Source: http://www.bbc.com/urdu/world-41908392
سعودی ’گیم آف تھرونز‘: دیکھیں اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے
سعودی عرب میں حالیہ واقعات نے نہ صرف سعودی مملکت بلکہ پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
11 سے زیادہ شہزادوں اور کئی تاجروں اور سرکاری افسران کی گرفتاری نے اس قدامت پسند سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا جہاں سے عام طور پر کوئی معمولی خبر بھی باہر نہیں نکلتی۔ دنیا کے میڈیا کی نظریں ادھر لگی ہوئی ہیں اور سعودی عوام سانس روکے نوجوان سعودی ولی عہد کے اگلے قدم پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو پکڑے گئے شہزادوں کا تعلق ان کے حسب نسب سے بھی نکلتا ہے کہ کون کس کا بیٹا ہے اور اس کے باپ کے ساتھ ماضی میں کیا کچھ ہوا تھا۔ چند مثالیں سامنے ہیں۔
کون کون سے اہم شہزادوں کو پکڑا گیا
شہزادہ الولید بن طلال: 62 سالہ ارب پتی شہزادے ولید بن طلال دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ وہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کے پوتوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے والد طلال بن عبدالعزیز السعود ایک آزاد سوچ کے مالک تھے اور ان کے دوسرے سعودی بادشاہوں کے ساتھ تعلقات اکثر سرد رہے تھے اور ایک موقع تو ایسا تھا کہ وہ ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔
اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل نے، جو ان سے سخت ناراض تھے، طلال بن عبدالعزیز کی والدہ کے کہنے پر انھیں ملک میں واپس تو آنے دیا اور ان کے اثاثے بھی منجمد نہیں کیے لیکن انھوں نے کبھی انھیں معاف نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیے
شہزادہ ولید بن طلال بھی اپنے والد کی طرح لبرل خیالات کے مالک ہیں۔ اگرچہ وہ کسی سرکاری عہدے پر تو فائز نہیں لیکن اپنے کاروباری اثر و رسوخ کی وجہ سے سعودی پالیسی بنانے میں ان کا بڑا عمل دخل مانا جاتا ہے۔
سعودی عرب کے امور کے متعلق تجربہ رکھنے والے تجزیہ کار راشد حسین کہتے ہیں کہ کرپشن یا بدعنوانی کے متعلق تو مقدمات کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن ولی عہد محمد بن سلمان، شہزادہ ولید بن طلال سے اس وجہ سے بھی خطرہ محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ ولید بن طلال کو مغربی دنیا بہت جانتی ہے اور وہ انھیں ایک لبرل شخصیت کے طور پر جانتی ہے۔
ان کے مغربی تاجروں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ بھی بڑے قریبی تعلقات ہیں چناچہ اگر کبھی مغربی دنیا کو سعودی عرب میں کسی لبرل شخصیت کی طلب ہو سکتی تھی تو وہ ولید بن طلال کی شکل میں موجود تھی۔
شہزادہ مطعب بن عبداللہ: 65 سالہ شہزادہ مطعب مرحوم شاہ عبداللہ کے 34 بچوں میں سے ایک ہیں۔ وہ حراست سے پہلے سعودی عرب کی طاقتور نیشنل گارڈ کے سربراہ تھے جو کہ ملک کی تقریباً آدھی فوج پر مشتمل ہے۔ باقی آدھی فوج براہ راست محمد بن سلمان کو جوابدہ تھی۔ لیکن اب ان کا کنٹرول تقریباً پوری فوج پر ہے۔
راشد حسین کے مطابق مطعب بن عبداللہ بھی بادشاہت کے خواہاں رہے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ نیشنل گارڈز کے سربراہ تھے جو شمری قبائل پر مشتمل ہے اور شمری قبائل عبداللہ کا قبیلہ ہے۔ اس قبیلے میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ لوگ ہیں اور یہ عبداللہ اور ان کے خاندان کے بڑے وفادار ہیں۔
راشد حسین کے مطابق مطعب بن عبداللہ ہی وہ شخصیت تھے کہ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سعودی الیجیئنس کونسل میں یہ معاملہ پیش ہوا کہ محمد بن نائف کو سلطنت کے ولی عہد کی پوزیشن سے ہٹا دیا جائے اور ان کی جگہ محمد بن سلمان کو لایا جائے تو جن چند لوگوں نے اس کی مخالفت کی جرات کی تھی ان میں سے ایک مطعب بن عبداللہ بھی تھے۔
