ACTION RESEARCH FORUM: INSIGHTOF JUDICIAL STRENGTH OF PAKISTAN
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40768722
پاناما کیس میں عدالت کو کیا خدشہ تھا؟
پاکستان کے اب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے لکھا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ ایسا فیصلہ دیں جسے بنیاد بنا کر دوسرے ادارے اور ماتحت عدلیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا شروع کر دیں۔
سپریم کورٹ سے درخواستگزاروں نے، جن میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید شامل تھے، استدعا کی تھی کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن کے الزامات میں آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دیا جائے۔
پانچ رکنی بینچ نے اپنے دونوں فیصلوں، پہلے خصوصی تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے تحقیقات کا حکم دینے والے فیصلے اور پھر 28 جولائی کے فیصلے، میں کئی بار اس سوال کا جائزہ لیا کہ کیا وہ خود آئین میں دیے گئے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف لگائے گئے کرپشن کے الزامات پر حتمی فیصلہ دیتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دے سکتے ہیں یا نہیں۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 28 جولائی کے فیصلے میں لکھا کہ اب تک عدالت کے سامنے جو مواد پیش کیا گیا ہے اس کے بغور جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بادی النظر میں اب سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز شریف، بیٹوں حسن اور حسین نواز شریف کے خلاف 16 اثاثوں سے متعلق مقدمہ چلنا چاہیے۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم کے سمدھی اسحاق ڈار کے بارے میں بھی یہی بات کی، جن کی جائیداد میں، عدالت نے نوٹ کیا بہت ہی کم وقت میں 91 فیصد (نو اعشاریہ گیارہ ملین سے آٹھ سو اکتیس اعشاریہ ستر ملین) اضافہ ہوا۔
’ایسی صورت میں کیا کیا جائے‘ اس بات کا جواب عدالت نے کہا کہ وہ اپنے 20 اپریل والے فیصلے میں دے چکی ہے۔
عدالت نے اس پرانے نوٹ کا حوالہ دیا جس میں اس نے لکھا تھا کہ 'کسی سرکاری عہدہ رکھنے والے شخص کے خلاف اس قانون کے تحت الزامات کی صورت میں تفتیش اور شواہد کا اکٹھا کرنا ضروری ہو جاتا ہے جن سے ثابت ہو کہ اس کے اہل خانہ یا بینامی داروں کی ملکیت، قبضے میں ایسے اثاثے ہیں یا انہوں نے حاصل کر لیے ہیں جو اس شخص کی آمدن کے معلوم ذرائع سے زیادہ ہیں۔ اس تفتیش کے بعد ان الزامات کی حقیقیت معلوم کرنے کے لیے احتساب عدالت میں مکمل ٹرائل کیا جانا چاہیے۔'
'لیکن' عدالت نے 20 اپریل کے فیصلے میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھا 'جہاں نہ ہی کسی تفتیشی ایجنسی نے تفتیش کی ہو، نہ ہی کسی احتساب عدالت میں گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے ہوں اور نہ ہی ان پر جرح کی گئی ہو، نہ ہی مقدمے کی دستاویزات قانون شہادت کے تقاضوں کے مطابق پیش اور ثابت کی گئی ہوں اور نہ ہی کسی زبانی گواہی اور دستاویزات کی چھانٹی کی گئی ہو۔'
'ایسی صورت میں' سپریم کورٹ نے لکھا کہ 'یہ عدالت آئین کی شق ایک سو چوراسی (تین) کے تحت ایسے ریکارڈ کی بنیاد پر کسی سرکاری عہدہ رکھنے والے شخص کو نا اہل قرار نہیں دے سکتی'۔
جسٹس اعجاز افضل خان، جنہوں نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے 28 جولائی کا فیصلہ تحریر کیا، لکھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تفتیش، ٹرائل اور اپیل کے تمام مراحل سے گزرنا چاہیے اور ایسا نہ کرنا آئین کی ان شقوں کی خلاف ورزی ہو گی جس کے تحت ہر شہری کو یہ ضمانت حاصل ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے لکھا کہ بینچ کے دیگر ارکان جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالحسن نے اپنے اپنے نوٹ میں ایسی ہی رائے دی تھی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اٹھائیس جولائی کو متفقہ طور پر سابق وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے والے فیصلے میں لکھا کہ 'طے شدہ طریقہ کار سے ہٹنا افراتفری کا پیش خیمہ ہو گا۔' عدالت سے بارہا درخواست کی گئی کہ وہ اپنے سامنے پیش کیے گئے شواہد کی بنیاد پر مدعہ الیہان کے خلاف الزامات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ سنا دے جبکہ دوسری طرف سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹرائل کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں اور یہ کام اسے ٹرائل کورٹ کے ذمے سونپنا چاہیے۔
عدالت نے لکھا کہ اگر وہ اپنی حدود سے تجاوز کریں تو کل کو 'احتساب عدالت بھی آئین کی شق ایک سو چوراسی کے اختیارات استعمال کر سکتی ہے اور کوئی بے صبر تفتیشی افسر خود ہی یہ سوچتے ہوئے کہ ٹرائل سے تو فیصلے میں تاخیر یا ناانصافی بھی ہو سکتی ہے، کسی کے مجرم ہونے کا فیصلہ کر کے اس کی جان لے سکتا ہے۔'
سپریم کورٹ نے لکھا تھا کہ اگر عدالتیں طے شدہ طریقۂ کار سے انحراف کریں اور قیاس آرائیوں اور مفروضوں کی بنیاد پر فیصلہ دیں، چاہے وہ کتنا ہی نیک نیتی پر مبنی کیوں نہ ہو، تو وہ معاشرے کے لیے تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
عدالت نے لکھا کہ مسئلے کا حل آسان راستہ تلاش کرنا نہیں بلکہ آئین کی شق ایک سو نوے کا استعمال کرتے ہوئے اداروں کو متحرک کرنا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے 20 اپریل کے اپنے فیصلے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ہم صرف اس لیے معمول سے ہٹتے ہوئے قانون کے طے شدہ طریقۂ کار سے انحراف نہیں کر سکتے اور نہ ہی نئے ضوابط بنا سکتے ہیں کہ مدعہ علیہ وزیر اعظم کا عہدہ رکھتے ہیں۔ 'آخری بار جب ہم نے اپنی قانونی تاریخ میں ایسا کیا تھا، اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے تھے۔'
یاد رہے کہ عدالت نے کرپشن کے معاملات میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے خیال میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے، جس کے بعد عدالت نے نیب کی عدالت میں مختلف ریفرینس دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کیسے ہوئی؟
عدالت نے جمعہ 28 جولائی کو اپنے متفقہ فیصلے میں لکھا کہ 'میاں محمد نواز شریف عوامی نمائندگی کے قانون (روپا) کے سیکشن ننانوے ایف اور انیس سو تہتر کے آئین کی شق باسٹھ (ایک) (ف) کے تحت صادق نہیں اس لیے انہیں مجلس شوریٰ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔'
نواز شریف پر الزام تھا کہ کپیٹلل ایف زیڈ ای کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی تنخواہ مقرر ہوئی تھی جس کا انہوں نے سنہ 2013 کے انتخابات کے وقت کاغدات نامزدگی میں ذکر نہیں کیا۔ نواز شریف کی طرف سے جواب دیا گیا کہ انہوں نے وہ تنخواہ کبھی وصول نہیں کی تھی اس لیے اس کا اثاثوں میں ذکر نہیں کیا گیا۔ عدالت اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور انہیں ناہل قرار دے دیا گیا۔
No comments:
Post a Comment