Source: http://www.bbc.com/urdu/world-41854983
بیلفور معاہدہ، فلسطین میں مظاہرے، لندن میں تقریب
ایک صدی قبل نومبر 1917 کو بیلفور معاہدہ طے پایا تھا اور برطانوی حکومت نے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ملک کے قیام کے لیے رسمی پالیسی بیان بھی جاری کیا تھا۔ اوپر نظر آنے والی تصویر اسی معاہدے کے سو سال مکمل ہونے کی یاد میں برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ملاقات اور خصوصی عشائیے کے موقع پر لی گی ہے۔ لیکن فلسطین میں دو روز سے مختلف مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
یہ فلطسین کے علاقے بیت الہم کا منظر ہے جہاں مظاہرین اس معاہدہ بیلفور کے روح رواں آرتھر بیلفور کی تصویر کو اٹھائے ہوئے ہیں اور مذمت کا اظہار کرنے کے لیے اس پر ’شیم‘ لکھا گیا ہے۔
اسرائیلی اور یہودی کمیونٹی اس معاہدے کو یادگار سمجھتی ہے اور فلسطینوں کی نظر میں یہ ناانصافی پر مبنی تھا۔ تاہم برطانیہ نے فلسطین کی جانب سے معافی کے مطالبے کو مسترد کر کے کہا تھا کہ اسے اس معاہدے میں اپنے کردار پر فخر ہے۔
غرب اردن میں ایک فلسطینی شخص نے برطانوی وزیراعظم ٹریزامے کی تصویر اٹھا رکھی ہے۔
ہزاروں میل دور لندن میں برطانوی وزیراعظم نے اسرائیلی وزیراعظم کے اعزاز میں عشائیے کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ ’آج کل یہودیوں کے خلاف ایک مضر طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے جس میں اسرائیلی حکومت کی کارروائیوں کو مایوس کن قرار دے کر اسرائیل کے قیام کے وجود پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔‘
غزہ میں مظاہرے کا ایک منظر جہاں ایک عمر رسیدہ شخص نے فلسطین کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ اس معاہدے کے سو سال مکمل ہونے پر غزہ میں ہونے والے مظاہروں کا ایک منظر۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس معاہدے کو مسترد کیا اور اس کے اظہار کے لیے دی گارڈین میں اپنا نقطہ نظر بیان کیں ہے۔
غزہ میں بھی مظاہرے ہوئے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد دکھائی دی۔ اس برطانوی معاہدے نے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی تھی تاہم اس سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعات کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
تیتن یاہو نے لندن میں اپنے خطاب میں کہا کہ معاہدہ بیلفور کے سو برس کے بعد فلسطینوں کو چاہیے کہ وہ یہودیوں کے ملک اور ریاست کو تسلیم کر لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ایسا ہو جائے گا تو امن کی جانب راستہ بہت قریب ہو جائے گا اور ’میرے خیال میں امن حاصل ہو جائے گا۔‘
اطلاعات کے مطابق لیبر پارٹی کے جریمی کوربائین اس عشائیے میں شریک نہیں ہوئے۔
فلسطین کے شہر رملہ میں مظاہرے میں شامل ان خواتین نے اس معاہدے کے بعد گذشتہ ایک صدی کے دوران خطے کے نقشے میں ہونے والی تبدیلیوں کو واضح کیا ہے۔
غرب اردن کے شہر نیبلس میں مظاہرین نے معاہدے کے روح رواں بیلفوڈ اور برطانیہ کی موجودہ وزیراعظم ٹریزامے کے پتلے نذر آتش کیے گئے۔
۔
No comments:
Post a Comment