DEDICATED BY ACTION RESEARCH: NO
SCARECITY OF MADNESS, SEARCH FIND BILLIONS PANDIT INDIA. COW IS REPLACEMENT OF WIFE, SO MARRIAGEABLE
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-40119592
ہر مرض کاعلاج ہے گائے!
اگر آپ کو کبھی آکسیجن کی کمی محسوس ہو، سانس اکھڑ رہی ہو یا پھر کینسر کا خطرہ ہو تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کیا کرنا ہے: سیدھے کسی گوشالا کا رخ کیجیے گا!
گوشالا یا گائیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں انڈیا میں آج کل ہرطرف ہیں، اس لیے مناسب سمجھیں اور ہسپتال ڈھونڈنے میں زیادہ وقت برباد نہ ہی کریں تو اچھا ہوگا۔ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ جان ہے تو جہان ہے۔
گائے کے پاس ہر مرض کا علاج ہے، یا کم سے کم راجستھان ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج مہیش چند شرما تو یہ ہی مانتے ہیں۔ وہ کل ہی ریٹائر ہوئے ہیں اور اپنے لمبے قانونی کریئر کے آخری فیصلے میں انھوں نے گائے کو قومی جانور بنانے کی سفارش تو کی ہی، ساتھ ہی کچھ ایسے نایاب نسخے بھی چھوڑ گئے کہ جن سے ملک میں حفظان صحت کے چرمراتے ہوئے نظام پر سے پریشر بالکل ختم ہو جائے گا۔
مسٹر شرما کے مطابق گائے ایک چلتا پھرتا ہسپتال ہے، دنیا کا واحد ایسا جانور جو سانس لیتے وقت آکسیجن اندر لیتا ہے( جو کوئی بڑی بات نہیں ہم سب ایسا ہی کرتے ہیں) لیکن سانس چھوڑتے وقت بھی اکسیجن ہی باہر بھی نکالتا ہے( جو ایک بڑی بات ہے کیونکہ ایسا اور کوئی جانور نہیں کرتا)۔
اب اگر کسی کو آکسیجن کی ضرورت ہو اور آکسیجن کا سلنڈر دستیاب نہ ہو، تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کیا کرنا ہے۔
اگر آپ کے ذہن میں کبھی ’بوٹوکس‘ کے انجکشن لگوانے کا خیال آیا ہو کیونکہ آپ کو اپنے چہرے پر جھریاں پسند نہیں تو پلاسٹک سرجن سے دور ہی رہیے گا۔ اس کا علاج بھی گائے کے پاس موجود ہے، بس ذرا دل پکا کرنا ہوگا۔
گائے کا پیشاب اگر آپ پی سکتے ہیں تو عمر ڈھلنے کی رفتار ٹھہرے گی تو نہیں لیکن سست ضرور پڑ جائے گی، ساتھ ہی کچھ اور فائدے بھی ہیں۔ اس سے آپ کا جگر، دل اور دماغ بھی صحت مند رہے گا۔ یہ دل، دماغ اور جگر کے ڈاکٹروں کے لیے بری خبر ہے، لیکن ہوا کرے، مسٹر شرما کو ڈاکٹروں کی نہیں مریضوں کی فکر زیادہ ہے۔
ہاں گائے کے پیشاب سے، پچھلے جنم میں جو آپ نے گناہ کیے ہیں، وہ بھی دھل جائیں گے۔ اگر آپ کا دل و دماغ پہلے سے صحت مند ہو، اور جھریوں کو آپ ایک قدرتی عمل مانتے ہوں، تو پھر کوشش کیجیے گا کہ زیادہ گناہ نہ کریں، آپ سکون میں رہیں گے۔
جج صاحب کے مطابق ایک روسی سائنسدان کا یہ کہنا ہے کہ گھروں کی دیواروں پر اگر گائے کے گوبر کا لیپ کیا جائے تو آپ تابکاری سے محفوظ رہیں گے۔ راستے میں اب اگر کہیں گائے کا گوبر نظر آئے تو آپ کو معلوم ہی کہ کیا کرنا ہے۔ اور ہاں گائے کا گوبر ہیضے کے جراثیم کو بھی تباہ کرتا ہے۔
گائے کا دودھ پینے سے آپ کینسر سے محفوظ رہیں گے۔ ساتھ ہی آپ کی ہڈیاں بھی مضبوط رہیں گی، لیکن یہ بات جج صاحب نے نہیں کہی ہے، میں نے کسی ڈاکٹر کو کہتے سنا تھا اس لیے پوری رسرچ کے بغیر اس پر دعوے پر زیادہ یقین نہ کیا جائے۔
فہرست تو لمبی ہے، لیکن بات آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ انڈیا میں آج کل گائے کا تحفظ ایک اہم سیاسی موضوع بنا ہوا ہے جس سے سماجی اور سیاسی انتشار بڑھ رہا ہے۔ سب ہندو گائے کو مقدس نہیں مانتے اور اس کی معجزاتی صلاحیتوں پر یقین نہیں کرتے لیکن انھیں مسجھانے کی کوششیں جاری ہیں۔
ایک دو باتیں ہیں جو شاید جج صاحب کو بھی معلوم نہیں تھیں۔ گائے کا ایک نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ واٹس ایپ پر ایک کارٹون گردش کر رہا ہے جس میں ایک پاکستانی فوجی نے اپنے ٹینک کے آگے ایک گائے باندھ رکھی ہے، کچھ اسی انداز میں جیسے کشمیر میں انڈین فوج کےایک میجر نے اپنی جیپ کے آگے ایک نوجوان کو باندھا تھا!
جہاں تک بھینس کا سوال ہے، سنا ہے کہ بس اس کا دودھ پینا ہی ٹھیک ہے۔ بہت سے لوگ چولہوں میں جلانے کے لیے اس کےگوبر کے ’اپلے‘ بناتے ہیں لیکن ان سے آب و ہوا کو نقصان پہنچتا ہے۔
جج صاحب نے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ مور مورنی کے ساتھ سیکس نہیں کرتے، بس حاملہ ہونے کے لیے مورنی مور کے آنسو پی لیتی ہے۔ اسی لیے مور انڈیا کا قومی پرندا ہے۔
بےچاری مورنی، ماں بننےکے لیےاسے مور کو رلانے کے روز نئے طریقے ڈھونڈنے پڑتے ہوں گے!
No comments:
Post a Comment