Thursday, 29 June 2017

FAITH IN INDIA: MINORITY BLOODSHED BY HINDUATA 'NOT IN MY NAME" WOMEN PROETST


Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-40438530

’ہمارے نام پر خون نہ بہایا جائے‘


دہلیتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionلیکن کچھ لوگوں کایہ الزام تھا کہ جو ہو رہا ہے وہ حکومت اور آر ایس ایس کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے

انڈیا کے کئی شہروں میں بدھ کی شام بڑی تعداد میں عام لوگ سڑکوں پر اترے، یہ پیغام دینے کے لیے کہ گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنانے والوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔
اس تحریک کو ’ناٹ ان مائی نیم‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی ہمارے نام پر خون نہ بہایا جائے، یہ تشدد ہمیں منظور نہیں۔
تحریک فیس بک پر فلم ساز صبا دھون کی ایک پوسٹ سے شروع ہوئی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ اب اس تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔
بی بی سی اردو کے فیس بک لائیو میں حصہ لیتے ہوئے مشہور سماجی کارکن سوامی اگنی ویش نے کہا کہ ’جس طرح کے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں، وہ بہت شرمناک اور دل کو ہلانے والے ہیں۔۔۔ حکومت کو چاہیے کہ جو لوگ تشدد کر رہے ہیں ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔‘
انڈیا میں حب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے، گائے کی حفاظت کےنام پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ہریانہ، مغربی بنگال، راجستھان، اتر پردیش، مدھیہ پردیش۔۔۔ ملک کی کئی ریاستوں میں ہجوم کے تشدد میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔
تازہ ترین واقعے کی اطلاع جھاڑکھنڈ سے ہے جہاں منگل کے دن گو کشی کے شبہے میں ایک شخص کو بری طرح پیٹا گیا اور اس کےگھر کو آگ لگا دی گئی۔
گذشتہ چند دنوں میں مغربی بنگال میں تین مسلمان نوجوانوں کو مبینہ طور پر گائے کی چوری کےالزام میں ہلاک کیا گا ہے۔ عید سے ذرا پہلے سری نگر میں ایک پولیس افسر کو شہر کی جامع مسجد کے باہر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا۔
لیکن فی الحال توجہ اس نوجوان کے کیس پر ہے جسے گذشتہ ہفتے دلی کے قریب ایک ٹرین میں قتل کر دیا گیا تھا۔ جنید کی عمر صرف 16 سال تھی اور وہ عید کی خریدای کرکے گھر لوٹ رہا تھا۔ حملہ آوروں نے مبینہ طور کہا کہ یہ لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور جنید اور اس کے بھائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ٹرین کے ڈبے میں موجود لوگ خاموش تماشائی بنے رہے۔
اس کیس کے بعد فلم ساز صبا دیوان نے فیس بک پر لکھا تھا کہ اب خاموشی توڑنے کاوقت آگیا ہے اور ان کی اس پوسٹ نے تیزی سے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔

دہلیتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionفلم ساز صبا دیوان نے فیس بک پر لکھا تھا کہ اب خاموشی توڑنے کاوقت آگیا ہے اور ان کی اس پوسٹ نے تیزی سے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی

مظاہرے میں شامل لوگوں کا خیال تھا کہ ماحول کو سدھارنے کے لیے حکومت کو یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ جو کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
لیکن کچھ لوگوں کایہ الزام تھا کہ جو ہو رہا ہے وہ حکومت اور آر ایس ایس کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے اور حکومت عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔
نندنی کی عمر تقریباً 20 سال ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں گائے کا گوشت کھاتی ہوں، اور مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی مسئلہ ہے۔ اور اس کی وجہ سے کسی بھی بے گناہ کو قتل کیا جائے، تو اس میں ہمارا دیش ہی مرتا ہے۔۔۔ اس لیے میں اس مظاہرے میں شامل ہوئی ہوں۔‘
مظاہرین میں شامل شریا کا کہنا تھا کہ’ہم چاہتے ہیں کہ امن کا پیغام جائے۔۔۔ اور اقلیتوں سے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں، اور اس خونریزی کے خلاف ہم ایک ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔‘

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment