ACTION RESEARCH FORUM: OUT OF JAIL IS WORST THAN INSIDE JAIL, NOTICE REALIZATION. JAILS ARE INSTITUTIONS OF CRIMINALITY EVER GOING.
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-40656734
****
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-40656734
میں تو جیل میں ہی اچھا تھا‘
مرزا افتخار حسین کے گھر کے اندر اپنے خاندان کے ساتھ ایک عام انسان نظر آتے ہیں، آرام سے، سوچ سمجھ کر باتیں کرتے ہیں لیکن گھر کے باہر قدم رکھتے ہی ان کی شخصیت بدل جاتی ہے انکا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے، آواز تیز ہو جاتی ہے اور انداز لڑنے والے شخص کا ہو جاتا ہے۔
افتخار 43 سال کے ہیں، لیکن اب تک بے روزگار ہیں۔ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ انہوں نے تہاڑ جیل میں گزارا ہے۔
وہ 1996 میں دہلی کے لاجپت نگر علاقے میں ہونے والے ایک بم دھماکہ کے الزام میں افتخار 14 سال جیل میں قید رہے تھے۔
رہائی کے سات سال
2010 میں دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے انہیں ناکافی شہادتوں کی بنیاد پر بری کر دیا تھا۔
ان کی رہائی کو سات سال ہو چکے ہیں لیکن ان کے الفاظ میں آج بھی تلخی ہے، 'جیل کی زندگی سب سے خراب ہوتی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جیل سے نکلنے کے بعد میری زندگی اور بھی بری گزررہی ہے'۔
جیل کی طویل زندگی نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔
وہ کہتے ہیں، 'جب میں جیل گیا تھا تو ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا. جیل میں میری شخصیت بدل گئی اب میں سخت انسان بن گیا ہوں'۔
افتخار کے مطابق جیل کے اندر اکثر جھگڑے ہوتے تھے وہاں اپنی جان بچانے کے لیے اپنی حفاظت خود کرنی پڑتی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اب تک معاشرے میں دوبارہ شامل نہیں سکے ہیں۔ بری ہونے کے بعد پیش آنے والی مشکلات سے پریشان ہو کر وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے 'جیل کی زندگی زیادہ بہتر تھی'۔
ان کا کہنا ہے، 'ہماری زندگی باہر نکل کر زیادہ خراب ہے. وہاں (جیل میں) تو پتہ تھا کہ ہم قید ہیں، کچھ کر نہیں سکتے لیکن ہمیں یہ لگتا ہے کہ بری ہونے کے بعد بھی ہم قید ہیں'۔
وادی کشمیر میں درجنوں ایسے لوگ ہیں جو کم عمر میں شدت پسند حملوں کے الزام میں گرفتار ہوئے، لیکن ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے سالوں تک جیل میں قید رہنے کے بعد رہا کر دیے گئے۔
دلی میں ان کی وکیل کامنی جیسوال کہتی ہیں، 'سالوں تک جیل میں رہنے کے بعد ان نوجوانوں میں ناراضی بڑھتی ہے اور غالباً وہ شدت پسند بھی بن سکتے ہیں'۔
افتخار ایک طرح سے خوش قسمت ہیں کہ ان کا نام کیس سے خارج ہوگیا اور اب وہ ایک آزاد شہری کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ان کے بھائی مرزا نثار حسین اور ان کے دو پڑوسی 21 سال بعد اب بھی جیل میں ہیں ان دونوں کو لاجپت نگر بم دھماکے والے مقدمے میں دہلی ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا۔
لیکن اسی سال راجستھان میں ہونے والے بم دھماکے میں انہیں راجستھان کی ایک نچلی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ہے جسے ان دونوں نے راجستھان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
افتخار کہتے ہیں جب سے وہ رہا ہوئے ہیں وہ اپنے بھائی کے مقدمے کی پیروی میں لگے ہیں، 'جیل سے باہر نکلنے کے بعد تو ہمیں بھائی کے لیے عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے لیے کبھی دہلی جانا پڑتا ہے، کبھی راجستھان جانا پڑتا ہے۔ تمام بھائی بہن مل کر پیسے جمع کرتے ہیں ۔ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں. قرض لینا پڑتا ہے'۔
کیا ریاستی حکومت کے پاس افتخار جیسے افراد کو قومی دھارے میں واپس شامل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ ہے؟
جموں اور کشمیر کے نائب وزیر اعلی نرمل سنگھ کہتے ہیں، 'حکومت سب کے لیے ہے۔ یہ جموں اور کشمیر کے لوگوں کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ جن کو حق ہے انہیں ان کا حق ہم نہیں دے رہے ہیں. اور ہم نے دیا بھی ہے'۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ افتخار جیسے لوگوں کو حکومت ان کی جوانی واپس نہیں کر سکتی لیکن اقتصادی اور نفسیاتی مدد دے سکتی ہے۔
****
No comments:
Post a Comment