھ ایک بہو اور دیگر آٹھ افراد کے ہندو بننے کی خبر آئی۔ دلشاد کا کہنا ہے کہ اب وہ دلیر سنگھ بن گئے ہیں۔ ارشاد کہتے ہیں کہ انھیں اب کوی کہا جائے اور نوشاد کو اب نریندر سنگھ نام اچھا لگ رہا ہے۔
دلشاد کی بیوی منسو کا بھی کہنا ہے کہ وہ اب منجو ہیں۔ نوشاد یعنی اب نریندر کی بیوی رقیہ کہتی ہیں کہ انھیں اپنے ہی مذہب میں رہنا ہے اور ان کے شوہر جھوٹ بول رہے ہیں کہ وہ ہندو بن گئی ہے۔
رقیہ جب یہ بات مجھے بتا رہی تھیں تو نریندر نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔ رقیہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ ’آپ کو جو بننا ہے بنو، مجھے اپنے ہی مذہب میں رہنا ہے۔‘
رقیہ کی گود میں چار سال کا ان کا بیٹا ناہید ہے۔ نریندر کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا ناہید بھی ہندو بن گیا ہے۔ اس پر رقیہ شدید اعتراض کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’تم بنو جو بننا ہے۔ یہ مسلمان ہی رہے گا۔‘
نریندر اپنی بیوی کو کوئی جواب نہیں دے پاتے۔ اسی دوران ناہید اناج کی بوری پر رکھے اس کیسری کپڑے کو اپنے کندھے پر ڈال لیتا ہے جسے اوڈھ کر نوشاد نریندر بنے تھے۔ رقیہ ناہید کو ڈانٹتی ہیں اور اس کپڑے کو وہیں رکھ دیتی ہیں۔

اختر علی
Image captionیووا ہندو واہنی کے سوکیندر کھوکھر اور یوگیندر تومر نے اس خاندان کو بدرکھا گاؤں کے ایک مندر میں مسلمان سے ہندو بنایا

’یووا ہندو واہینی‘ نے بنایا ہندو

بدرکھا گاؤں میں اس خاندان کا کوئی گھر نہیں۔ یہ گاؤں کے ہی جسبیر سنگھ چودھری کے گھر میں پچھلے دو ماہ سے رہ رہے ہیں۔ یہ بڑا سا گھر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یووا ہندو واہنی بھارت نام کی تنظیم نے اسے یہ گھر دلایا ہے۔
یووا ہندو واہنی بھارت، کے اتر پردیش کے سربراہ سوکیندر کھوکھر اسی گاؤں کے ہیں اور انھوں نے ہی یہ گھر دلوایا ہے۔ کیا یہ تنظیم ہندو یووا واہنی سے مختلف ہے؟ سوکیندر کہتے ہیں کہ ’ہندو یووا واہنی کو یوگی جی نے وزیر اعلی بننے کے بعد بند کر دیا تھا۔ یہ تو الگ ہے جی۔ ہمارے قومی سربراہ شووراج سنگھ چوہان (مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ نہیں) ہیں، اور رابطہ کار امر سنگھ۔
یووا ہندو واہنی کے سوکیندر کھوکھر اور یوگیندر تومر نے اس خاندان کو بدرکھا گاؤں کے ایک مندر میں مسلمان سے ہندو بنایا۔ سوکیندر کا کہنا ہے کہ یہ اسلام سے آجز آ گئے تھے اور اپنی مرضی سے ہندو مذہب کو اپنایا ہے۔
یووا ہندو واہنی کس حق سے لوگوں کا مذہب تبدیل کراتی ہے؟ سوکندر کہتے ہیں کہ ’کچھ نہیں جی، بس کوئی مسلمان سے ہندو بنتا ہے تو اچھا لگتا ہے۔ میں نے ان سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ ہاں، گھر ضرور دلوایا ہے، لیکن یہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ انھیں یہ گھر بھی چھوڑنا ہوگا۔‘

رقیہ
Image captionنوشاد کی بیوی رقیہ نے ہندو بننے سے انکار کیا

دوسری طرف نوشاد کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ 29 ستمبر کو سوکیندر کھوکھر سے ملنے گئے تھے۔ انھوں نے کہا وہ میرے بھائی گلشن کی موت میں پولیس اور سرکار سے مدد کرائیں گے۔ انھوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور کئی طرح کی مدد کی۔ مذہب بدلنے کی بات بھی وہیں ہوئی۔ وہیں ہم نے طے کیا کہ ہندو بننا ہے۔‘
دلشاد جو کہ اب دلیر سنگھ بننے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے ہماری بہت مدد کی جی۔ بس بھائی کے قتل میں انصاف مل جائے۔‘ جب دلیر سنگھ سے پوچھا کہ اس گھر میں آپ کو کب تک رہنے دیا جائے گا تو ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ ’پتہ نہیں جی کہاں جاؤں گا۔ اگر یہاں آنے کے بعد بھی کچھ فائدہ نہیں ہوا تو پچھتاوا ہی ہوگا۔ ہم کہیں کے نہیں رہ جائیں گے جی۔‘
دلشاد کی بیوی منسو بھی خود کو ہندو بتا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ منجو ہیں۔ منسو کو منجو بننا کتنا اچھا لگ رہا ہے؟ مٹی کے چولہے پر گوبر کے اپلے سے کھانا پکا رہی منجو اس سوال پر چپ ہو جاتی ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ ’ابھی تک تو گاؤں کے ہندؤوں نے کافی مدد کی ہے جی۔ آگے کا نہیں پتا۔‘

رقیہ
Image captionخاندان کی ان دونوں بہوؤں نے مذہب تبدیل نہیں کیا

مذہب تبدیل کرنے پر خاندان میں اختلاف

ارشاد کی بیوی آشما اپنے شوہر کے ہندو بننے سے ناراض تھیں اور وہ گھر چھوڑ کر میکے چلی گئیں۔ شبارا بھی اسی خاندان کی ایک بہو ہیں۔ انھیں بھی گھر کے مردوں نے ہندو بننے کے لیے کہا تھا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ شبارا کہتی ہیں کہ ’میں جو ہوں، وہی رہوں گی۔ ان کو لگتا ہے کہ ہندو بننے سے بیٹے کی موت میں انصاف مل جائے گا تو اچھا ہی ہے۔ میں بھی اس کی دعا کرتی ہوں۔‘
آنگن میں بیٹھی برتن دھو رہی شبارا بڑی مایوسی سے کہتی ہیں کہ ہندو مسلم کے پھیر میں خاندان بکھر گیا۔ جب یہ خواتین یہ باتیں کر رہی تھیں تو گاؤں کے کئی لوگ بھی وہاں موجود تھے۔ وہ اس خاندان کو کئی بار سمجھاتے نظر آئے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں۔
ان کے سکھانے کے بعد اس خاندان کا بیان فوراً بدل جاتا ہے۔ حالانکہ اس گھر میں رقیہ ایک ایسی خاتون ہیں جو سب کے سامنے کہتی ہیں کہ ان کے والد نے جلد بازی میں بہک کر فیصلہ کیا تھا۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 20 افراد والے اس خاندان کے 12 لوگوں نے ہندو مذہب اپنا لیا ہے۔ اگر اس خاندان سے بات کریں تو کُل چھ لوگ کھل کر کہتے ہیں کہ وہ ہندو بن گئے ہیں۔ پورے گاؤں میں اس وجہ سے ہلچل ہے۔
رات کے آٹھ بج گئے ہیں۔ راجکمار اسی گاؤں کے ہیں اور یہاں کے پردھان ہیں۔ ان کے گھر پر کئی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ گریجویشن میں پڑھنے والے کچھ نوجوان بھی ہیں جو آپس میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا والے تو پاگل ہو گئے ہیں، انھیں نہیں پتا کہ جب تک فائدہ ہے تب تک ہی یہ ہندو رہیں گے، پھر وہ مسلمان ہی بنیں گے۔
گاؤں میں پولیس والے بھی آئے ہیں۔ ان میں سے ایک اہلکار نے بات چیت کے دوران کہا کہ جو نہ کھائے سورا (سؤر) ہندو نہ ہووے پورا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو تو ہو گیا ہے، لیئکن اسے سؤر کھلا کر دکھا دو۔ گاؤں کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک دو دنوں میں آٹھ لوگ اور ہندو بن سکتے ہیں۔ حالانکہ یووا ہندو واہنی تنظیم اس سے انکار کر رہی ہے۔

منجو
Image captionدلشاد کی بیوی منسو بھی ہندو بنے کا دعویٰ کر رہی ہیں

جاٹ بہل گاؤں

یہ گاؤں جاٹ بہُل ہے۔ باقی جاتیاں بھی ہیں، لیکن تسلط جاٹوں کا ہی ہے۔ پردھان رجکمار کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں ساڑھے تین ہزار ووٹر ہیں اور اس میں مسلمان ساڑھے تین سو کے قریب ہیں۔ گاؤں کے مسلمان اس واقعے پر کچھ بولنا نہیں چاہتے۔
رات کے نو بج رہے تھے اور مسجد میں دس سے 12 لوگ بیٹھے ہیں۔ ان سے اس تبدیلیِ مذہب کے بارے میں پوچھا تو محمد عرفان نے کہا کہ 'بس ٹھیک ہے جی۔ آپ چائے لیں گے یا کچھ اور، ٹھنڈا منگواؤں؟'
پھر پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا اور کیا وجہ ہے؟ ان کا پھر وہی جواب تھا کہ 'سب ٹھیک ہے۔ ہم لوگ بالکل ٹھیک ہیں۔' انھوں نے آخر میں کہا کہ 'خدا کے لیے سب کچھ مت پوچھیے۔'
یہاں خاموشی ہے، لیکن گاؤں کے پردھان راجکمار کہتے ہیں کہ مسللمان سے کوئی ہندو بنتا ہے تو اچھا ہی لگتا ہے۔ راجکمار کا اچھا لگنا اس خاندان کے لیے کتنا اچھا ہوگا شاید یہ سوال پورے خاندان کو پریشان کر رہا ہے۔

