Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-41952673
پولیس، تفتیشی ادارے اعتبار کھو رہے ہیں
ستمبر میں دلی کے نواحی شہر گروگرام (پہلے گڑگاؤں) کے ایک سکول میں ایک چھہ سالہ بچے کے قتل کے واقعے نے سب کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ ہریانہ پولیس نے پیشہ ورانہ پھرتی دکھاتے ہوئے شام تک مبینہ قاتل کو گرفتار کر لیا۔
پولیس نے سکول کی ایک بس کے کنڈیکٹر کو قاتل قرار دیا۔ کنڈیکٹر کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے کئی ٹی وی کیمروں کے سامنے اقبال کیا کہ بچے کا قتل اسی نے کیا ہے۔
اس کیس میں کئی ایسے پہلو تھے جو پولیس کے نظریے کو ابتدا ہی سی مشکوک بنا رہے تھے۔ یہ کیس مرکزی تفتیشی بیورو یعنی سی بی آئی کے حوالے کیا گیا۔
سی بی آئی نے گذشتہ دنوں سکول کے ایک سینیئر طالب علم کو بچے کے قتل کے معاملے میں گرفتار کر لیا ہے۔ تفتیش کے مطابق کنڈیکٹر بے قصور ہے۔ غریب کنڈیکٹر اب بھی جیل میں ہے اور اس کے رشتہ دار اب پولیس کے خلاف ہرجانے کامقدمہ دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر پولیس نے کنڈیکٹر کے ساتھ ایسا کیا کیا تھا کہ جس سے اس نے ایک ایسے قتل کے سنگین جرم کا اقبال کرلیا جو سی بی آئی کے مطابق اس نے کیا ہی نہیں۔ رشتے داروں کا کہنا ہے کہ اسے تحویل میں انتہائی شدید نوعیت کی اذیتیں دی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں
انڈیا میں پولیس اور تفتیشی ادارے اپنی پیشہ ورانہ نا اہلی کے سبب عوام میں اپنا اعتبار اور وقار رفتہ رفتہ کھو رہے ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب آروشی تلوار کے مشہور کیس میں الہ آباد ہائی کورٹ نے سی بی آئی کی تفتیش کو رد کر دیا اور اس کی سرزنش کرتے ہوئے آروشی کے والدین کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا جو اپنی بیٹی کے قتل کے جرم میں جیل میں تھے۔
کانگریس کے رہمنا ششی تھرور کی بیوی سنندا پشکر کی ایک ہوٹل میں پر اسرار موت کا کیس ہو یا میڈیا ایکزیکٹیو اندرانی مکھرجی کی بیٹی شینا بورا کا کیس یا آروشی کے سنسنسی خیز قتل کا معاملہ۔ پیشہ ورانہ پولیس آفیسرز اور تفتیش کار ایسے کیسز کو چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہیں اور جب تک اس کی تہ میں نہیں پہنچ جاتے سکون سے نہیں بیھٹتے۔
لیکن یہاں اس طرح کے بیشتر معاملات یا تو حل نہیں ہو سکے یا پھر ان کی تفتیش اطمینان بخش اور فیصلہ کن نہیں ہوتی۔
انڈیا میں پولیس ادارے کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ اب بھی آزادی سے پہلے کے نظام پر قائم ہے اور اس میں زبردست اصلاح کی ضرورت ہے۔ پولیس اور تفتیشی اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیت میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی دباؤ ہے۔ یہ ادارے پوری طرح حکومت اور حکمراں جماعتوں کے تابع ہوتے ہیں اور آزادانہ طور پر کام کرنا مشکل ہی نہیں کئی بار نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔
ملک میں ایسے کئی ہائی پروفائل واقعات ہیں جن میں حکومت بدلنے کے ساتھ تفتیش کے نتیجے بھی بدل گئے۔ مکہ مسجد اور مالیگاؤں کے بم دھماکوں میں پولیس نے پہلے متعدد مسلمانوں کو گرفتار کیا بعد میں خصوصی تفتیشی ٹیم نے ان میں بعض ہندو انتہا پسندوں کو گرفتار کیا۔ حکومت بدلی اور اب ایک بار پھر شک کچھ مسلم شدت پسند تنظیموں پر ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیموں اور ماہرین کے مطابق پولیس تھانوں اور جیلوں میں زیر سماعت قیدیوں اور ملزموں کو شدید نوعیت کی ایزائیں دینا ایک معمول کا عمل ہے۔ پولیس مشتبہ ملزموں سے جرم قبول کروانے کے لیے اکثر تھرڈ ڈگری یا شدید نوعیت کی اذیتیں دیتی ہے۔ کئی معاملوں میں پولیس کی حراست میں قیدیوں کی موت ہو جاتی ہے۔ پولیس اپنا کیس ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ عموماً زیر تحویل ملزموں کے اقبالیہ بیان پر قائم کرتی ہے۔
حال میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 50 فی صد لوگ پولیس کے خراب رویے اور اعتبار کھونے کے سبب اپنی شکایتیں لے کر پولیس کے پاس نہیں جانا چاہتے۔
پولیس اور سی بی آئی جیسے باوقار تفتیشی ادارے رفتہ رفتہ اپنا اعتبار کھو رہے ہیں۔ ان اداروں میں بہتری اسی وقت آسکتی ہے جب ملک کا سیاسی نظام صاف ہو گا۔
حکمراں جماعتیں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پولیس اور تفتیشی اداروں میں اصلاحات سے گریز کر رہی ہیں۔ ان اداروں میں تب تک کسی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی جب تک یہ سیاسی دخل اور دباؤ سے آزاد نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتیں فی الحال اس کے لیے تیار نظر نہیں آتیں۔
No comments:
Post a Comment