ACTION RESEARCH FORUM: GOA (INDIA) COLONY SETTLERS MOVED TO PAKISTAN, WHEN CONGRESS OCCUPIED HYDERABAD DACCAN, JUNAGARH, KASHMIR AND OTHER AUTONOMOUS STATES.
MANY OF THEM WERE SETTLED IN PORT CITY KARACHI, GROOMED AT CATHOLIC MISSION SCHOOLS OF KARCAHI.
FOR CAREER EMBARKING THEY SWITCHED OVER IN STATE OF THE ART TECHNOLOGIES, AND AVAILED ECONOMIC OPPORTUNTIES IN NORTH AMERICA.
SOME INSTANCES (IN CANADA) ARE PATRICK ROSARIO, IVAN MAGHELESS, AND MANY MORE. THEY HAD INSTINCTS TO GROW LIKEWISE
کارل رودریگز RODIGAREEZ THE INCUMBENT.
GOOD LUCK
***
Source: http://www.bbc.com/urdu/world-40579967
MANY OF THEM WERE SETTLED IN PORT CITY KARACHI, GROOMED AT CATHOLIC MISSION SCHOOLS OF KARCAHI.
FOR CAREER EMBARKING THEY SWITCHED OVER IN STATE OF THE ART TECHNOLOGIES, AND AVAILED ECONOMIC OPPORTUNTIES IN NORTH AMERICA.
SOME INSTANCES (IN CANADA) ARE PATRICK ROSARIO, IVAN MAGHELESS, AND MANY MORE. THEY HAD INSTINCTS TO GROW LIKEWISE
کارل رودریگز RODIGAREEZ THE INCUMBENT.
GOOD LUCK
***
Source: http://www.bbc.com/urdu/world-40579967
تہہ خانے میں ایک ارب ڈالر کی کمپنی بنانے والا شخص
کارل رودریگز کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے نوکری سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کے اہلخانہ اور دوستوں نے اسے ایک احمقانہ فیصلہ قرار دیا تھا۔
’ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ میں پاگل ہو چکا ہوں۔ وہ یہ کہتے تھے، اس لڑکے کو ہو کیا گیا ہے۔‘
پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کارل رودریگز نے جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کامیابی کی منازل طے کر رہے تھے، ایک دن اچانک یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب دوسروں کے لیے کام کرنے کی بجائے اپنا کام کریں گے۔
لیکن اس وقت انھیں درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہی بات ان کے اہلخانہ کے لیے بھی باعثِ پریشانی تھی لیکن کارل کا عزم بلند تھا۔
سنہ 2001 میں انھوں نے کینیڈا کے شہر مسیساگا میں واقع اپنے مکان کے تہہ خانے کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور کچھ نیا کرنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں دیکھنا چاہتا تھا کہ جب میں اپنی پسند کا کام کر رہا ہوں تو اس کا پھل کیسا ہو سکتا ہے۔میں یہ نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کروں گا، بس سوچا ایک بار کوشش کر کے تو دیکھتے ہیں۔‘
آواز بدل کر لیا پہلا بڑا آرڈر
ایک مہینے کی محنتِ شاقہ کے بعد رودریگز کے دماغ میں ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کرنے کا خاکہ ابھرا جو صارفین کو لیپ ٹاپ کے ذریعے ان کے موبائل کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکے۔
انھوں نے اپنی کمپنی کا نام ’سوٹی‘ رکھا اور جب ایک سال کی محنت اور انتظار کے بعد ایک دن رودریگز کو برطانیہ کی بڑی سپر مارکیٹس میں شامل ایک گروپ کی کال آئی اور پھر رودریگز کی دنیا ہی بدل گئی۔
وہ کمپنی ان کا سافٹ ویئر صارفین کو فروخت نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ اسے اپنے نظام میں شامل کرنا چاہتی تھی تاکہ اس کا عملہ بہتر طریقے سے رابطے میں رہ سکے اور معلومات کا تبادلہ کر سکے۔
55 سالہ رودریگز اس فون کال کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب انھیں برطانوی فرم نے کال کی تو وہ اپنے تہہ خانے میں اکیلے موجود تھے۔ اس فرم نے پوچھا کہ وہ سیلز کے شعبے کے کسی آدمی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔رودریگز نے چند لمحے کے توقف کے بعد آواز بدل کر فون کال ریسیو کی اور اس طرح انھیں 20 ہزار یونٹس کی تیاری کا پہلا بڑا سودا ملا۔
اس کے بعد ’سوٹی‘ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس وقت اس فرم کا سالانہ ریونیو آٹھ کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے باوجود آج تک رودریگز نے اپنی کمپنی میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کو شامل نہیں کیا۔ ان کی کمپنی پر مکمل طور پر ان کا اور ان کی بیوی کا مالکانہ حق ہے۔
سنہ 2006 میں انھیں مائیکروسافٹ کی جانب سے بھی کمپنی خریدنے کی پیشکش کی گئی لیکن رودریگز نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ اپنی کمپنی کو ان جیسا ہی بڑا بنانا چاہتے ہیں۔
تعلق پاکستان سے، جڑیں گوا میں
رودریگز کی پیدائش پاکستان میں ایک ایسے رومن کیتھولک خاندان میں ہوئی تھی جس کی جڑیں گوا کی پرتگالی کالونی سے ملتی ہیں۔ جب وہ 11 برس کے تھے تو ان کا خاندان کینیڈا چلا گیا۔
پاکستان چھوڑنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کارل نے کہا کہ یہ فیصلہ ان کی والدہ کا تھا جو 1970 کی دہائی میں ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال سے پریشان تھیں۔
'میرے والد پاکستان میں خوش تھے مگر والدہ ہم بچوں کو ایسی جگہ پروان چڑھتا دیکھتا چاہتی تھیں جہاں ہم محفوظ ہوں اور ہمیں اچھی تعلیم مل سکے۔'
کارل کے مطابق ان کے خاندان کو ٹورنٹو میں سکونت اختیار کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور صرف ایک چیز مشکل تھی اور وہ تھا کینیڈا کا سرد موسم۔
تاہم کارل کے لیے یہ بھی مشکل نہیں تھی کیونکہ وہ ہمیشہ سے برف باری دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ 'میں برف باری دیکھنے کے لیے مرا جا رہا تھا۔ یہ وہ جادو تھا جو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔'
کارل نے ٹورنٹو یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس اور ریاضی کے مضامین میں ڈگری حاصل کی اور پھر سنہ 2001 تک بطور کنسلٹنٹ کام کرتے رہے یہاں تک کہ ’سوٹی‘ وجود میں آئی۔
آج ان کی کمپنی کی مالیت کا اندازہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے 17 ہزار کاروباری صارفین ہیں اور دنیا کے 22 ممالک میں اس کے دفاتر میں سات سو ملازمین کام کرتے ہیں۔
کارل اب اپنے اس تہہ خانے سے کام نہیں کرتے۔ ان کی کمپنی کا صدر دفتر تہہ خانے سے نکل کر مسیساگا کی دو بڑی عمارتوں میں منتقل ہو گیا ہے۔
تاہم کارل کا اپنے خاندان سے ناتا آج بھی ویسے ہی قائم ہے۔ وہ اپنے مکان میں اپنی بیوی، دو بیٹوں اور اپنی ساس کے ہمراہ رہتے ہیں۔
’میری ساس کوئی زیادہ شرمیلی خاتون نہیں لیکن میرے خیال میں وہ اس سب سے خوش ہیں جو ہم نے حاصل کیا ہے۔‘
No comments:
Post a Comment