مسلمان ہندو
Image captionمذہب کے نام پر خاندان بٹ سا گیا ہے

کیوں ہندو بننے کا دعویٰ کر رہا ہے یہ خاندان؟

اختر علی کا خاندان پہلے باغ پت شہر کے پاس خوبی پور نواڈا گاؤں میں رہتے تھے۔ اسی گاؤں میں ایک سال رہے۔ اسی سال جولائی میں ان کے بیٹے گلشن کی لاش مشکوک حالت میں لٹکی ہوئی ملی تھی۔
باغ پت کے ایس پی شیلیش پانڈے کہتے ہیں کہ اس خاندان نے پولیس کو بتائے بغیر خود ہی لاش کو اتارا اور نہلا کر دفنانے چل دیے۔
شیلیش پانڈے کہتے ہیں کہ 'گاؤں سے ہی پولیس کو فون آیا کہ گلشن نام کے شخص کی لاش ملی ہے اور گھر والے دفنانے جا رہے ہیں۔ پولیس کی گاڑی وہاں پہنچی تو قبرستان کے راستے سے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے لایا گیا۔‘
'یہ اس معاملے میں خود ہی مشکوک ہیں۔ انھوں نے پولیس کو بنا بلائے لاش کیوں اتاری؟ یہ دفنانے میں جلد بازی کیوں کر رہے تھے؟ انھوں نے جو ایف آئی آر لکھوائی ہے اس میں بھی یہی کہا ہے کہ ان کے بیٹے کی لاش لٹکی ہوئی ملی۔‘
شیلیش کا کہنا ہے کہ اس کی تفتیش چل رہی ہے اور جلد ہی سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
اختر علی جو اب دھرم سنگھ بن گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 22 سالہ گلشن کا قتل کیا گیا ہے اور پولیس اس کی تفتیش کرنے میں کوتاہی برت رہی ہے۔
یہی بات نوشاد کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں ان کی قوم کے لوگوں نے بھی ساتھ نہیں دیا، اس لیے ہندو مذہب اپنانے کا فیصلہ کیا۔
خوبی پور نواڈا کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گلشن نے خود کشی کی تھی کیونکہ اس کی بیوی کو گھر والے ایک سال سے آنے نہیں دے رہے تھے۔ مشکل وقت میں قوم کے ساتھ نہیں دینے کے الزام پر گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو قبرستان میں لاش کو دفنانے ہی نہیں دیا جاتا۔

ہندو
Image captionاس خاندان کے نوشاد نے کہا کہ وہ ہندو مذہب سے بہت متاثر ہیں اور رضاکارانہ طور پر ہندو بننا چاہتے ہیں

کیا ہندو بننے سے پولیس اس تفتیش میں اختر علی کی مرضی کے مطابق کام کرے گی؟ شیلیش پانڈے کہتے ہیں کہ 'پولیس مذہب کی بنیاد پر کام نہیں کرتی ہے۔ تفتیش ہم حقائق کی بنیاد پر کرتے ہیں۔اگر کوئی ایسا سوچ رہا ہے تو بالکل غلط ہے کہ مذہب بدلنے کی وجہ سے اسے مدد ملے گئی۔ اسی خاندان کے نوشاد ایس ڈی ایم کے پاس ایک حلف نامہ لے کر آئے تھے کہ وہ ہندو مذہب سے بہت متاثر ہے اور اس لیے رضاکارانہ طور پر وہ ہندو بننے جا رہا ہے۔ مذہب بدلنے کا کوئی سرکاری طریقہ نہیں ہے۔ آپ کو ہندو بن کر رہنا ہے یا مسلمان، اس سے انتظامیہ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔'

مذہب بدلنے کے بعد بطور ہندو ان کو کونسی جاتی ملے گی؟

یووا ہندو واہنی کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد جوگی جاتی کے تھے اس لیے انھیں جوگی جاتی ہی ملے گی۔ اختر علی کے خاندان کا بھی کہنا ہے کہ وہ پھیری والوں کا کام کرتے ہیں اس لیے یہ جاتی ان کے پیشے کے حساب سے ٹھیک ہے۔
حالانکہ شیلیش پانڈے کہتے ہیں کہ کوئی خود سے اپنی جاتی نہیں چن سکتا ہے اور اگر چن بھی لیتا ہے تو اسے اس کی بنیاد پر سرکاری سکیموں کا فائدہ نہیں ملے گا۔
سورج غروب ہو چکا ہے۔ بدرکھا گاؤں اندھیرے میں سما رہا ہے۔ اختر علی کے آنگن میں بھی رات دستک دے چکی ہے۔ پر یہ رات اب اختر علی کے آنگن میں نہیں بلکہ دھرم سنگھ کے آنگن میں ہے۔ رقیہ آٹا گوندھ رہی ہیں۔ کل تک نوشاد کے لیے روٹی بناتی تھیں آج وہ نریندر کے لیے روٹی بنائیں گی۔ رقیہ کہتی ہیں: 'کیا فرق پڑتا ہے جی۔ ہمیں تو وہی کرنا ہے جو روز کرتی ہوں۔ ہندو رہیں یا مسلمان۔'

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment