ACTION RESEARCH FORUM: BLACK CLOUDS ON MEDIA SPACE BY UNEARTHING BURRIED FACTS, TO KNIT FAKE EISODES TO PRESSURIZE.
LONG LIVE HAMID MIR EXPOSING 'ALMAROOF',
YOUR ENDEVOURS PAY FOR CHANGE IN PAKISTAN ERADICATING FEDUALITY AND PRACTISING RATIONALITY.
GOD MAY BLESS HAMID MIR AND HIS TEAM.
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-41873292
آئی ایس آئی کے مقتول اہلکار کے اغوا کا مقدمہ حامد میر کے خلاف درج
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے ملک کے سینیئر صحافی حامد میر کے خلاف فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ایک مقتول ریٹائرڈ افسر خالد خواجہ کو اغوا کرنے کا مقدمہ درج کیا ہے۔
خالد خواجہ کو سنہ 2010 میں پاکستان کے قبائلی علاقے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
حامد میر اور عثمان پنجابی کے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں خالد خواجہ کے قتل کا ذکر تو موجود ہے لیکن مقدمے میں قتل کی دفعات نہیں لگائی گئیں۔
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ پہلے اغوا ثابت ہوگا تو پھر قتل کے معاملے کو دیکھا جائے گا۔
صحافی حامد میر کے ساتھ دوسرا ملزم عثمان پنجابی ہے جس کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان سے بتایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
خالد خواجہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے لال مسجد آپریشن کے واقعے میں اہم کردار رہے ہیں اور اُنھیں سنہ 2010 میں جنوبی وزیرستان میں قتل کر دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ صحافی حامد میر ان دنوں نجی ٹی وی چینل جیو کے ساتھ منسلک ہیں اور حالات حاضرہ کا پروگرام کرتے ہیں۔
خالد خواجہ اپنی زندگی میں یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ اُنھوں نے القائدہ کے رہنما اسامہ بن لادن سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف پیسے بھی دلوائے تھے تاہم میاں نواز شریف اس کی تردید کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے تھانہ رمنا کی پولیس نے یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کے حکم پر درج کیا ہے جنھوں نے مقتول کی بیوہ کی طرف سے دائر درخواست پر فیصلہ دیا تھا۔
اس درخواست میں حامد میر اور عثمان پنجابی کے درمیان منظر عام پر آنے والی مبینہ گفتگو کا ذکر کیا گیا ہے جس میں وہ خالد خواجہ کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
درخواست گزار شمائما ملک جو کہ مقتول کی بیوہ ہیں کا کہنا تھا کہ حامد میر نے عثمان پنجابی کے ساتھ مل کر ان کے شوہر کو اغوا کیا اور پھر اُنھیں جنوبی وزیرستان میں قتل کر دیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس درخواست پر فیصلہ چند روز پہلے دیا تھا تاہم پولیس کے بقول ان کے پاس اس فیصلے کی مصدقہ نقل نہیں تھی جس کی وجہ سے مقدمہ درج کرنے میں تاخیر ہوئی۔
پولیس کے اعلیٰ حکام نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر اپنی لیگل برانچ سے مزید مشاورت کی جس کے بعد حامد میر اور عثمان پنجابی کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا۔
ان دونوں ملزمان کے خلاف یہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 کے تحت درج کیا گیا ہے جس کی قانون میں سزا سات سال قید اور جرمانہ ہے۔
تھانہ رمنا پولیس کے انچارج انسپکٹر ارشاد ابڑو کا کہنا ہے کہ پہلی بات یہ ہے کہ جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا اس وقت تھانہ رمنا کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور اس کے علاوہ یہ علاقہ جہاں پر مقتول کے ورثا رہائش پذیر ہیں وہ تھانہ شالیمار کی حدود میں آتا ہے۔
حامد میر کی گرفتاری کے بارے میں اسلام آباد کی پولیس ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔
حامد میر کیا کہتے ہیں؟
حامد میر کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے کی خبر سامنے آتے ہی ٹوئٹر پر انھوں نے اس پر اپنا موقف دیتے ہوئے لکھا کہ ’یہ سات سال پرانا مقدمہ ہے، مجھے 2010 میں اسی مقدمے میں عدالت نے بے گناہ قرار دیا گیا تھا اور اب 2017 میں وہی کیس صرف میری آواز دبانے کے لیے درج کیا گیا ہے لیکن جھوٹے مقدموں سے مجھے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔‘
صحافی حامد میر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خالد خواجہ کے قتل کے بارے میں پہلے ان کے بیٹے نے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں جون سنہ 2010 میں درخواست دی جو کہ رد کر دی گئی جس کے بعد اُنھوں نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں بھی درخواست دی۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ جولائی سنہ 2010 میں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے مقتول کے بیٹے کی درخواست مسترد کر کے فیصلہ ان کے حق میں دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ جس وقت یہ فیصلہ دیا گیا اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔
سینیئر صحافی حامد میر نے دعویٰ کیا کہ اُنھیں معلوم ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے کون ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ مقامی صحافی مطیع اللہ جان پر ہونے والے حملے کے واقعے کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیں بلکہ ایک اور صحافی ارشد شریف پر انٹیلیجنس بیورو کی طرف سے جاری کی گئی مبینہ فہرست کے بارے میں درج ہونے والے مقدمے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی صحافیوں کی ٹیم میں بھی شامل ہیں۔
حامد میر کے خلاف مقدمہ ایک ایسے وقت میں درج کیا گیا ہے جب پاکستان میں صحافیوں پر نہ صرف حملے ہو رہے ہیں بلکہ اُنھیں سنگین تنائج کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔
خالد خواجہ کون تھے
سنہ 1987 میں فوج سے جبری ریٹائرمنٹ کے باوجود خالد خواجہ آئی ایس آئی کے لیے مختلف منصوبوں کے لیے کام کرتے رہے اور افغان جہاد میں بھی وہ مختلف معاملوں پر آئی ایس آئی کے لیے مبینہ طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔
خالد خواجہ کے اہل خانہ کے بقول وہ قبائلی علاقے میں طالبان پر ایک دستاویزی فلم بنانے کے لیے گئے تھے جہاں پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں حکام کے مطابق بظاہر اغوا کاروں نے خالد خواجہ کوگولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
خالد خواجہ کے اس اغوا پر مختلف حلقوں کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا جا رہا تھا کیونکہ انہیں بظاہر طالبان کا حامی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اغوا کے چند روز بعد ایک ویڈیو میں خالد خواجہ نے اسلام آباد میں لال مسجد کے واقعے میں خفیہ اداروں کےلیےکام کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ تاہم بظاہر یہ بیان دباؤ کے تحت ان سے دلوایا گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment