ACTION RESEARCH FORUM IS
SURPRISED THE PATRONAGE OF HEINOUS CRIMES OF ROYAL FAMILY FEARLESSLY,
PERHAPS $S ARE ON THEIR SIDE. THEY HAVE PRECEDENCIES; RECALL FALL OF CRANE ON
HAJJ PILGRIMAGE MANEUVERING TOWARDS BEN LADEN FAMILY FOR FINANCIAL DEALS.
THEIR PAST WAS CLOUDY UNDER THE BRITISH PROTECTORATE, WHILE INDIAN NAWABS; DACCAN, BHAWALPUR, RAMPUR, BIHAR, BENGAL AND OTHERS WHO WERE PROVIDING BUDGET FOR HAJJ EXPENSES AS GESTURE TO INSOLVENT SAUDIS. MASS MURDERS OF PILGRIM FROM JEDDAH TO HERMAIN SHARIEFAN IN THE NAME OF OMNIPOTENCE WAS ROUTINE
THESE DAYS SAUDI MUTAVALLE
RUDENESS AND INSULTING PERSONAL INTEGRITY OF HAJJI AND HAJJI IS SYMBOL OF PRIDE
TOWARDS PILGRIMS.
THE LAST BUT NOT THE LEAST;
RECALL ASIF ZARDARI ENTOURAGE OF BENAZIR PM OF PAKISTAN IN BRIEF ASSEMBLY,
SITTINGS CROSS LEGGED POINTING HIS SHOES TOES TO HIGHNESS AS SYMBOL OF
DISREGARDS.
THEIR ANCESTRY TELLS THE TRUTH, NOW NATURAL RECKONING BY MEDIA TIGHTNESS
WILL CHASE THEM TILL THEY WALK IN SAME TONE.
NONETHELESS, THEY ARE STILL IN CAMEL AGE CAMELEER. THIS TIME THEY
ARE AMIDST DEVIL AND DEEPSEA OF MEDIA.
Present-day is revealing their past too, Muslim Ummah is ashamed.
****
source: https://www.bbc.com/urdu/world-45932922
جمال خاشقجی کا قتل ایک سنگین غلطی تھی: عادل الجبیر
سعودی عرب نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا تھا تاہم سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ایسا ایک ’بلااجازت کی جانے والی کارروائی‘ میں کیا گیا۔
ادھر سعودی بادشاہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے بیٹے کو ٹیلیفون کر کے ان سے تعزیت بھی کی ہے۔
ادھر ترک چینل این ٹی وی نے پیر کو بتایا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے سلسلے میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے کے پانچ سعودی ملازمین بطور گواہان اپنا بیان دے رہے ہیں۔
اس سے قبل قونصلر کے ڈرائیور سمیت 20 ملازمین ترک پولیس کو اپنے بیانات ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
سی این این ترک کے مطابق کل 45 ملازمین سے بیانات لیے جائیں گے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ اقدام ایک ’بڑی غلطی‘ تھی تاہم ان کا اصرار تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صحافی کی ہلاکت کا حکم نہیں دیا اور وہ اس ساری کارروائی سے لاعلم تھے۔
جمال خاشقجی کے قتل پر شدید عالمی ردعمل سامنے آیا ہے اور سعودی عرب پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ حقائق سامنے لائے جبکہ ترکی نے کہا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں دنیا کے سامنے اس سلسلے میں ’کھلا سچ‘ پیش کر دے گا۔
جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ ترک حکام نے ان کی گمشدگی کے چند دن بعد ہی کہہ دیا تھا کہ انھیں قتل کر دیا گیا ہے تاہم سعودی حکام اس سے انکار کرتے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں!