تو ہوا اس طرح کہ محمد بن سلمان کے لیے ایک اور بڑا خطرہ برطرفی اور گرفتار کی وجہ سے سائیڈ لائن ہو گیا۔
شہزادہ ترکی بن عبداللہ: 46 سالہ شہزادہ ترکی سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں۔ وہ صوبے ریاض کے گورنر رہے ہیں اور انھیں ریاض میٹرو پراجیکٹ کا بانی بھی کہا جاتا ہے اور اطلاعات کے مطابق یہی وہ پراجیکٹ ہے جس میں کرپشن کا ان پر الزام ہے۔
عرب تجزیہ نگار خالد ال مینا کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اتنے بڑے پیمانے پر اہم عہدوں پر فائز لوگوں کو ایک ساتھ پکڑا اور نکالا گیا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ شاہی خاندان کے لیے 'ویک اپ' کال ہے کہ جو آدمی بھی اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرے گا چاہے اس کا تعلق شاہی خاندان سے ہی کیوں نہ ہو، اس کا یہی حشر ہو گا۔
ابراہیم بن عبدالعزیز بن عبداللہ العساف: 68سالہ ابراہیم العساف حراست کے وقت وزیرِ خزانہ تھے۔ اس سے قبل وہ تدریس کے شعبے سے بھی منسلک رہے ہیں اور انھوں نے سعودی عرب کی آئی ایم ایف میں بھی نمائندگی کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان پر مکہ کی بڑی مسجد یعنی خانہ کعبہ کی وسعت کے پراجیکٹ میں کرپشن کا الزام بتایا جاتا ہے۔
تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو کبھی محمد سلمان کے فیصلوں سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ خالد التویجری، سابق سربراہ ایوان شاہی، شہزادہ ترکی بن ناصر، سابق سربراہ محکمہ موسمیات اور کئی دیگر اہم عہدوں پر فائز شخصیات اور سرمایہ دار ہیں۔
خالد ال مینا کے مطابق محمد بن سلمان نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
ان کے مطابق یہ اتنا عوامی فیصلہ ہے کہ 'اگر آج شاہ کے لیے انتخابات ہوں تو محمد بن سلمان جیت جائیں گے۔'
'لوگ کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں مکمل بادشاہت ہے اور وہاں کرپشن ہے ایسے میں اس طرح کا کام ایک اچھی مثال ہے۔'
راشد حسین اسے اس طرح بھی دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلوں کے پیچھے امریکہ کی بھی آشیر باد شامل ہے۔
'ان فیصلوں سے چند دن پہلے جارید کشنر بہت لو پروفائل دورے پر سعودی عرب آئے۔ اور اکثر لوگوں کا خیال یہی ہے کہ اس میں شاہی خاندان ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جو زیرِ بحث رہا۔'
راشد حسین کے مطابق کرپشن حقیقت میں سعودی عرب کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
'سعودی عرب میں چونکہ دولت کی فراوانی رہی ہے اس لیے کرپشن سرِ عام نظر نہیں آتی ہے جس طرح دوسرے ملکوں میں نظر آتی ہے۔ لیکن کرپشن کو استعمال کر کے غالباً محمد بن سلمان صاحب نے نوجوان نسل کو جو کہ ان کا اصل ووٹ بینک ہے، یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ دیکھو میں ان تمام بڑے لوگوں پہ ہاتھ ڈال رہا ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی حمایت کرتے رہیں اور لگتا یہ ہے کہ وہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔'
سعودی عرب کے بارے میں مزید پڑھیے
مبصرین کے مطابق سعودی شاہی خاندان میں بڑے زبردست اختلافات ہیں اور ان اختلافات کا اثر محمد بن سلمان کی بادشاہت پر پڑ سکتا ہے اس لیے اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب کچھ کیا جائے۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں اور شاید یہ اس ہی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے محمد بن سلمان کی کھل کر حمایت کی ہے اور وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
سنیچر کو سعد حریری کا ریاض میں استعفیٰ دینا، اسی دن ہی ریاض ایئرپورٹ کے قریب حوثیوں کی طرف سے مبینہ طور پر چلائے گئے بیلسٹک میزائل کو روکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران اور اس کے تمام دوستوں جن میں حزبِ اللہ بھی شامل ہے، ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کا نیا باب شروع ہو گیا ہے جس میں ٹرمپ اور محمد بن سلمان بڑے جارحانہ طریقے سے کاربند ہیں۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan-41885261
سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن یا خاندانی دشمنیاں
سنیچر کے روز سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں، سرکاری عہدیداروں اور سرمایہ داروں کی گرفتاری کو سرکاری طور پر بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن سے منسلک کیا جا رہا ہے لیکن سعودی عرب کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان کا خاندانی و کاروباری پس منظر ثابت کرتا ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگ اپنے سیاسی نظریات اور خاندانی وابستگیوں کی وجہ سے گرفتار کیے گئے ہیں۔
سعودی وزارت اطلاعات و نشریات نے سنیچر کی شام ایک بیان میں بتایا کہ ’مملکت کی تاریخ میں بے نظیر انسداد بدعنوانی مہم کے تحت 11شہزادوں اور 38موجودہ اور سابق وزرا نائبین اور سرمایہ کاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
یہ گرفتاریاں گذشتہ برسوں میں سعودی عرب سے آنے والی اہم ترین خبروں میں سے ایک ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب میں اس پر کھلے عام بہت کم بات ہو رہی ہے۔
سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکی صحافی اس خبر کے بارے میں بات تو کر رہے ہیں لیکن اس پر سرکاری اعلامیوں سے زیادہ کچھ لکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بی بی سی نے اس مضمون کی تیاری کے لیے سعودی عرب میں کام کرنے والے بعض صحافیوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اس سارے معاملے کے سیاق و سباق پر روشنی تو ڈالی لیکن اپنا نام شائع نہ کرنے کی درخواست بھی کی کیونکہ ان لوگوں کو خدشہ ہے کہ سعودی ولی عہد اس بارے میں شدید حساس ہیں اور اس موضوع پر آزادانہ رائے دینا ان صحافیوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
یسے تو سعودی شہزادے جتنی بڑی تعداد میں اور جتنے اہم کاروباری و سرکاری عہدوں پر پائے جاتے ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ ملک میں کوئی بھی غلط یا صحیح کاروباری سرگرمی ہو اور اس میں کوئی نہ کوئی شہزاد شامل نہ ہو، اس کے باوجود گرفتار شدگان کی فہرست بتاتی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنے کا مقصد صرف کرپشن کا خاتمہ نہیں ہے۔
مثال کے طور پر گرفتار ہونے والوں میں سابق فرمانروا شاہ عبداللہ کے بیٹے اور بعض قریبی ساتھی بھی شامل ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان گرفتاریوں کا ایک ہدف شاہ عبداللہ کی باقیات اور ان کی سوچ کو شاہی محل سے نکالنا بھی تھا۔
ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ بالکل ہی ایک سیاسی عمل ہے۔ دو برس قبل مکہ میں تعمیراتی کرین گرنے سے ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح چند برس قبل جدہ میں سیلاب سے بھی اتنی ہی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ ان دنوں معاملات کی تفتیش میں ناقص آلات اور منصوبہ کے الزامات سامنے آئے تھے لیکن بعض بااثر افراد اور شہزادوں کی مداخلت کے باعث ان حادثات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں ہو پا رہی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ گرفتاریوں کا ان دونوں واقعات سے بھی تعلق ہے۔
پچاس کے قریب گرفتار شدگان میں سے چند ایک کے بارے میں جو معلومات دستیاب ہیں ان کی بنیاد پر ان کا تیار کردہ خاکہ بھی اس گرفتاری مہم کی وجوہات و اثرات پر کچھ روشنی ڈال سکتا ہے۔
صالح کامل
سعودی شاہی روایات کے مطابق اگر بادشاہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری محفل میں آپ کو اپنی بائیں جانب بیٹھنے کی سعادت بخشتے ہیں تو اس سے بڑا اعزاز آپ کے لیے کوئی اور نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ سلامت آپ کو اپنا معتبر اور دوست سمجھتے ہیں۔ صالح کامل سعودی تاریخ میں ان چند افراد میں شامل ہیں جنہیں شاہی خاندان کا رکن نہ ہونے کے باوجود شاہ عبداللہ نے یہ اعزاز بخشا، اور بار بار بخشا۔
مبصرین کے مطابق صالح کامل اکثر نہ صرف سماجی اور سرکاری تقریبات میں شاہ عبداللہ کی بائیں جانب بیٹھے دکھائی دیتے بلکہ سعودی فرمانروا دیر تک ان کا ہاتھ بھی تھامے رکھتے۔ صالح کامل کی دوسری شہرت ان کی دولت ہے۔ وہ اسلامی بنکاری میں سب سے بڑے سرمایہ کار مانے جاتے ہیں اور البرکہ بنک ان کی ملکیت ہے جس کی شاخیں پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔ انہیں اپنے بیٹوں عبداللہ و محی الدین کے ہمراہ حراست میں لیا گیا ہے۔
عادل الفقیہ
ڈگری کے لحاظ سے انجینئر عادل الفقیہ کئی برس نجی شعبے سے وابستہ رہے اور مخلتف کمپنیوں اور بینکوں میں ملازمت کرتے رہے۔ انہیں شاہ عبداللہ نے بادشاہت سنبھالنے کے فوراً بعد جدہ کا میئر بنایا جو ان کی شاہ عبداللہ سے قربت کا ثبوت ہے۔ چند برس بعد جب جدہ میں سیلاب سے ہلاکتیں ہوئیں تو ابتدائی تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ میئر نے شہر کی خشک پڑی آبی گزر گاہوں پر پلاٹ بنا کر بیچ دیے۔ اس وقت اس تفتیش کو شاہ عبداللہ کے ساتھ قربت کی وجہ سے دبا دیا گیا تھا۔ اب جبکہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے تو مبصرین اسے ایک تیر سے دو شکار سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس گرفتاری کا تعلق سیلاب سے بھی جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن عادل الفقیہ کا سابق فرمانروا سے قریبی تعلق ہی ان پر آنے والے برے دنوں کی اصل وجہ بتائی جاتی ہے۔
بکر بن لادن
سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی کے سربراہ ہیں مگر ان کی وجہ شہرت القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کا بڑا بھائی ہونے کی ہے۔ سعودی شاہی خاندان سے بن لادن خاندان کی قربت داری بہت پرانی ہے جو شاہ عبدالعزیز دور میں پروان چڑھی اور شاہ عداللہ کے زمانے تک قائم رہی۔ اس دوران مکہ میں دو برس قبل کرین گرنے کے حادثے کی تفتیش میں انھوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ شہزادہ سلمان کی انسداد بد عنوانی کی زد میں مبینہ طور پر اسی وجہ سے آئے ہیں۔
شہزادہ متعب، شہزادہ ترکی اور شہزاد فہد
شاہ عبداللہ کے یہ بیٹے سعودی عرب میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں لیکن اب ظاہر ہیں زیر عتاب ہیں۔ شہزادہ متعب سعودی عرب کی اہم ترین فوج شاہی گارڈز کے سربراہ اور وزیر تھے، شہزادہ ترکی ریاض کے گورنر اور شہزادہ فہد نائب وزیر دفاع رہے ہیں۔ لیکن موجودہ ولی عہد کے عمل نے ثابت کیا ہے کہ ان کو محل میں نہیں دیکھنا چاہتے۔
حراست میں لی جانے والی مندرجہ ذیل شخصیات کے نام سامنے آچکے ہیں
شہزادہ ولید بن طلال
شہزادہ متعب بن عبداللہ
شہزادہ ترکی بن عبداللہ(سابق گورنر ریاض)
شہزادہ ترکی بن ناصر (سابق سربراہ محکمہ موسمیات)
شہزادہ فہد بن عبداللہ بن محمد (سابق نائب وزیر دفاع)
خالد التویجری(سابق سربراہ ایوان شاہی)
محمد الطبیشی(سابق سربراہ ایوان شاہی)
عمرو الدباغ (سابق گورنر ساجیا)
سعود الدویش (سابق سربراہ ایس ٹی سی)
صالح کامل اور انکے بیٹے عبداللہ و محی الدین
الولید البراہیم (این بی سی گروپ کے مالک)
عادل فقیہ(سابق وزیر اقتصاد و منصوبہ بندی)
ابراہیم العساف (سابق وزیر خزانہ)
عبداللہ السلطان (بحریہ کے سبکدوش کمانڈر)
خالد الملحم (السعودیہ کے سابق ڈائریکٹر)
بکر بن لادن(چیئرمین بن لادن گروپ)
اور سرمایہ کار محمد العمودی شامل ہیں۔
No comments:
Post a Comment