Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-45540716
انڈین خواتین میں نل بندی کیوں مقبول ہے؟
انڈیا کی ریاست چھتیس گڑھ کے شہر گنیاری کی رہائشی رجی کیوت کے 'ٹیوبل لگیشن'، جو نل بندی کا عام ترین طریقہ ہے، کے بارے میں ملے جلے خیالات تھے۔
وہ اسی عمل سے گزری تھیں۔ سنہ 2014 میں حکومت کے قائم کر دہ نل بندی 'کیمپ' میں آپریشن کے بعد اب وہ اپنی سالی شیو کماری کیوت کو بھی ایسا ہی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
نومبر 2014 میں بیلاس پور شہر میں شیو کماری اور 82 دیگر خواتین ایک ہسپتال میں قطار میں لیٹی ہوئی تھیں۔
سرجن نے ایک ہی آلے انھیں چیرے لگائے اور مبینہ طور پر ہر سرجری کے بعد دستانے بھی تبدیل نہیں کیے۔ وہ خواتین ہسپتال کے فرش پر لیٹی ہوئی تھیں۔
اس رات شیو شیو کمار نے قے شروع کر دی اور انھیں آنتوں میں شدید درد ہوا۔ کچھ ہی دن میں وہ انتقال کر گئیں۔
اگرچہ حکومت کا موقف تھا کہ یہ اموات خراب ادویات کی وجہ سے ہوئیں لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ شیو کمار نے سیپٹکیمیا سے ہوئی جو ممکنا طور پر متاثرہ سرجیکل آلات کے استعمال سے ہوا۔ اس کیمپ میں ان کے سمیت 13 خواتین کی موت ہوئی تھی۔
گھر کا ایک فرد کھو جانے کے باوجود وجی کہتی ہیں کہ اگر کوئی ان سے پوچھے تو تب بھی وہ اسے یہ عمل کرنے کا مشورہ دیں گی۔ اس کی سادہ سی وجہ ہے۔
وہ کہتی ہیں: 'اگر آپ نہیں کریں گے تو آپ کا کنبہ بہت بڑا ہو جائے گا۔'
یہ بھی پڑھیں!
دنیا بھر میں بہت ساری خواتین کی طرح رجی بھی نل بندی کو مانع حمل کا صحیح طریقہ سمجھتی ہیں۔
دنیا بھر میں نل بندی حمل سے پرہیز کا مشہور طریقہ ہے۔
مغربی یورپ، کینیڈا یا امریکہ میں اب بھی گولیوں کا استعمال زیادہ عام ہے لیکن ایشیا اور لاطینی امریکہ سمیت بیشتر ممالک میں خواتین نل بندی کو ترجیح دیتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سنہ 2015 کے سروے کے مطابق عالمی طور پر 19 فیصد شادی شدہ یا کسی بندھن میں بندھی خواتین نل بندی پر بھروسہ کرتی ہیں۔ اس کے 14 فیصد آئی یو ڈی جبکہ صرف نو فیصد گولی پر انحصار کرتی ہیں۔ اور نل بندی انڈیا میں کسی اور ملک کے مقابلے سے زیادہ معروف ہے۔ انڈیا میں نل بندی پر انحصار کرنے والی خواتین کی شرح 39 فیصد ہے۔
مستقل حل
دنیا بھر میں جو خواتین بچے پیدا کرنا نہیں چاہتی یا مزید بچے نہیں چاہتیں ان کے لیے نل بندی ایک محفوظ اور کارآمد طریقہ ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ میں بہت ساری نئی مائیں بچے کی پیدائش کے فورا بعد نل بندی کروا لیتی ہیں جبکہ دیگر خواتین اپنا خاندان مکمل ہونے کے بعد کنڈوم یا گولیوں کے استعمال ترک کر کے نل بندی کر لیتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ ہے کہ انھیں دوبارہ کبھی مانع حمل کے طریقوں کے بارے میں نہیں سوچنا پڑتا۔ اور ایک بار صحت یاب ہونے کے بعد اس کے کوئی مضر اثرات بھی نہیں ہیں۔
لیکن بعض اوقات جیسا کہ چھتیس گڑھ میں ہوا، خواتین نل بندی کی اہمیت کو پوری طرح سمجھے بغیر اس عمل سے گزرتی ہیں، اور وہ بھی غیرمحفوظ حالات میں۔
گنیاری میں شیو کمار کے گھر کے قریب جان سوستھیا سیہوگ ہسپتال کے ڈائریکٹر یوگیس جین کہتے ہیں کہ 'بلاس پور میں جو ہوا وہ المیہ منتظر تھا۔'
وہ ان اموات کا ذمہ دار غریب خواتین کی حقیر سمجھنے والی پالیسیوں کو سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میں اس کے بارے میں دس سال پہلے لکھ سکتا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔' وہ کہتے ہیں خواتین کو 'ایک بچہ دانی اور دو ہاتھوں' کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا جاتا۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی جانب سے چھتیس گڑھ میں نل بندی کیمپ میں ہلاکتوں کی گئی تحقیقات کے مطابق ریاست کی حکومت نے یہ عمل کروانے والی خواتین کو صرف 600 سے 1400 انڈین روپے معاوضہ ادا کیا تھا۔
پی ایف آئی کی ڈائریکٹر پروفرامز سونل شرما کا کہنا ہے کہ تاہم سنہ 2014 کے سانحے کی وجہ سے مرکزی حکومت کو صحت کی خراب صورتحال کا اندازہ ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ انڈین حکومت نے پی ایف آئی کی ایک تجویز کو قبول کیا کہ نل بندی کے 'کیمپ' طریقہ کار پر پابندی عائد کی جائے۔
