Wednesday 8 November 2017

SAUDI GAME OF THROAN RESEMBALNCE WITH CAMEL SITTING


Source: http://www.bbc.com/urdu/world-41908392

سعودی ’گیم آف تھرونز‘: دیکھیں اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے


رٹز کارلٹن ہوٹلتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionریاض میں رٹز کارلٹن ہوٹل جہاں سبھی شہزادے زیرِ حراست ہیں

سعودی عرب میں حالیہ واقعات نے نہ صرف سعودی مملکت بلکہ پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
11 سے زیادہ شہزادوں اور کئی تاجروں اور سرکاری افسران کی گرفتاری نے اس قدامت پسند سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا جہاں سے عام طور پر کوئی معمولی خبر بھی باہر نہیں نکلتی۔ دنیا کے میڈیا کی نظریں ادھر لگی ہوئی ہیں اور سعودی عوام سانس روکے نوجوان سعودی ولی عہد کے اگلے قدم پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو پکڑے گئے شہزادوں کا تعلق ان کے حسب نسب سے بھی نکلتا ہے کہ کون کس کا بیٹا ہے اور اس کے باپ کے ساتھ ماضی میں کیا کچھ ہوا تھا۔ چند مثالیں سامنے ہیں۔

کون کون سے اہم شہزادوں کو پکڑا گیا


شہزادہ طلال اور ان کی بیوی: فائل فوٹوتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionشہزادہ ولید بن طلال کے دنیا کے امیر ترین افراد سے ذاتی تعلقات ہیں

شہزادہ الولید بن طلال: 62 سالہ ارب پتی شہزادے ولید بن طلال دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ وہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کے پوتوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے والد طلال بن عبدالعزیز السعود ایک آزاد سوچ کے مالک تھے اور ان کے دوسرے سعودی بادشاہوں کے ساتھ تعلقات اکثر سرد رہے تھے اور ایک موقع تو ایسا تھا کہ وہ ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔
اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل نے، جو ان سے سخت ناراض تھے، طلال بن عبدالعزیز کی والدہ کے کہنے پر انھیں ملک میں واپس تو آنے دیا اور ان کے اثاثے بھی منجمد نہیں کیے لیکن انھوں نے کبھی انھیں معاف نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیے


سعودی عربتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

شہزادہ ولید بن طلال بھی اپنے والد کی طرح لبرل خیالات کے مالک ہیں۔ اگرچہ وہ کسی سرکاری عہدے پر تو فائز نہیں لیکن اپنے کاروباری اثر و رسوخ کی وجہ سے سعودی پالیسی بنانے میں ان کا بڑا عمل دخل مانا جاتا ہے۔
سعودی عرب کے امور کے متعلق تجربہ رکھنے والے تجزیہ کار راشد حسین کہتے ہیں کہ کرپشن یا بدعنوانی کے متعلق تو مقدمات کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن ولی عہد محمد بن سلمان، شہزادہ ولید بن طلال سے اس وجہ سے بھی خطرہ محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ ولید بن طلال کو مغربی دنیا بہت جانتی ہے اور وہ انھیں ایک لبرل شخصیت کے طور پر جانتی ہے۔
ان کے مغربی تاجروں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ بھی بڑے قریبی تعلقات ہیں چناچہ اگر کبھی مغربی دنیا کو سعودی عرب میں کسی لبرل شخصیت کی طلب ہو سکتی تھی تو وہ ولید بن طلال کی شکل میں موجود تھی۔
شہزادہ مطعب بن عبداللہ: 65 سالہ شہزادہ مطعب مرحوم شاہ عبداللہ کے 34 بچوں میں سے ایک ہیں۔ وہ حراست سے پہلے سعودی عرب کی طاقتور نیشنل گارڈ کے سربراہ تھے جو کہ ملک کی تقریباً آدھی فوج پر مشتمل ہے۔ باقی آدھی فوج براہ راست محمد بن سلمان کو جوابدہ تھی۔ لیکن اب ان کا کنٹرول تقریباً پوری فوج پر ہے۔

شہزادہ مطعب بن عبداللہ: فائل فوٹوتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionشہزادہ مطعب بن عبداللہ بھی بادشاہت کے خواہاں رہے ہیں

راشد حسین کے مطابق مطعب بن عبداللہ بھی بادشاہت کے خواہاں رہے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ نیشنل گارڈز کے سربراہ تھے جو شمری قبائل پر مشتمل ہے اور شمری قبائل عبداللہ کا قبیلہ ہے۔ اس قبیلے میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ لوگ ہیں اور یہ عبداللہ اور ان کے خاندان کے بڑے وفادار ہیں۔
راشد حسین کے مطابق مطعب بن عبداللہ ہی وہ شخصیت تھے کہ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سعودی الیجیئنس کونسل میں یہ معاملہ پیش ہوا کہ محمد بن نائف کو سلطنت کے ولی عہد کی پوزیشن سے ہٹا دیا جائے اور ان کی جگہ محمد بن سلمان کو لایا جائے تو جن چند لوگوں نے اس کی مخالفت کی جرات کی تھی ان میں سے ایک مطعب بن عبداللہ بھی تھے۔
تو ہوا اس طرح کہ محمد بن سلمان کے لیے ایک اور بڑا خطرہ برطرفی اور گرفتار کی وجہ سے سائیڈ لائن ہو گیا۔

ریاض میٹرو پراجیکٹتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionشہزادہ ترکی بن عبداللہ ریاض کے گورنر رہے ہیں اور انہی کے دور میں ریاض میٹرو پراجیکٹ شروع ہوا

شہزادہ ترکی بن عبداللہ: 46 سالہ شہزادہ ترکی سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں۔ وہ صوبے ریاض کے گورنر رہے ہیں اور انھیں ریاض میٹرو پراجیکٹ کا بانی بھی کہا جاتا ہے اور اطلاعات کے مطابق یہی وہ پراجیکٹ ہے جس میں کرپشن کا ان پر الزام ہے۔
عرب تجزیہ نگار خالد ال مینا کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اتنے بڑے پیمانے پر اہم عہدوں پر فائز لوگوں کو ایک ساتھ پکڑا اور نکالا گیا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ شاہی خاندان کے لیے 'ویک اپ' کال ہے کہ جو آدمی بھی اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرے گا چاہے اس کا تعلق شاہی خاندان سے ہی کیوں نہ ہو، اس کا یہی حشر ہو گا۔

ابراہیم بن عبدالعزیز بن عبداللہ العساف: فائل فوٹوتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionابراہیم بن عبدالعزیز بن عبداللہ العساف بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو کبھی محمد سلمان کے فیصلوں سے اختلاف کرتے رہے ہیں

ابراہیم بن عبدالعزیز بن عبداللہ العساف: 68سالہ ابراہیم العساف حراست کے وقت وزیرِ خزانہ تھے۔ اس سے قبل وہ تدریس کے شعبے سے بھی منسلک رہے ہیں اور انھوں نے سعودی عرب کی آئی ایم ایف میں بھی نمائندگی کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان پر مکہ کی بڑی مسجد یعنی خانہ کعبہ کی وسعت کے پراجیکٹ میں کرپشن کا الزام بتایا جاتا ہے۔
تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو کبھی محمد سلمان کے فیصلوں سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ خالد التویجری، سابق سربراہ ایوان شاہی، شہزادہ ترکی بن ناصر، سابق سربراہ محکمہ موسمیات اور کئی دیگر اہم عہدوں پر فائز شخصیات اور سرمایہ دار ہیں۔
خالد ال مینا کے مطابق محمد بن سلمان نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
ان کے مطابق یہ اتنا عوامی فیصلہ ہے کہ 'اگر آج شاہ کے لیے انتخابات ہوں تو محمد بن سلمان جیت جائیں گے۔'
'لوگ کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں مکمل بادشاہت ہے اور وہاں کرپشن ہے ایسے میں اس طرح کا کام ایک اچھی مثال ہے۔'
راشد حسین اسے اس طرح بھی دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلوں کے پیچھے امریکہ کی بھی آشیر باد شامل ہے۔

سعودی عربتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسعودی عوام کی نظریں ملک میں ہونے والے واقعات پر لگی ہوئی ہیں کہ دیکھیں اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے

'ان فیصلوں سے چند دن پہلے جارید کشنر بہت لو پروفائل دورے پر سعودی عرب آئے۔ اور اکثر لوگوں کا خیال یہی ہے کہ اس میں شاہی خاندان ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جو زیرِ بحث رہا۔'
راشد حسین کے مطابق کرپشن حقیقت میں سعودی عرب کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
'سعودی عرب میں چونکہ دولت کی فراوانی رہی ہے اس لیے کرپشن سرِ عام نظر نہیں آتی ہے جس طرح دوسرے ملکوں میں نظر آتی ہے۔ لیکن کرپشن کو استعمال کر کے غالباً محمد بن سلمان صاحب نے نوجوان نسل کو جو کہ ان کا اصل ووٹ بینک ہے، یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ دیکھو میں ان تمام بڑے لوگوں پہ ہاتھ ڈال رہا ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی حمایت کرتے رہیں اور لگتا یہ ہے کہ وہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔'
سعودی عرب کے بارے میں مزید پڑھیے
مبصرین کے مطابق سعودی شاہی خاندان میں بڑے زبردست اختلافات ہیں اور ان اختلافات کا اثر محمد بن سلمان کی بادشاہت پر پڑ سکتا ہے اس لیے اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب کچھ کیا جائے۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں اور شاید یہ اس ہی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے محمد بن سلمان کی کھل کر حمایت کی ہے اور وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
سنیچر کو سعد حریری کا ریاض میں استعفیٰ دینا، اسی دن ہی ریاض ایئرپورٹ کے قریب حوثیوں کی طرف سے مبینہ طور پر چلائے گئے بیلسٹک میزائل کو روکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران اور اس کے تمام دوستوں جن میں حزبِ اللہ بھی شامل ہے، ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کا نیا باب شروع ہو گیا ہے جس میں ٹرمپ اور محمد بن سلمان بڑے جارحانہ طریقے سے کاربند ہیں۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan-41885261

سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن یا خاندانی دشمنیاں

شہزادہ محمد بن سلمانتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
سنیچر کے روز سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں، سرکاری عہدیداروں اور سرمایہ داروں کی گرفتاری کو سرکاری طور پر بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن سے منسلک کیا جا رہا ہے لیکن سعودی عرب کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان کا خاندانی و کاروباری پس منظر ثابت کرتا ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگ اپنے سیاسی نظریات اور خاندانی وابستگیوں کی وجہ سے گرفتار کیے گئے ہیں۔
سعودی وزارت اطلاعات و نشریات نے سنیچر کی شام ایک بیان میں بتایا کہ ’مملکت کی تاریخ میں بے نظیر انسداد بدعنوانی مہم کے تحت 11شہزادوں اور 38موجودہ اور سابق وزرا نائبین اور سرمایہ کاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
یہ گرفتاریاں گذشتہ برسوں میں سعودی عرب سے آنے والی اہم ترین خبروں میں سے ایک ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب میں اس پر کھلے عام بہت کم بات ہو رہی ہے۔
سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکی صحافی اس خبر کے بارے میں بات تو کر رہے ہیں لیکن اس پر سرکاری اعلامیوں سے زیادہ کچھ لکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بی بی سی نے اس مضمون کی تیاری کے لیے سعودی عرب میں کام کرنے والے بعض صحافیوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اس سارے معاملے کے سیاق و سباق پر روشنی تو ڈالی لیکن اپنا نام شائع نہ کرنے کی درخواست بھی کی کیونکہ ان لوگوں کو خدشہ ہے کہ سعودی ولی عہد اس بارے میں شدید حساس ہیں اور اس موضوع پر آزادانہ رائے دینا ان صحافیوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
یسے تو سعودی شہزادے جتنی بڑی تعداد میں اور جتنے اہم کاروباری و سرکاری عہدوں پر پائے جاتے ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ ملک میں کوئی بھی غلط یا صحیح کاروباری سرگرمی ہو اور اس میں کوئی نہ کوئی شہزاد شامل نہ ہو، اس کے باوجود گرفتار شدگان کی فہرست بتاتی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنے کا مقصد صرف کرپشن کا خاتمہ نہیں ہے۔
مثال کے طور پر گرفتار ہونے والوں میں سابق فرمانروا شاہ عبداللہ کے بیٹے اور بعض قریبی ساتھی بھی شامل ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان گرفتاریوں کا ایک ہدف شاہ عبداللہ کی باقیات اور ان کی سوچ کو شاہی محل سے نکالنا بھی تھا۔
ملکہ، کرین کا حادثہتصویر کے کاپی رائٹAFP
ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ بالکل ہی ایک سیاسی عمل ہے۔ دو برس قبل مکہ میں تعمیراتی کرین گرنے سے ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح چند برس قبل جدہ میں سیلاب سے بھی اتنی ہی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ ان دنوں معاملات کی تفتیش میں ناقص آلات اور منصوبہ کے الزامات سامنے آئے تھے لیکن بعض بااثر افراد اور شہزادوں کی مداخلت کے باعث ان حادثات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں ہو پا رہی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ گرفتاریوں کا ان دونوں واقعات سے بھی تعلق ہے۔
پچاس کے قریب گرفتار شدگان میں سے چند ایک کے بارے میں جو معلومات دستیاب ہیں ان کی بنیاد پر ان کا تیار کردہ خاکہ بھی اس گرفتاری مہم کی وجوہات و اثرات پر کچھ روشنی ڈال سکتا ہے۔

صالح کامل

سعودی شاہی روایات کے مطابق اگر بادشاہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری محفل میں آپ کو اپنی بائیں جانب بیٹھنے کی سعادت بخشتے ہیں تو اس سے بڑا اعزاز آپ کے لیے کوئی اور نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ سلامت آپ کو اپنا معتبر اور دوست سمجھتے ہیں۔ صالح کامل سعودی تاریخ میں ان چند افراد میں شامل ہیں جنہیں شاہی خاندان کا رکن نہ ہونے کے باوجود شاہ عبداللہ نے یہ اعزاز بخشا، اور بار بار بخشا۔
مبصرین کے مطابق صالح کامل اکثر نہ صرف سماجی اور سرکاری تقریبات میں شاہ عبداللہ کی بائیں جانب بیٹھے دکھائی دیتے بلکہ سعودی فرمانروا دیر تک ان کا ہاتھ بھی تھامے رکھتے۔ صالح کامل کی دوسری شہرت ان کی دولت ہے۔ وہ اسلامی بنکاری میں سب سے بڑے سرمایہ کار مانے جاتے ہیں اور البرکہ بنک ان کی ملکیت ہے جس کی شاخیں پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔ انہیں اپنے بیٹوں عبداللہ و محی الدین کے ہمراہ حراست میں لیا گیا ہے۔
Prince Alwaleed bin Talalتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

عادل الفقیہ

ڈگری کے لحاظ سے انجینئر عادل الفقیہ کئی برس نجی شعبے سے وابستہ رہے اور مخلتف کمپنیوں اور بینکوں میں ملازمت کرتے رہے۔ انہیں شاہ عبداللہ نے بادشاہت سنبھالنے کے فوراً بعد جدہ کا میئر بنایا جو ان کی شاہ عبداللہ سے قربت کا ثبوت ہے۔ چند برس بعد جب جدہ میں سیلاب سے ہلاکتیں ہوئیں تو ابتدائی تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ میئر نے شہر کی خشک پڑی آبی گزر گاہوں پر پلاٹ بنا کر بیچ دیے۔ اس وقت اس تفتیش کو شاہ عبداللہ کے ساتھ قربت کی وجہ سے دبا دیا گیا تھا۔ اب جبکہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے تو مبصرین اسے ایک تیر سے دو شکار سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس گرفتاری کا تعلق سیلاب سے بھی جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن عادل الفقیہ کا سابق فرمانروا سے قریبی تعلق ہی ان پر آنے والے برے دنوں کی اصل وجہ بتائی جاتی ہے۔

بکر بن لادن

سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی کے سربراہ ہیں مگر ان کی وجہ شہرت القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کا بڑا بھائی ہونے کی ہے۔ سعودی شاہی خاندان سے بن لادن خاندان کی قربت داری بہت پرانی ہے جو شاہ عبدالعزیز دور میں پروان چڑھی اور شاہ عداللہ کے زمانے تک قائم رہی۔ اس دوران مکہ میں دو برس قبل کرین گرنے کے حادثے کی تفتیش میں انھوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ شہزادہ سلمان کی انسداد بد عنوانی کی زد میں مبینہ طور پر اسی وجہ سے آئے ہیں۔

شہزادہ متعب، شہزادہ ترکی اور شہزاد فہد

شاہ عبداللہ کے یہ بیٹے سعودی عرب میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں لیکن اب ظاہر ہیں زیر عتاب ہیں۔ شہزادہ متعب سعودی عرب کی اہم ترین فوج شاہی گارڈز کے سربراہ اور وزیر تھے، شہزادہ ترکی ریاض کے گورنر اور شہزادہ فہد نائب وزیر دفاع رہے ہیں۔ لیکن موجودہ ولی عہد کے عمل نے ثابت کیا ہے کہ ان کو محل میں نہیں دیکھنا چاہتے۔
سعودی عربتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionشہزاد فہد بن عبداللہ بن عبدالعزیز نائب وزیر دفاع کے عہدے پر فائز تھے
حراست میں لی جانے والی مندرجہ ذیل شخصیات کے نام سامنے آچکے ہیں
شہزادہ ولید بن طلال
شہزادہ متعب بن عبداللہ
شہزادہ ترکی بن عبداللہ(سابق گورنر ریاض)
شہزادہ ترکی بن ناصر (سابق سربراہ محکمہ موسمیات)
شہزادہ فہد بن عبداللہ بن محمد (سابق نائب وزیر دفاع)
خالد التویجری(سابق سربراہ ایوان شاہی)
محمد الطبیشی(سابق سربراہ ایوان شاہی)
عمرو الدباغ (سابق گورنر ساجیا)
سعود الدویش (سابق سربراہ ایس ٹی سی)
صالح کامل اور انکے بیٹے عبداللہ و محی الدین
الولید البراہیم (این بی سی گروپ کے مالک)
عادل فقیہ(سابق وزیر اقتصاد و منصوبہ بندی)
ابراہیم العساف (سابق وزیر خزانہ)
عبداللہ السلطان (بحریہ کے سبکدوش کمانڈر)
خالد الملحم (السعودیہ کے سابق ڈائریکٹر)
بکر بن لادن(چیئرمین بن لادن گروپ)
اور سرمایہ کار محمد العمودی شامل ہیں۔

متعلقہ عنوانات


http://www.bbc.com/urdu/world-41882922

سعودی عرب کے شاہ سلمان نے تین سال میں کیا کچھ بدلا؟

سعودی شاہ سلمانتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionشاہ سلمان نے رواں برس جون میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے 57 سالہ شہزادہ محمد بن نائف کی جگہ اپنے 31 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو نیا ولی عہد مقرر کیا تھا
سعودی عرب کے بادشاہ سلمان کو سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد جب تقریباً تین سال قبل اقتدار ملا تب سے انھوں نے ملکی پالیسیوں میں کچھ اہم تبدیلیاں کی ہیں۔
ان تبدیلیوں میں سنیچر کو نئی اینٹی کرپشن کمیٹی نے گیارہ شہزادوں، چار موجودہ اور 'درجنوں' سابق وزرا کو گرفتار کر لیا جن میں اربوں ڈالر کے اثاثے رکھنے والے شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل ہیں۔
اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنوری سنہ 2015 کو شاہ سلمان نے شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد 79 برس کی عمر میں تخت سنبھالنے کے بعد اپنے بھتیجے محمد بن نائف کو ولی عہد اور نائب وزیراعظم بنایا اور اپنے بیٹے شہزادہ سلمان کو وزیر دفاع کا عہدہ دیا۔
لیکن رواں برس جون میں انھوں نے اپنے 32 سالہ بیٹے کو ولی عہد بنا دیا اور آہستہ آہستہ محمد بن نائف سے اختیارات واپس لے لیے۔
مارچ سنہ 2015 میں سعودی عرب یمن میں صدر منصور ہادی کی جانب سے شیعہ حوثی باغیوں اور ان کے حامیوں کے خلاف کارروائیوں میں یمن کا ساتھ دینے کے لیے اتحادی ممالک کا سربراہ بن گیا۔ اس سلسلے میں سعودی عرب نے فضائی بمباری کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے۔
پھر اتحادی افواج نے یمن میں اپنے دستے تعینات کیے۔ انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے ان فضائی حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
تہران سے تعلقات کشیدہ
نمر النمرتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionسعودی عرب کے شیعہ عالم نمر النمر کی پھانسی کے بعد تہران میں بھی مظاہرے ہوئے
جنوری 2016 میں سعودی عرب نے دہشت گردی کے الزامات میں 47 افراد کو پھانسی کی سزا دی۔ ان میں زیادہ تر تعداد تو سنی فرقے کے مسلمانوں کی تھی تاہم اس میں سعودی عرب کے ایک بڑے شیعہ عالم نمر النمر بھی شامل تھے۔
ان کی پھانسی کے نتیجے میں سعودی عرب کے اپنے علاقائی حریف ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات خراب ہو گئے۔ ریاض نے اپنے سفارتخانے پر حملے کے بعد تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔

معاشی اصلاحات

سعودی عربتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionوژن 2030 کا ایک مقصد نجی شعبے کو تقویت دینا ہے
اپریل 2016 میں سعودی حکومت نے وژن 2030 کے نام سے ایک بڑے اصلاحاتی منصوبے کی منظوری دی۔
اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ معیشت کا انحصار تیل پر ہی نہ ہو بلکہ اس کے لیے آمدن کے ذرائع کو مزید وسعت دی جائے۔ اس منصوبے میں تیل کی سرکاری کمپنی آرمکو کے حصص کی فروخت سے سرمایہ حاصل کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
سعودی عرب کو سنہ 2014 کے وسط میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سبسڈی کو کم کرنا پڑا تھا اور اپنے اہم ترقیاتی منصوبوں کو معطل کرنا پڑا تھا۔
دسمبر 2016 میں سعودی عرب نے اوپیک تنظیم کے ممالک اور اس تنظیم سے باہر روس کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے تیل کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق کیا۔

واشنگٹن کے ساتھ معاہدے

سعودی عرب، امریکہتصویر کے کاپی رائٹAFP
ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر اقتدار سنھبالنے کے بعد اپنا پہلا دورہ رواں برس مئی میں سعودی عرب کا کیا تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان 380 ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے جن میں 110 ارب ڈالر کا ہتھیار فراہم کرنے کا معاہدہ ہوا۔ اس کا مقصد بظاہر سعودی عرب کو ایران اور بنیاد پرست مسلمان گروہوں سے نمٹنے میں مدد دینا تھا۔
قطر بحران
جون 2017 میں سعودی عرب اور متعدد خلیجی اتحادیوں اور مصر نے قطر سے اپنے سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو ختم کرتے ہوئے اس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ 'دہشت گردوں' کی مدد کرتا ہے اور وہ ایران کے بہت قریب ہو رہا ہے۔
قطر نے ان الزامات کو مسترد کیا تاہم سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے دوحہ کے خلاف مزید اقتصادی اقدامات کیے۔

عورتوں کے لیے مزید حقوق

سعودی خواتینتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionسعودی خواتین نے ڈرائیونگ کا حق حاصل کرنے کے لیے طویل عرصے تک تحریک چلائی اور گذشتہ سالوں میں متعدد خواتین کو ڈرائیونگ کرنے پر گرفتار بھی کیا جا چکا ہے
دسمبر 2015 میں سعودی عرب نے پہلی مرتبہ خواتین کو نہ صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا بلکہ انھیں بطور امیدوار حصہ لینے کی اجازت بھی دے دی۔
رواں برس ستمبر میں شاہی فرمان میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی اور یہ پابندی جون 2018 میں ختم ہو جائے گی۔
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے فیصلے سے کچھ ہی روز پہلے خواتین کو سٹیڈیم میں پہلی بار جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ بعد میں حکام نے بتایا کہ خواتین کو دیگر کھیلوں کے سٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جائے گی تاہم اس کے لیے مردوں اور خواتین کے لیے الگ الگ نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا۔
اب بھی سعودی خواتین کو بیرون ملک جانے یا سفر کرنے کے لیے خاندان کے مرد سرپرست کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

کریک ڈاؤن

شاہ سلمانتصویر کے کاپی رائٹALEX BRANDON
ستمبر میں حکام نے 20 افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں معروف عالم سلمان الاوادہ اور الاوادہ القارنی بھی شامل تھے اور بظاہر یہ کریک ڈاؤن حکومت پر تنقید کرنے والوں پر کیا تھا۔
معروف سعودی صحافی جمال کاشوگی نے بھی ٹویٹ کی کہ انھیں سعودی اخبار الحیات میں لکھنے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے بظاہر اپنی ٹوئٹس میں اخوان المسلمین کی حمایت کی تھی۔

سرمایہ کاری، معتدل انداز

محمد بن سلمانتصویر کے کاپی رائٹAFP
گذشتہ ماہ کے آخر میں سعودی عرب کے والی عہد محمد بن سلمان نے کاروباری کانفرنس میں اربوں ڈالر مالیت کا نیا شہر اور کاروباری زون تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے این ای او ایم (نیوم) نامی منصوبے کے بارے میں بتایا کہ ملک کے شمال مغربی علاقے میں 26 ہزار پانچ سو مربع کلومیٹر پر محیط ہو گا۔
بتایا گیا کہ این ای او ایم (نیوم) نامی منصوبے سے سال دو ہزار تیس تک سعودی معیشت میں ایک سو ارب ڈالر تک حصہ ہو گا اور یہ بحرِ احمر کے ساحل اور عقابہ خلیج پر ایک پرکشش منزل ہو گا جو ایشیا، افریقہ اور یورپ سے جوڑے گا۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی سیاحتی ویزے کی شروعات بھی کریں گے۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب میں 'معتدل اسلام کی واپسی' کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنی زندگیوں کے آئندہ 30 سال ان تباہ کن عناصر کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ ہم انتہا پسندی کو جلد ہی ختم کر دیں گے۔'
http://www.bbc.com/urdu/world-41898453

غیرمستحکم مشرق وسطیٰ، ایک غیریقینی صورتحال کہ آنے والا وقت کیا منظر پیش کرے گا

سعد الحریریتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionسعد الحریری نے کہا کہ انھیں ڈر ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں گے جس کا الزام انھوں نے ایران اور حزب اللہ پر لگایا
ریاض میں تلواروں اور دور مار میزائلوں کی ایک رات نے غیرمستحکم مشرق وسطیٰ میں ایک بھونچال اور اس بارے میں ایک غیریقینی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آنے والا وقت کیا منظر پیش کرے گا۔
سنیچر کی رات سعودی دارالحکومت ریاض میں اچانک پیش آنے والے تین واقعات کا براہ راست آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن جو بھی کہا جائے، یہ ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب اور امریکہ سمیت اس کے اہم اتحادی اپنے کٹر مخالف ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔
پہلی اور ممکنہ طور پر خطے کے لیے سب سے زیادہ دھماکہ خیز چیز سعد الحریری کا ریاض میں کیا گیا چونکا دینے والا اعلان تھا کہ وہ لبنان کے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دے رہے ہیں۔
باخبر مبصرین کا کہنا ہے کہ انھیں بیروت سے بلایا گیا اور پھر ان کے سعودی اتحادیوں نے انھیں 'برطرف' کر دیا۔ عرب حکومت کے وزرا نے حریری کے ٹی وی پر خطاب کے بارے میں مجھے بتایا کہ 'یہ ان کی اپنی زبان نہیں تھی۔'
واضح طور پر پریشان نظر آنے والے حریری نے اپنے ہی ملک میں اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے 'بدامنی اور بربادی' کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ایران کی لبنانی اتحادی حزب اللہ جو بڑی شیعہ ملیشیا اور طاقتور سیاسی قوت ہے، ریاست کے اندر ریاست بنا رہی ہے۔
بیروت کے کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے وابستہ یزید سایغ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ 'سعودی عرب نے بلاہدف میزائل داغا ہے۔'
ان کے مطابق اس کا مرکزی ہدف لبنان نہیں تھا لیکن ریاض اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں ایران خطے میں بری طرح عدم استحکام پھیلا رہا ہے۔
اس سے لبنان کے سیاسی منظرنامہ کو سب سے پہلے دھچکا پہنچا اور قومی اتحاد کی متوازن حکومت جس میں حزب اللہ اور حریری کا سنی فرقہ شامل ہے، ختم ہو گئی۔
لبنانتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionلبنانیوں نے بیروت کی ایک کافی شاپ پر تاش کھیلتے اور شیشہ پیتے ہوئے حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کا ٹی وی پر خطاب سنا
سعد الحریری کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعد ایک اصلی دور مار میزائل یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے فائر کیا گیا جسے ریاض کے شاہ خالد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب مار گرایا گیا۔
اس سے سعودی عرب کا وہ خوف اور بڑھ گیا جس کا وہ اظہار کر چکا ہے کہ ایران اس کی سرحد تک پہنچ چکا ہے اور اب اس کے پار بھی۔
اختتامِ ہفتہ پر متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ایک فورم کے موقع پر عریبیہ فاؤنڈیشن کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر علی شہابی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'یہ میزائل تو صرف شروعات ہے۔ اگر مزید پانچ سال یہی صورتحال رہی تو 40 ہزار میزائل ریاض کو نشانہ بنائیں گے۔'
اس وقت جب کہ خطے میں اور اس سے کہیں آگے تک سیاسی بھنبھناہٹ جاری تھی تیسرا حیرت انگیز دھماکہ آدھی رات کو ہوا جب انسدادِ بد عنوانی مہم کے تحت درجنوں شہزادوں، ارب پتیوں اور سابق وزرا کو گرفتار کر لیا گیا اور چند کو برطرف کر دیا گیا۔
یہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے امور سلطنت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے سلسلے میں ملک کے اندر اور باہر دیا جانے والا اب تک کا سب سے زیادہ دلیرانہ اشارہ تھا۔
خطے کے ایک سینیئر عرب اہلکار کا کہنا ہے کہ 32 سالہ ولی عہد کی جانب سے یہ صفائی 'ایک پیغام ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، یا واضح طور پر ان کے قانون سے۔'
سعد الحریری اور ایرانی مشیر علی اکبر ولایتیتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionسعد الحریری اور علی اکبر ولایتی ملاقات کر رہے ہیں
سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاض گذشتہ برس کے دوران سعد الحریری کے ساتھ بےصبری سے پیش آیا ہے۔ اس دوران وہ لبنان کی نازک اتحادی حکومت پر حزب اللہ کے اثر و رسوخ کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
گذشتہ برس 30 رکنی کابینہ کی تشکیل کے لیے مشکلوں سے کیے جانے والے معاہدے نے برسوں سے جاری سیاسی تعطل کو ختم کیا تھا۔ اس کا مقصد پڑوسی ملک شام میں جاری جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے اثرات کو کم کرنا تھا جہاں سعودی عرب اور ایران حریفوں کی مدد کر رہے ہیں۔
الشہابی کا کہنا تھا کہ 'یہ قدم اٹھا کر حریری نے اس ریاست کے لیے عزت کمائی ہے جس پر درحقیقت حزب اللہ کا قبضہ ہے۔'
حریری کی حکومت کے لیے آخری تنکا جمعے کو بیروت میں حریری کی ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کے سینیئر مشیر علی اکبر ولایتی کے ساتھ ملاقات ثابت ہوئی۔
لبنانی اور ایرانی ذرائع ابلاغ نے اکبر ولایتی کی جانب سے لبنان کی اتحادی حکومت کے قیام کو 'عظیم کامیابی' قرار دیے جانے کو شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ اس کے فوراً بعد سعد حریری کے قریبی ساتھیوں کے مطابق 'وہ ایک بوکھلائے ہوئے شخص تھے جو بہت جلدی میں تھے۔'
سعد حریری کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک نے بتایا 'انھوں نے ہمیں جمعے اور سنیچر کی اپنی تمام مصروفیات منسوخ کرنے کا کہا اور چلے گئے۔'
اس کے بعد شدت سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ آیا لبنانی اور سعودی شہریت کے حامل سعد الحریری بھی انسداد بدعنوانی مہم کی زد میں آ گئے ہیں۔
سعد الحریری اور شاہ سلمانتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionسعودی عرب کے شاہ سلمان سابق لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری سے ملاقات کر رہے ہیں
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟
یزید سایغ کا کہنا ہے کہ 'سعودی عرب نے لبنان میں کچھ شروع تو کردیا ہے لیکن وہ وہاں اقتدار کے تمام اختیارات پر قابو نہیں رکھتا۔'
مشرق وسطیٰ میں سفارتکاری کے وسیع تجربے کے حامل ایک مغربی سفارتکار نے اگلے ممکنہ اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان میں بڑے سعودی بینکوں کی رقوم نکلوانا، تجارتی پابندیاں، لبنانی فوج کی کارروائیاں ہو سکتی ہیں جس کی تربیت اور تعمیر کے لیے امریکہ اور برطانیہ کافی عرصے سے مدد کر رہے ہیں تاکہ وہ حزب اللہ کی فوج کے مدمقابل کھڑی ہو سکے۔
گذشتہ ماہ امریکی ایوانِ نمائندگان نے حزب اللہ پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی تائید کی ہے۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کی اس مہم کا حصہ ہے جس میں وہ ایران پر مزید دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔
ان اقدامات کو ابھی قانون کی شکل اختیار کرنی ہے جن میں یورپی یونین کی وہ قرارداد بھی شامل ہے جس میں حزب اللہ کے نہ صرف فوجی بلکہ سیاسی دھڑے کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی اپیل کی گئی ہے۔
حزب اللہتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionحزب اللہ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران صدر بشار الاسد کی فورسز کے ہمراہ لڑائی میں مصروف ہے
وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو گذشتہ ہفتے اپنے سرکاری دورے پر لندن میں موجود تھے، نے کہا کہ 'اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری ایران کی جارحیت کے خلاف سخت کارروائی کرے جو شام کو ایک اور لبنان بنانا چاہتا ہے۔'
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ غیرمستحکم لبنان میں اعصاب کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے زور دیا کہ سعودی عرب کے سعد الحریری پر 'تھوپے' جانے والے فیصلے بعد 'برداشت اور سکون' کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
ایران بھی خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کے منصوبوں کی تیاری کے الزامات لگا رہا ہے۔
ہمیشہ سے کئی بحرانوں کے شکار غیر مستحکم پڑوس کے برابر میں واقع ملک کے لیے فکرمندی کی بات صرف جنگ نہیں بلکہ کسی تنازعے میں حادثاتی طور پر پھنس جانا بھی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے جین میری گونہینو کا کہنا ہے کہ 'حزب اللہ کو اپنی سرخ لکیر کا پتہ ہے، اور ہر اسرائیلی جرنیل فوجی کارروائی سے احتیاط برتے گا۔ لیکن آپ کو یقین نہیں کہ سیاست دان کیا کریں گے۔'
سعد الحریریتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionلبنان کے صدر کا کہناہے کہ وہ بیروت لوٹنے پر سعد الاحریری سے انکا موقف سننا چاہتے ہیں
اب موجودہ صورتحال کے بعد تمام حرکات کا محتاط انداز میں مشاہدہ کیا جائے۔
عرب حکومت کے وزیر کا کہنا ہے کہ 'لبنان کے بحران میں تیزی آنے کے بعد ولی عہد کو ملک کے اندر گرفتاریوں کو ملتوی کر دینا چاہیے تھا۔ اب کئی چیزیں ہوا میں ہیں۔'

دیگر غیر متفق ہیں

ایک سعودی مبصر کا کہناہے کہ 'بہتر ہو گا کہ اسے ایک رات میں نمٹا دیا جائے۔ یہ مستقل رستا رہا ہے۔'
اور گذشتہ ہفتے کے فیصلہ کن دن کی طرح یہ سب یکجا ہو کر کچھ مزید بڑی شکل اختیار کر لے گا۔

متعلقہ عنوانات

http://www.bbc.com/urdu/world-40932850

سعودی شہزادوں کی پراسرار گمشدگی کا معمہ

سعودیتصویر کے کاپی رائٹHUGH MILES
Image captionشہزادہ سلطان بن ترکی کے بارے میں 2016 کے بعد سے کوئی خبر نہیں ہے
گذشتہ دو سالوں میں یورپ میں رہنے والے تین سعودی شہزادے لاپتہ ہو چکے ہیں۔
یہ تینوں شہزادے ماضی میں سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور ان کی گمشدگی کے بارے میں ایسے شواہد ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اغوا کر کے سعودی عرب لے جایا گیا اور اس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔
سؤٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں 12 جون 2003 کو ایک سعودی شہزادے کو جینیوا سے باہر ایک محل لے جایا گیا۔
اس شہزادے کا نام سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز ہے اور وہ جس محل میں لے جایا گیا وہ اس کے رشتے دار، سعودی عرب کے سابق حکمران شاہ فہد کی ملکیت ہے۔ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز کو شاہ فہد کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن فہد نے ناشتے پر مدعو کیا۔
عبدالعزیز بن فہد نے سلطان بن ترکی سے درخواست کی کہ وہ سعودی عرب واپس لوٹ جائیں تاکہ سعودی حکمرانوں کے خلاف ان کی جانب سے کی گئی تنقید اور خدشات کو دور کیا جا سکے مگر سلطان بن ترکی نے یہ درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
اس موقع پر عبدالعزیز بن فہد فون کرنے کے بہانے سے کمرے سے باہر گئے اور کمرے میں موجود دوسرے فرد، سعودی عرب کے وزیر برائے اسلامی امور شیخ صالح الشیخ بھی باہر چلے گئے۔
ان دونوں کے جاتے ہی چند افراد کمرے میں داخل ہو گئے اور سلطان بن ترکی کو زد و کوب کیا، اور اس کے بعد انھیں ہتھکڑی پہنا کر ان کی گردن میں انجیکشن لگا دیا۔ اس بے ہوشی کی حالت میں سلطان بن ترکی کو جینیوا ایئر پورٹ لے جایا گیا جہاں سے انھیں جہاز پر سوار کرا دیا گیا۔
یہ تمام قصہ سلطان بن ترکی نے اغوا ہونے کے کئی سال بعد سوئس عدالت میں بیان کیا تھا۔
اس وقت سلطان بن ترکی کے لیے کام کرنے والوں میں سے ان کے افسر برائے اطلاعات ایڈی فریرا نے بعد میں بتایا کہ جس روز سلطان ناشتے کے لیے گئے تھے، 'وہ دن بتدریج مشکل ہوتا چلا گیا۔ ہم سلطان کی سکیورٹی ٹیم سے رابطہ کرنے میں ناکام رہے جس سے ہمیں شک پڑا کے معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے شہزادے سے رابطہ کرنے کی بار بار کوشش کی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔'
اسی دن دوپہر میں دو غیر متوقع لوگ سلطان بن ترکی کے ہوٹل پہنچے۔
'سوئٹزرلینڈ میں متعین سعودی سفیر اور ہوٹل کے جنرل مینیجر ہمارے پاس آئے اور کہا کہ کمرے فوراً خالی کر دیے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ شہزادہ سلطان اب ریاض چلے گئے اور ہماری اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔'
شہزادہ سلطان بن ترکی نے ایسا کیا کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے اپنے خاندان والوں نے انھیں نشہ آور انجیکشن لگایا اور اغوا کر لیا؟
ایک سال قبل شہزادہ سلطان علاج کرانے کی غرض سے یورپ آئے تو وہاں پہنچ کر انھوں نے سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا اور شاہی خاندان کے افراد پر بدعنوانی کے الزامات لگائے اور ملک میں مختلف نوعیت کی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا۔
سن 1932 میں شاہ عبدالعزیز نے سعودی عرب کی بنیاد ڈالی اور اس وقت سے ملک میں بادشاہت قائم ہے اور ملک میں اختلاف رائے کے اظہار کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
سعودیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionشہزادہ ترکی بن بندر 2003 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ سے ملاقات کرتے ہوئے
شہزادہ ترکی بن بندر سعودی پولیس میں اہم مقام رکھتے تھے اور سعودی خاندان پر نظر رکھنا ان کی ذمہ داری تھی۔ لیکن وراثت کے معاملے پر جھگڑے کی وجہ سے ان کو جیل جانا پڑا جہاں سے انھیں 2012 میں رہائی ملی۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں سے انھوں نے انٹرنیٹ پر یوٹیوب کی ویب سائٹ پر سعودی عرب میں تبدیلیوں کی مطالبے کی ویڈیوز شائع کرنا شروع کر دیں۔
سعودی حکومت نے ان کے خلاف بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کی جیسا شہزادہ سلطان بن ترکی کے ساتھ کیا تھا۔
وزارت داخلہ کے نائب وزیر احمد ال سالم نے جب شہزادہ ترکی بن بندر کو واپس بلانے کے لیے فون کیا تو شہزادے نے وہ گفتگو ریکارڈ کر لی اور اسے انٹرنیٹ پر جاری کر دیا۔
اس گفتگو میں احمد ال سالم کہتے ہیں 'ہم سب آپ کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں، خدا آپ کا بھلا کرے۔'
جواب میں شہزادہ ترکی بن بندر نے کہا: 'میری واپسی کا انتظار؟ تو ان سب خطوط کے بارے میں کیا کہو گے جو مجھے بھیجے اور جن میں لکھا ہوا تھا کہ میں فاحشہ کی اولاد ہوں اور تم لوگ مجھے بھی ویسے ہی گھسیٹ کر لے جاؤ گے جیسے شہزادہ سلطان بن ترکی کو لے گئے تھے۔'
اس پر نائب وزیر نے جواب دیا: 'آپ کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ میں آپ کا بھائی ہوں۔'
شہزادہ ترکی بن بندر نے جواب دیا: 'نہیں، یہ خط تمہاری طرف سے ہیں۔ وزارت داخلہ نے یہ خط بھیجے ہیں۔'
شہزادہ ترکی بن بندر جولائی 2015 تک ویڈیوز شائع کرتے رہے لیکن اسی سال وہ غائب ہو گئے۔
ان کے دوست اور بلاگر وائیل الخلف نے بتایا 'وہ مجھے ہر ایک یا دو ماہ بعد فون کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر وہ کوئی چار پانچ مہینے کے لیے غائب ہو گئے جس سے مجھے شک پڑا۔ پھر میں نے سعودی عرب میں ایک سینئیر افسر سے سنا کہ شہزادہ ترکی ان کے پاس ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھیں اغوا کر کے وہاں لے جایا گیا ہے۔'
شہزادہ ترکی کے بارے میں خبروں کی تلاش میں مجھے مراکش کے ایک اخبار میں خبر ملی جس میں لکھا تھا کہ وہ مراکش کے دورے کے بعد واپس فرانس جانے والے تھے جب انھیں گرفتار کر لیا گیا اور وہاں سے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔
ابھی تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ شہزادہ ترکی بن بندر کے ساتھ ہوا کیا ہے لیکن اپنی گمشدگی سے پہلے انھوں نے اپنے دوست بلاگر وائیل الخلف کو اپنی کتاب دی تھی اور اس میں ایک نوٹ درج کیا تھا۔
'میرے عزیز وائیل، یہ بیان تم صرف اس صورت میں شائع کرنا اگر میں اغوا ہو جاؤں یا قتل کر دیا جاؤں۔ مجھے یقین ہے کہ یا تو مجھے اغوا کر لیا جائے گا یا مار دیا جائے گا۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ لوگ کس طرح میرے اور سعودی عوام کے حقوق غضب کرتے ہیں۔'
سعودی
Image captionشہزادہ سعود بن سیف النصر
اسی اثناء میں جب شہزادہ ترکی کو اغوا کیا گیا تھا، ایک اور سعودی شہزادے سعود بن سیف کو بھی اٹھا لیا گیا۔
شہزادہ سعود بن سیف، جنھیں یورپ کے کسینو اور پرتعیش ہوٹلوں سے رغبت تھی، انھوں نے 2014 میں سعودی شاہی خاندان کے خلاف تنقیدی ٹویٹس کرنا شروع کیں۔
انھوں نے ان سعودی افسران کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا جنھوں نے مصر کے صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے میں مدد کی تھی۔
اس کے بعد ستمبر 2015 میں معاملات مزید گرم ہو گئے جب شہزادہ سعود بن سیف نے ایک نامعلوم سعودی شہزادے کے اس خط کی برملا حمایت کی جس میں سعودی بادشاہ، شاہ سلمان کی حکومت گرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ شہزادہ سعود شاہی خاندان کے واحد فرد تھے جنھوں نے اس مطالبے کی حمایت کی تھی جسے غداری تصور کیا جاتا ہے۔
اس حمایت کا اظہار کرنے کے کچھ دن بعد انھوں نے ٹویٹ کی: 'میں اپنی قوم مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس خط کے مواد کو لے کر حکومت پر دباؤ ڈالیں۔' اس ٹویٹ کے بعد ان کا اکاؤنٹ خاموش ہو گیا۔
2013 میں جرمنی بھاگ جانے والے سعودی حکومت کے ایک اور مخالف شہزادے خالد بن فرحان کا خیال ہے کہ شہزادہ سعود بن سیف کو دھوکے سے اٹلی کے شہر میلان سے روم بلایا گیا۔
'میلان میں ان کو ایک پرائیوٹ جہاز میں سوار کرایا گیا جس کی منزل روم تھی لیکن وہ روم کے بجائے ریاض میں جا کر اترا۔ سعودی خفیہ اداروں نے یہ اس پورے پلان کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اب شہزادہ سعود کا وہی مقدر ہے جو شہزادہ ترکی بن بندر کا ہے۔ جیل میں قید۔'
شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز کیونکہ شاہی خاندان میں اونچے درجے پر ہیں، اس لیے انھیں جیل سے نکل کر گھر میں نظر بند کیا جاتا رہا لیکن کیونکہ ان کی طبیعت مسلسل خراب ہوتی جا رہی تھی تو 2010 میں شاہی خاندان نے انھیں امریکی شہر بوسٹن میں علاج کی غرض سے جانے کی اجازت دے دی۔
لیکن وہاں پہنچتے ہی انھوں نے جو کام کیا اس سے سعودی حکمرانوں میں سنسنی دوڑ گئی ہوگی۔
امریکہ پہنچتے ہی شہزادہ سلطان نے وہاں کی عدالت میں فوجداری مقدمہ درج کرایا جس میں انھوں نے شہزادہ عبدالعزیز اور شیخ صالح ال شیخ پر 2003 میں انھیں اغوا کے لیے مورد الزام ٹھیرایا۔
شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز کے امریکی وکیل کلائیڈ برگ سٹریسر نے ریاض کے کنگ فہد ہسپتال سے شہزادہ سلطان کے طبی ریکارڈ حاصل کیے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے منہ میں سانس لینے کے ٹیوب ڈالی گئی تھی اور ان کے اندرونی اعضا کے معائنے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان پر حملہ کیا گیا جس سے وہ زخمی ہوئے تھے۔
سعودی
Image captionجرمنی میں مقیم شہزادہ خالد
یہ پہلا موقع تھا جب سعودی شاہی خاندان کے کسی فرد نے شاہی خاندان کے ایک اور فرد پر مغربی ملک میں مقدمہ درج کیا ہو۔ لیکن وکیل کلائیڈ برگ سٹریسر کے مطابق سوئس حکام نے اس مقدمے پر کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
'اس کیس میں اب تک کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ کسی نے یہ معلوم نہیں کیا کہ ایئر پورٹ پر کیا ہوا تھا؟ جہاز کے پائلٹ کون تھے؟ جہاز کا فلائٹ پلان کیا تھا؟ یہ کارروائی سوئس سرزمین پر ہوئی تھی لیکن ان کی جانب سے کوئی سوالات نہیں کیے گئے ہیں۔'
جنوری 2016 میں شہزادہ سلطان پیرس کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے جب انھیں شہزادہ سعود بن سیف کی طرح جھانسے میں لایا گیا۔
وہ اپنے والد سے ملنے کے لیے مصر جانا چاہتے تھے اور پیرس میں سعودی سفارت خانے نے انھیں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد، بشمول ان کے ڈاکٹر اور سکیورٹی اہلکار، کو جہاز کی پیشکش کی۔
2003 میں ہونے والے واقعہ کے باوجود حیران کن طور پر شہزادہ سلطان نے یہ پیشکش قبول کر لی۔
ان کے ساتھ جانے والے افراد نے اس واقعہ کی منظر کشی کی۔
'ہم جہاز کے قریب پہنچے تو اس پر سعودی عرب درج تھا۔ ہمیں کچھ عجیب سا لگا کیونکہ جہاز کا تمام عملہ مردوں پر مشتمل تھا۔ جہاز نے جب محو پرواز ہوا تو اس کی منزل قاہرہ تھی لیکن دو گھنٹے بعد جہاز میں لگی سکرین بند ہو گئیں۔'
شہزادہ سلطان کے سٹاف کے مطابق وہ جہاز میں اپنے کیبن میں سو رہے تھے لیکن لینڈنگ سے ایک گھنٹہ پہلے وہ جاگ گئے اور جب کھڑکی سے نیچے دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ جیسے ہی ان کو اور ان کے سٹاف کو اندازہ ہوا کہ وہ مصر کے بجائے سعودی عرب لینڈ کرنے والے ہیں انھوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔
'ہم نے کھڑ کی سے نیچے دیکھا تو ہمیں رائفلیں اٹھائے ہوئے کچھ لوگ نظر آئے جنھوں نے جہاز کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔'
سعودیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
جہاز کے اترتے ہی ان مسلح افراد نے شہزادہ سلطان کو قبضے میں لے لیا اور انھیں لے گئے۔ شہزادہ سلطان چلا چلا کر اپنے سٹاف کو کہا کہ وہ امریکی سفارت خانے سے رابطہ کریں۔
شہزادے کو ان کے ڈاکٹر سمیت ایک بنگلے میں لے جایا گیا جہاں ان کی نگرانی کے لیے مسلح گارڈز کو تعینات کیا گیا۔ جہاز میں سوار باقی افراد کو تین دن کے بعد ان کی مرضی کی منزل پر بھیج دیا گیا۔
شہزادہ سلطان کے سٹاف میں سے ایک نے بتایا کہ 'سعودی حکام کے ایک افسر نے کہا کہ ہم غلط وقت میں غلط جگہ پر تھے اور اس کی وجہ سے ہونے والی مشکلات پر معذرت کی۔'
سٹاف کے ایک اور فرد نے کہا:'مجھے صرف مشکل میں نہیں ڈالا گیا تھا بلکہ مجھے اغوا کیا گیا تھا اور مجھے ایسے ملک میں رکھا گیا جہاں میں اپنی مرضی سے گیا بھی نہیں تھا۔'
یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ شہزادہ سلطان کے علاوہ 18 غیر ملکی باشندوں کو اغوا کر کے ان کی مرضی کے خلاف سعودی عرب لے جایا گیا اور سعودی فوج نے انھیں وہاں خلاف مرضی رکھا۔
اس واقعے کے بعد سے شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز کی کوئی خبر نہیں ملی ہے۔
جب میں نے سعودی حکومت سے ان واقعات اور الزامات کے بارے میں سوالات کیے تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
جرمنی میں پناہ لینے والے شہزادہ خالد کو ڈر ہے کہ ان کو بھی زبردستی سعودی عرب لے جایا جائے گا۔
'ہمارے خاندان کے چار لوگ یورپ میں تھے۔ ہم نے خاندان پر اور ان کی حکومت پر تنقید کی اور ان چار میں سے تین کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ صرف میں باقی بچا ہوں۔'
کیا شہزادہ خالد بھی اغوا ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے؟
'مجھے یقین ہے۔ مجھے بہت عرصے سے پورا یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ اگر وہ ایسا کر سکتے ہوتے تو وہ کر چکے ہوتے لیکن میں بے حد احتیاط برتتا ہوں۔ یہ میری آزادی کی قیمت ہے۔'

متعلقہ عنوانات


No comments:

Post a Comment