Source: http://www.bbc.com/urdu/world-40355829
تیونس کی خواتین دوبارہ کنوارپن کے لیے سرجری کیوں کروا رہی ہیں؟
تیونس میں نوجوان خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شادی کے وقت کنواری ہوں۔ اس روایت کی وجہ سے وہاں پردۂ بکارت کی سرجری (ہائمنو پلاسٹی) کا کاروبار زور پکڑ گیا ہے۔
یاسمین (اصل نام نہیں) خاصی نروس دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ اپنے ناخن چبا رہی ہیں اور بار بار اپنا موبائل فون چیک کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: 'میں اسے دھوکہ سمجھتی ہوں اس لیے بہت پریشان ہوں۔'
ہم تیونس شہر کے ایک نجی کلینک میں ہیں۔ ہمارے اردگرد گلابی رنگ کی انتظارگاہ میں دوسری کئی عورتوں بھی اپنی اپنی باری کی منتظر ہیں۔
یاسمین کہتی ہیں کہ وہ ہائمنو پلاسٹی کروا رہی ہیں۔ اس کے تحت ایک مختصر سرجری کے ذریعے کسی بھی خاتون کا کنوارپن بحال کر دیا جاتا ہے۔
28 سالہ یاسمین کی شادی دو ماہ بعد طے ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ ان کے ہونے والے شوہر کو پتہ چل جائے گا کہ وہ کنواری نہیں ہیں۔
اطلاعات کے مطابق تیونس میں کئی نوجوان خواتین کو شادی کے فوراً بعد اس لیے طلاق ہو گئی کہ ان کے خاوندوں کو شک تھا کہ وہ کنواری نہیں تھیں۔
یاسمین ایک لبرل خاندان میں پیدا ہوئی تھیں اور انھوں نے کئی برس ملک سے باہر گزارے۔ وہ کہتی ہیں: 'میرے ایک مرد کے ساتھ تعلقات تھے۔ اس لیے اب مجھے ڈر ہے۔ اگر میں اپنے منگیتر کو بتا دوں تو مجھے یقین ہے کہ وہ فوراً شادی منسوخ کر دے گا۔'
یاسمین اس سرجری پر چار سو ڈالر خرچ کریں گی، اور اس پر آدھا گھنٹہ لگے گا۔ وہ کئی ماہ سے اس کے لیے رقم جمع کر رہی تھیں اور انھوں نے اسے اپنے خاندان والوں اور منگیتر سے خفیہ رکھا ہے۔
وہ گائنوکالوجسٹ جو یاسمین کا آپریشن کریں گے، ہم انھیں راشد کہیں گے۔ وہ اوسطاً ہر ہفتے میں ہائمنوپلاسٹی کے دو آپریشن کرتے ہیں۔
راشد کہتے ہیں کہ ان کے پاس آنے والی 99 فیصد خواتین کو خدشہ ہوتا ہے کہ اگر انھوں نے سرجری نہ کرائی تو وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں کی بدنامی کا باعث بن جائیں گی۔
تاہم پردۂ بکارت پھٹنے کی دوسری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں، جس کے باعث بہت سی خواتین کو شادی کے بعد خاوند کی طرف سے شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے الزام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
راشد کہتے ہیں: 'گائنوکالوجسٹ اس پردے کی مرمت کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ تاہم یہاں بعض ڈاکٹر ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر کنوارپن کو کوئی مقدس چیز نہیں سمجھتا۔'
انھوں نے کہا: 'مجھے اس سے کوفت ہوتی ہے۔ یہ پدرسری معاشرے کا مظہر ہے جسے بعض مذہبی اصولوں کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ میرا پکا خیال ہے کہ اس کی وجہ مردوں کی بالادستی ہے اور میں اس کے خلاف جنگ کر رہا ہوں۔'
’منافقت‘
تیونس کو اگرچہ شمالی افریقہ میں خواتین کے حقوق کے سلسلے میں رہنما تصور کیا جاتا ہے تاہم مذہب اور روایت مل کر تاکید کرتے ہیں کہ عورتیں شادی سے پہلے کنواری رہیں۔ اس سلسلے میں طلاق کا قانون بھی مردوں کی حمایت کرتا ہے۔
سوشیالوجسٹ سمیعہ ایلومی کہتی ہیں: 'اس تیونسی معاشرے میں، جو حالانکہ خاصا کھلا معاشرہ ہے، ہم منافق ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک قسم کی سماجی قدامت پرستی کا دور دورہ ہے جسے حق بجانب قرار دینا مشکل ہے کیوں کہ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ماڈرن معاشرے میں رہتے ہیں۔ لیکن جب عورت کی جنسیت کی بات آتی ہے تو ہم ماڈرن نہیں رہتے۔'
میں ایک یونیورسٹی میں 29 سالہ طالب علم ہشام سے ملی جن کی اگلے برس شادی ہو رہی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں اس بات کی پرواہ ہے کہ کیا ان کی منگیتر کنواری ہیں؟
انھوں نے جواب دیا: 'میرے لیے یہ بات بہت اہم ہے۔ اگر مجھے شادی کے بعد پتہ چلا کہ وہ کنواری نہیں ہے تو میں اس پر کبھی اعتبار نہیں کروں گا۔ میں اسے دھوکہ سمجھوں گا۔ اور میں ہائمنوپلاسٹی پر یقین نہیں رکھتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ آپریشن موثر ہے۔'
البتہ ان کے قریب بیٹھے ایک اور طالب علم رضا نے کہا کہ تیونسی روایات خواتین پر بہت بھاری ہیں۔ 'میرے لیے یہ خالص منافقت ہے۔ لڑکے شادی سے پہلے جتنی مرضی چاہیں سیکس کریں تو پھر لڑکیوں ہی پر کیوں الزام دھرا جاتا ہے؟'
No comments:
Post a Comment