Tuesday, 30 October 2018

GERMAN NURSE: ACCEPTED KILLING 100 PATIENTS IN HIS DUTY HOURS

source:https://www.bbc.com/urdu/world-46016554

نیلز ہوگل: سابق جرمن نرس نے 100 مریضوں کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا


Former nurse Niels Hoegel, accused of killing more than 100 patients in his care, arrives with his lawyer Ulrike Baumann, in the courtroom on 30 October 2018تصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY
Image captionجب جج نے ان سے پوچھا کہ آپ کے خلاف لگائے گئے الزامات درست ہیں تو ان کا کہنا تھا 'ہاں تقریباً!'

جرمنی میں ایک سابق نرس نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اپنے زیرِ نگرانی ایک سو مریضوں کو قتل کیا تھا۔
41 سالہ نیلز ہوگل نے یہ اعتراف اپنے خلاف شروع ہونے والے نئے مقدمے کے آغاز پر کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ دو مختلف ہسپتالوں میں اپنی زیرِ نگرانی مریضوں کو مہلک مقدار میں ادویات دیتے تھے۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد مریضوں پر پہلے حملہ کرنا اور پھر ان کی سانسیں بحال کر کے اپنے ساتھیوں کو متاثر کرنا تھا۔
نیلز ہوگال پہلے ہی اپنی زیرِ نگرانی چھ اموات کی وجہ سے عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

تازہ ترین تحقیقات کے مطابق حکام نے الزام لگایا ہے کہ نیلز نے اولڈن برگ میں 36 اور ڈلم ہورسٹ میں 64 مریضوں کو 1999 سے 2005 کے دوران قتل کیا۔
جب جج نے ان سے پوچھا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات درست ہیں تو ان کا کہنا تھا ’ہاں تقریباً!‘
یہ موجودہ مقدمہ تقریباً مئی کے مہینے تک جاری رہے گا۔ اس میں 130 لاشوں کے بقایاجات کا سائنسی معائنہ پیش کیا جانا ہے۔
برلن میں بی بی سی کے نامہ نگار جینی ہل کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ہیلتھ حکام کے لیے یہ کیس انتہائی حساس ہے کیونکہ ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے نیلز ہوگل کی کارروائیوں کو نظر انداز کیے رکھا۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے نیلز ہوگل نے اس سے بھی زیادہ لوگوں کو قتل کیا ہو تاہم ان کی لاشوں کو آخری رسومات کے دوران جلا دیا گیا تھا۔
مرنے والوں کے لواحقین کے نمائندے کرسچن ماربغ کا کہنا ہے کہ یہ ایک سکینڈل ہے کہ ایک قاتل کو اتنے عرصے بغیر کسی سرکاری نگرانی کے چھوڑ دیا گیا اور اس نے اتنے لوگوں کو مار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کئی برسوں سے اس مقدمے کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہوگل کو مزید 100 قتل کی سزا ملے گی۔‘
توقع کی جا رہی تھی کہ مرنے والوں کے لواحقین کمرہِ عدالت میں بڑی تعداد میں موجود ہوں گے تاہم میڈیا کے اراکین نے نوٹس کیا کہ وہاں کئی سیٹیں خالی پڑی تھیں۔
2005 میں نیلز ہوگل کو ڈلم ہورسٹ میں ایک مریض کو غیر تجویز کردہ دوا دیتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ انھیں 2008 میں اقدامِ قتل کے جرم میں سات سال قید کی سزا دی گئی تھی۔
2014-15 میں انھیں مزید دو قتل اور دو اقدامِ قتل کے مقدمات میں سزا دی گئی۔
نیلز ہوگل کا کہنا تھا کہ وہ ’دل کی گہرائی سے معافی‘ مانگتے ہیں اور امید ظاہر کی ہے کہ لواحقین کو چین مل جائے گا۔ انھوں نے کہا تھا کہ انھوں نے یہ جرائم کرنے کے فیصلے ’سوچ سمجھ کر نہیں بلکہ موقعے پر‘ ہی کیے۔
تاہم مقدمے کے دوران انھوں نے ایک ماہرِ نقسیات کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے 30 لوگوں کو قتل کیا تھا۔
حکام نے پھر تفتیش کا دائرہ بڑھا کر 130 لاشوں کو نکالا اور ان کے میڈیکل ریکارڈز کا جائزہ لیا۔ جرمن میڈیا کے مطابق جب نیلز ہوگل شفٹ پر ہوتے تھے تو ہسپتالوں میں اموات کا ریٹ دو گنا ہو جاتا تھا۔

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment