Wednesday, 24 October 2018

HISTORY: TIPU SULTAN BLOODLINE NOOR INAYAT KHAN IMAGE PRINT ON BRITISH CURRENCY 50 POUND


source: https://www.bbc.com/urdu/world-45954142

ٹیپو سلطان کے خاندان کی رکن نور عنایت خان کی تصویر نئے برطانوی کرنسی نوٹ پر۔۔۔

ٹیپو سلطانتصویر کے کاپی رائٹOTHER
Image captionانٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق نور عنایت خان کا شجرہ چوتھی نسل میں ٹیپو سلطان سے جا ملتا ہے۔
انگلینڈ میں پہلی بار کرنسی نوٹ پر کسی لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والی شخصیت کی تصویر شائع ہو سکتی ہے۔
بینک آف انگلینڈ نے 50 پاؤنڈ کے کرنسی نوٹ پر لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے شخصیات کے حوالے سے عوام سے تجاویز مانگی ہیں۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق دوسری جنگ عظیم کی ہیروئن نور عنایت خان کو برطانوی کرنسی کے سب سے بڑے نوٹ پر پرنٹ کرنے کے حق میں تاریخ دان اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔
بینک آف انگلینڈ نے 2020 میں 50 پاؤنڈ کا کرنسی نوٹ کاغذ کی بجائے پلاسٹک کے مواد سے پرنٹ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
نور عنایت خان کے لیے مہم کارکن زہرہ زیدی نے شروع کی تھی جنھیں تاریخ دانوں کے علاوہ بی بی سی کے پریزینٹر ڈن سنو کی حمایت بھی حاصل تھی۔
زہرہ زیدی کا کہنا ہے کہ’ نور عنایت خان ایک متاثر کن اور پیچیدہ خاتون تھیں اور وہ ایک برطانوی خاتون، سپاہی، مصنفہ، مسلمان اور تقسیم ہند کی حمایتی تھیں اور اس کے صوفی اور فسطائیت کے خلاف لڑنے والی خاتون اور سب کے لیے ایک ہیروئن تھیں۔‘
امن پسند مسلمان صوفی تھیں جنھوں نے پیرس میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے کیریئر کا آغاز بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔
فرانس پر نازی جرمنی کا قبضہ ہونے کے بعد وہ فرار ہو برطانیہ آ گئیں اور یہاں ایئر فورس میں امدادی کاموں کے حوالے سے تربیت ہوئی اور بعد میں خفیہ ایجنسی میں خصوصی کارروائیوں کے آپریشز کے لیے ایجنٹ کے طور پر بھرتی ہو گئیں۔
وہ پہلی خاتون ریڈیو آپریٹر تھیں جنھیں 29 برس کی عمر میں 1943 میں نازی جرمنی کے زیر قبضہ فرانس میں بھیجا گیا۔
نور عنایت خان کی والدہ امریکی تھیں اور ان کے والد کا تعلق انڈیا کے شاہی خاندان سے تھا۔
نور عنایت خان نے پیرس میں نازی جرمنی کی مزاحمت کرنے والوں تحریک کے لیے کمیمونیکشن نیٹ ورک قائم کیا جس کی منظوری برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے دی تھی۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

نور عنایت خان ایک فرانسیسی خاتون کے دھوکے کے نتیجے میں پکڑی گئیں اور نازی جرمنی کی خفیہ پولیس گسٹاپو کے ہاتھوں 10 ماہ تک تشدد اور بھوک کا سامنا کیا اور بعد میں انھیں جرمنی کے ایک حراستی مرکز میں گولی مار دی گئی۔
انھیں بعد از وفات 1949 میں بہادری پر جارج کراس اعزاز سے نوازا گیا۔
برطانوی ممبر پارلیمنٹ نصرت غنی نے نور عنایت کی تصویر 50 پاؤنڈ کے کرنسی نوٹ پر پرنٹ کرنے کے لیے ٹویٹر پر مہم شروع کی ہے جس کا ٹویٹر ہینڈل #NoorInayatKhan on £50 note ہے۔
برطانوی سیاست دان بیرنس سعیدہ وارثی نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ’ اکثر بات کی جاتی ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بُھلا دیے جانے ہیروز، جس میں دنیا بھر سے لوگوں نے برطانیہ فوج کے لیے خدمات سرانجام دی تھی، اس میں میرے دادا، نانا بھی شامل تھے۔ برطانیہ جو نسلی اختلافات پر بظاہر منقسم دکھائی دیتا ہے اس معاملے میں متحد ہے جو کہ برطانیہ کی عظمت کی علامت ہے۔ ایک نوجوان مسلمان خاتون جس نے اپنے ملک کے لیے جان دے دی اور اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ ایک غیر سفید فام خاتون کو 50 پاؤنڈ کے کرنسی نوٹ پر دکھایا جائے جس نے ہماری قوم کے لیے بے مثال قربانی دی۔‘
سعیدہ وارثی کے مطابق ’ انہیں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے مسلمان ہیں یا برطانوی۔ وہ کہتی ہوں کہ اس سے کوئی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ پہلے کیا ہیں۔ وہ کسی ایک کے لیے ایک بہترین مثال ہیں جو کہ بہت زیادہ محب وطن ہیں اور مسلمان کے طور پر بھی پہچان رکھتا ہے۔
نورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

نور عنایت خان کون تھیں؟

بی بی سی ہسٹری کے مطابق نور عنایت خان کی پیدائش یکم جنوری 1914 کو ماسکو میں ہوئی تھی۔ نور عنایت کے والد کا تعلق میسور ریاست کے حکمران ٹیپو سلطان کے خاندان سے تھا۔ نور عنایت کے والد عنایت خان موسیقار اور صوفی ٹیچر تھے۔
نور کا خاندان پہلے لندن اور بعد میں پیرس منتقل ہوا اور فرانس پر نازی جرمنی کے قبضے کے بعد 1940 میں دوبارہ انگلینڈ منتقل ہو گیا۔
انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق نور عنایت خان کا شجرہ چوتھی نسل میں ٹیپو سلطان سے جا ملتا ہے۔
خیال رہے کہ انڈیا اور پاکستان میں میسور کے سابق حکمران ٹیپو سلطان کو ایک بہادر اور محب وطن حکمراں کے طور پرہی نہیں مذہبی رواداری کے علمبردار کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے اور ہزاروں لوگ ٹیپو کے مقبرے اور ان کے محلات دیکھنے کے لیے سری رنگا پٹنم آتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن میں میسور کا ٹیپو اب بھی ایک محب وطن انگریزوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان دینے والا ہیرو اور حکمران ہے۔

No comments:

Post a Comment