SOURE: http://www.bbc.com/urdu/entertainment-40390091
’مرتا کیا نہ کرتا‘، مہدی حسن کے بیٹے کی انڈیا سے اپیل
شہنشاہِ غزل مہدی حسن اپنی قبر پر تاج محل طرز کا مقبرہ چاہتے تھے اور حکومت نے ان کی خواہش پوری کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ تاہم ان کے بیٹے عارف حسن کے مطابق ان کی موت کو پانچ برس کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی ان کی قبر پر نہ تو مزار بن سکا اور نہ ہی حکومتی وعدوں کی باوجود اس سے منسلک ایک لائبریری۔
حکومتی رویے سے مایوس عارف حسن نے انڈین حکومت سے اپنے باپ کے مزار کی تعمیر کےلیے مدد طلب کر لی ہے۔
انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق مہدی حسن کے بیٹے عارف حسن نے میڈیا کے ذریعے انڈین حکومت سے کہا ہے کہ وہ مہدی حسن کا مزار تعمیر کرانے میں ان کی مدد کرے۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے عارف مہدی نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مہینے انھوں نے مہدی حسن کی پانچویں برسی منائی جس کے بعد ایک انڈین خبر رساں ایجنسی نے ان سے رابطہ کیا۔ دورانِ گفتگو انڈین حکومت سے مدد کی بات بھی ہوئی۔
’مرتا کیا نہ کرتا۔ پانچ برس بیت گئے، حکومتی دعووں کے باوجود کچھ نہیں بنا۔ آج میرے والد کی قبر پر کتے پھر رہے ہیں، وہاں بچے کرکٹ کھیلتے ہیں، پاس کے گندے نالے کا پانی ان کی قبر کے احاطے میں داخل ہو جاتا ہے۔‘
تاہم عارف مہدی کا کہنا تھا کہ ان کو تاحال انڈیا کی حکومت یا وہاں مقیم مہدی حسن کے مداحوں کی طرف سے باضابطہ طور پر کوئی پیشکش نہیں کی گئی۔ تاہم اگر ان کو پیشکش کی جاتی ہے تو وہ حالات کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔
’سب سے پہلے تو میں اپنی پاکستانی حکومت سے ایک بار پھر پوچھوں گا کہ وہ کیوں کچھ نہیں کر رہی۔‘ ان کا کہنا تھا مہدی حسن پاکستان کا ایک اثاثہ تھے اور اگر ان کے اپنے ملک کی حکومت نے پانچ سال سے ان کے مزار کی طرف دھیان نہیں دیا، ’تو ابا کے چاہنے والے تو ساری دنیا میں ہیں۔ انڈیا میں بھی لوگ ان کو اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا پاکستان میں کرتے ہیں۔‘
عارف مہدی کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے مطابق مہدی حسن نے اپنی زندگی کے آخری ایام ان کے گھر پر ان کے ساتھ گزارے جہاں وہ ان کی علالت کے دوران ان کا علاج بھی کرواتے رہے۔ وہی مہدی حسن کے پروگرامز کا انتظام بھی سنبھالتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت بھی انڈیا سے لتا منگیشکر سمیت مہدی حسن کے بیشمار مداحوں نے ان کی مالی امداد کرنے کی پیشکش کی تھی۔ عارف مہدی کا کہنا تھا کہ وہ حکومتِ سندھ اور حکومتِ پاکستان کہ مختلف عہدیداروں کے پاس ان کے وعدے یاد کروانے جا چکے ہیں۔
’یہاں تک کہ جب وزیرِ اعظم نواز شریف کچھ عرصہ قبل میرے گھر آئے تو میں نے ان سے بھی ذکر کیا تھا کہ ابا کا مزار ابھی تک نہیں تعمیر کیا جا سکا مگر اس کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا۔‘
تاہم عارف مہدی کے بھائی سجاد مہدی ان کی انڈیا سے مدد کی اپیل سے اتفاق نہیں کرتے۔ ’ہم تو اپنے والد کے نام کے ساتھ انڈیا کا نام بھی جڑنا پسند نہیں کریں گے۔ پاکستان نے ہمیں سب کچھ دیا ہے، ہمیں عزت دی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد ایک غیور آدمی تھے اور انھوں نے اپنی زندگی میں انڈیا کی طرف سے کی جانے والی پیشکش سے معزرت کر لی تھی۔ سنہ 1978 کے مہدی حسن کے دورہ انڈیا کا احوال سناتے ہوئے سجاد مہدی کا کہنا تھا کہ اس دورے کے دوران انڈیا کی حکومت نے انھیں پیشکش کی تھی کہ ان کو انڈیا میں گھر بھی دیا جائے گا، ان کے کنسرٹس کا معاوضہ بھی زیادہ دیا جائے گا۔
’مگر ابا نے انکار کرتے ہوئے وہ بات مذاق میں اڑا دی۔ وہ پاکستان کے سپر اسٹار تھے اور انھیں سب کچھ پاکستان سے ملا۔‘
سجاد مہدی لاہور میں رہائش پذیر ہیں اور سٹی ٹریفک پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے والد کی قبر کی حالت خراب ہو گئی ہے اور حکومت کچھ نہیں بھی کر پا رہی تو وہ خود اس کی مرمت وغیرہ کرانے کے لیے تیار ہیں۔
’میں نے اپنے محکمے سے اپنے پراویڈنٹ فنڈ کے لیے درخواست دے رکھی ہے جو امید ہے مجھے جلد مل جائے گی اور اس سے میں ابا کی قبر وغیرہ کی مرمت کروا لوں گا۔‘
تاہم انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ان کے والد کی خواہش ایک شاندار مزار کی تھی۔ ’ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے اور وہ تو ابا کے شایانِ شان بھی تھا۔ انھیں اللہ نے لازوال صلاحیتوں سے نوازہ ہوا تھا اور وہ غزل کے بے تاج بادشاہ تھے اور آنے والی کئی نسلوں تک رہیں گے۔‘
تاہم سجاد مہدی کا کہنا تھا کہ وہ ایسے مزار کی تعمیر کے لیے انڈیا سے مدد لینا ’بالکل پسند نہیں کریں گے۔‘
مہدی حسن نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔ سجاد مہدی ان کی پہلی بیوی کے بیٹے جن کے دو بھائی اور ہیں جبکہ عارف مہدی ان کی دوسری بیوی کے بیٹے ہیں جو کل چھ بھائی ہیں۔ مہدی حسن کے زیادہ تر بیٹے ملک سے باہر امریکہ میں مقیم ہیں۔
مہدی حسن تقسیمِ ہند سے پہلے 1927 میں راجھستان میں پیدا ہوئے تھے جہاں سے 1947 میں تقسیم کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کر لی تھی۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد عظیم سے حاصل کی تھی اور انھیں غزل کے شہنشاہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مہدی حسن فالج کی مرض میں مبتلا ایک طویل علالت کے بعد 2012 میں انتقال کر گئے تھے۔
No comments:
Post a Comment