گذشتہ ہفتے سعودی حکام نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کی تصدیق تو کی تھی تاہم کہا تھا کہ وہ ایک لڑائی کے دوران دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
تاہم اب اس واقعے کو سعودی حکومت نے ایک ’روگ آپریشن‘ یعنی بلااجازت باغیانہ کارروائی قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے صحافی جمال خاشقجی کی موت کی تصدیق کے بعد ترکی نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ جمال خاشقجی کی موت کی تمام تفصیلات جاری کرے گا اور کسی کو اس معاملے میں پردہ پوشی کی اجازت نہیں دے گا۔
’باغیانہ کارروائی‘
سعودی وزیرِ خارجہ کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’ہم تمام حقائق جاننے اور اس قتل کے تمام ذمہ داران کو سزا دینے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
عادل الجبیر نے کہا کہ ’جن لوگوں نے یہ کیا ہے انھوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی غلطی ہوئی اور اس کے بعد اسے چھپانے کے سلسلے میں یہ غلطی کئی گنا بڑھ گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ جمال جاشقجی کی لاش کہاں ہے اور ان کا اصرار تھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان اس آپریشن سے بالکل بےخبر تھے۔
’ہماری انٹیلیجنس سروس کے اعلیٰ افسران کو بھی اس آپریشن کا معلوم نہیں تھا۔ یہ ایک بلااجازت کی جانے والی کارروائی تھی۔‘
سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی کے مطابق واقعے کی تحقیقات کے بعد نائب انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور ولی عہد محمد بن سلمان کے سینیئر مشیر سعود القحطانی کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے اور 18 سعودی شہریوں کو بھی حراست میں لے کر شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی دباؤ اور ردعمل
گذشتہ چند روز سے سعودی عرب پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ صحافی جمال خاشقجی کی موت کے واقعے کے بارے میں مزید سوالات کا جواب دے۔
سنیچر کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سعودی وضاحت ’دھوکے‘ اور ’جھوٹ‘ پر مبنی ہے۔ اس سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ وہ سعودی وضاحت کو قابلِ بھروسہ سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں خوشی ہو گی اگر سعودی ولی عہد قتل کے ذمہ داران میں شامل نہیں پائے جاتے۔ امریکی صدر نے اس معاملے میں سعودی عرب پر پابندیاں عائد کرنے کے امکان پر بھی بات کی تاہم یہ بھی کہا کہ سعودی عرب سے اسلحے کے سودے کو روکنا ’ہمیں(امریکہ کو) ان سے کہیں زیادہ نقصان دے گا۔‘
جمال خاشقجی واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرتے تھے اور اخبار نے کہا ہے کہ سعودی حکومت شرمناک طریقے سے اور بار بار ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بول رہی ہے۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بھی ایک مشترکہ بیان میں جمال خاشقجی کی ہلاکت پر تفصیلی وضاحت طلب کی ہے اور کہا ہے کہ ’اس ہلاکت کی کوئی بھی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی اور ہم سخت ترین الفاظ میں اس کی مذمت کرتے ہیں۔‘
ادھر سعودی عرب کے علاقائی ساتھی اس کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔
کویت کی جانب سے اس معاملے سے نمٹنے کے سلسلے میں شاہ سلمان کی پذیرائی کی گئی ہے جبکہ مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی اسی قسم کے بیانات سامنے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں!
تحقیقات کہاں تک پہنچیں
ترکی نے اگرچہ ابھی تک سرکاری طور پر سعودی عرب کو جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار نہیں دیا ہے تاہم اس واقعے کی تفتیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے آڈیو اور ویڈیو ثبوت موجود ہیں کہ جمال خاشقجی کو ایک سعودی ’ہٹ سکواڈ‘ نے قونصل خانے میں قتل کیا۔
ترکی میں جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کرنے والی پولیس کا خیال ہے کہ ممکن ہے ان کی لاش کو قریبی جنگل یا کھیتوں میں ٹھکانے لگایا گیا ہو اور اسی سلسلے میں پولیس نے قونصل خانے کے قریبی علاقے کی تلاشی بھی لی ہے۔
اس کے علاوہ قونصل خانے اور سعودی قونصل جنرل کی رہائش گاہ کی تلاشی بھی لی گئی ہے۔
اتوار کو ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ وہ انصاف کے متلاشی ہیں اور حقائق آنے والے دنوں میں ’کھلی سچائیوں‘ کے ساتھ عیاں ہو جائیں گے۔ ترک صدر اس سلسلے میں منگل کو پارلیمان سے خطاب بھی کرنے والے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اتوار کو کہا تھا کہ ایک سعودی اہلکار نے اس بتایا ہے کہ جمال خاشقجی اس وقت ہلاک ہوئے جب انھیں سعودی عرب واپس لے جانے کی کوشش کے دوران ان کا گلا دبایا گیا۔ اہلکار کے مطابق ان کی لاش ایک قالین میں لپیٹ کر ٹھکانے لگانے کے لیے ایک ’مقامی سہولت کار‘ کے حوالے کی گئی تھی۔
روئٹرز کے مطابق اس کے بعد ایک سعودی اہلکار جمال خاشقجی کا لباس پہن کر قونصلیٹ سے باہر چلا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق اس اہلکار کا کہنا تھا کہ سعودی بیانات میں تضاد کی وجہ ’ اس وقت اندرونی طور پر گردش کرنے والی جھوٹی معلومات تھیں۔‘
No comments:
Post a Comment