اس کے بجائے حکومت نے اپنی توجہ 'مخصوص دن' کی سہولیات پر مرکوز کی۔ یعنی خواتین اگر نل بندی کروانا چاہتی ہیں تو ہفتے کے مخصوص دنوں میں مخصوص مراکز آئیں تاکہ ان کی بہتر انداز میں نگرانی اور آپریشن رومز کے بہتر حالت میں دستیاب ہو سکے۔
لیکن کچھ جگہوں پر محدود گھنٹوں کا وقت اس عمل کی مانگ کے لیے کم ثابت ہو رہا ہے۔
مثال کے طور پر بلاس پور سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر منگیلی ضلع کے ہسپتال میں ایک سرجن اب ہفتے میں دو دن کے لیے آتا ہے۔ لیکن وہ صرف 20 سرجریاں کر پاتا ہے جو ضلع کے چیف میڈیکل افسر مکھیا چکٹسا کے مطابق نل بندی کروانے کی خواہش رکھنے والی خواتین کے لیے ناکافی ہیں۔
اگر چھتیس گڑھ میں داغ دار ماضی کے باوجود خواتین میں نل بندی کی مانگ ہے تو خواتین ضرور اسے اب بھی ایک بہترین طریقہ سمجھ رہی ہوں گی۔
لیکن یہ عمل متنازع ہے اور اس کی وجہ صرف بلاس پور میں ہونے والی وہ اموات نہیں ہیں جنھیں بچایا جا سکتا تھا۔
ناقص جواب
صحیح انداز میں اور صاف ستھرے ماحول میں کی گئی نل بندی پھر بھی مردانہ نس بندی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے باوجود بیشتر ممالک میں خواتین کی نل بندی مردانہ نس بندی سے زیادہ مقبول ہے۔
'ٹیوبل لگیٹشن' کی نوعیت سے اخلاقی طور پر خدشات ظاہر ہوتے ہیں: مانع حمل کے دیگر طریقوں کے مقابلے میں، خواتین کی رضا مندی اور اس عمل کو سمجھائے بغیر ان پر لاگو کرنا آسان ہے۔
کنڈوم یا گولی کے استعمال کے لیے خواتین کو کچھ ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک بار نل بندی ہو جائے تو اس کا اپنے تولیدی نظام پر کنٹرول نہیں رہتا۔
حکومتوں نے اس کا غلط استعمال بھی کیا ہے۔ 1990 کی دہائی کے اواخر میں پیرو میں طبی عملہ غریب خواتین کو بتائے بغیر ان کی نل بندی کر دیتے تھے اور اس کے بارے میں دعویٰ کرتے تھے یہ کہ وٹامنز انجیکٹ کیا گیا ہے۔
دوسری مشکل یہ ہے کہ نل بندی خواتین کو دیگر طریقے استعمال نہ کرنے حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔
انڈیا میں بہت ساری نل بندی کروانے والی خواتین نے زندگی میں حمل سے بچنے کے لیے صرف یہی ایک طریقہ استعمال کیا ہے۔ یعنی انھوں نے کبھی بھی آئی یو ڈی یا گولیوں کا استعمال نہیں کیا۔
اس سے صحت کو خطرہ بھی رہتا ہے۔ حمل کے درمیان وقفہ نہ ہونے سے خواتین اور بچوں دونوں میں صحت کے حوالے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس سے موت یا دیگر پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔
اس کا تعلق ملک میں گولی یا آئی یو ڈی کی دستیابی کے فقدان سے ہے، جیسا کہ ایسے تربیت یافتہ عملے کی کمی جو آئی یو ڈی داخل کر سکیں۔ اس کے علاوہ معاشرتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین دیگر طریقوں کے بارے میں بھی کم علم رکھتی ہیں۔
دہلی کے علاقے گریٹر کیلاش میں خواتین کے نجی ہسپتال فورٹس لی فیمی میں تعینات گائناکالوجسٹ مدھو گوئل کہتی ہیں کہ ان کے مریض بھی نل بندی کو ہی مانع حمل کا 'طریقہ' سمجھتے ہیں۔
بڑی عمر کی خواتین کے لیے یہ صحیح ہے لیکن نوجوان مریض بھی دیگر طریقوں کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار کرتی ہیں۔ نوجوان خواتین گولیوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اس سے مستقل بانجھ پن ہو جاتا ہے۔
تاہم مدھو گوئل کہتی ہیں کہ کم از کم ان کی مریضوں میں انڈیا میں سماجی تبدیلی کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین دیگر طریقوں کے بارے میں آگہی حاصل کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں بہت سی خواتین بل بندی ختم کروانا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ نیا خاندان شروع کر سکیں۔
اس میں پالیسی کا بھی اثر و رسوخ ہو سکتا ہے۔ سنہ 2016 میں خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت نے نیشنل پالیسی فار ویمن جاری کی تھی جس میں خواتین کی نل بندی کے بجائے مردوں کی نس بندی پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ پالیسی تاحال عملی طور پر نافذ نہیں ہو سکی۔
وہ بین الاقوامی عناصر جن کی وجہ سے انڈیا میں خواتین کی نل بندی اتنی مشہور ہوئی ہے اس کے اثرات جاتے جاتے بھی وقت لگے لگا۔
No comments:
Post a Comment