Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-45616090
ایرانی شہنشاہوں کی پرتعیش زندگی کی ایک جھلک
حال ہی میں ایران جانے کا اتفاق ہوا اور اگرچہ یہ سفر زیادہ تر مذہبی نوعیت کا تھا لیکن ایران جائیں اور شاہ ایران کے محل کی سیر نہ کی جائے ایسا ممکن نہیں ہے۔
تہران کے لیے ایک دن وقف کیا اور سعدآباد کمپلیکس کی سیر کا منصوبہ بنایا۔
سعد آباد کمپلیکس 110 ہیکٹر پر واقع ہے اور تہران کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اس کمپلیکس میں 18 محلات ہیں جہاں قاچار اور پہلوی شاہی خاندان مقیم رہے۔
یہ کمپلیکس قاچار شاہی خاندان نے 19 ویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ بعد میں اس میں توسیع کی گئی اور پہلوی شاہی خاندان کے رضا شاہ پہلوی اس میں 1920 کی دہائی میں، جب کہ 1970 کی دہائی میں ان کے بیٹے محمد رضا پہلوی اس کے مکین رہے۔
ایرانی انقلاب کے بعد اس کمپلیکس کو عجائب گھر بنا دیا گیا۔
محلات کے اس کمپلیکس میں داخل ہونے کے آٹھ دروازے ہیں لیکن صرف دو دروازے عوام کے لیے کھلے ہیں، داربند سکوائر اور زعفرینہ دروازہ۔
محلات کے اس کمپلیکس کے اندر داخل ہونے سے قبل آپ کو ٹکٹ لینا ہوتا ہے اور ہر محل کا علیحدہ ٹکٹ ہے۔ اس لیے آپ کو پہلے ہی سے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ نے کہاں جانا ہے۔
سب سے مہنگے ٹکٹ گارڈن میوزیم، ملت محل میوزیم، جس کو وائٹ پیلس بھی کہا جاتا ہے، اور گرین پیلس میوزیم کے ہیں۔
لیکن ایک محل کے اندر بھی کئی مختلف سیکشن بنائے گئے ہیں اور ہر سیکشن کا علیحدہ ٹکٹ ہے۔
میں نے فیصلہ کیا کہ وائٹ پیلس یعنی ملت محل ہی جایا جائے۔ سعد آباد کمپلیکس میں میں دربند سکوائر کے دروازے سے داخل ہوا۔
یہاں کشادہ سڑکوں اور باغات نے ہمارا استقبال کیا۔
وائٹ پیلس سعد آباد کمپلیکس میں سب سے بڑی عمارت ہے۔ یہ عمارت رسومات اور سرکاری کاموں کے علاوہ پہلوی خاندان کے دوسرے بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی اور ملکہ فرح دیبا کی موسم گرما کی رہائش گاہ بھی تھی۔
پہلوی خاندان کے پہلے بادشاہ رضا شاہ نے 1932 میں اس محل کی تعمیر کا حکم دیا جو 1937 میں مکمل ہوئی۔ لیکن اس کو استعمال 1940 سے کیا گیا۔
اس محل کو ڈیزائن خورسندی نے کیا۔ اس محل کا رقبہ پانچ ہزار مربع میٹر ہے اور تہہ خانے کے علاوہ دو منزلیں ہیں۔ اس عمارت میں 54 کمرے ہیں جن میں تقریبات کے لیے دس کشادہ کمرے ہیں اور اس میں سب سے بڑا ڈائننگ روم ہے جو 220 مربع میٹر پر محیط ہے۔
وائٹ پیلس کے سامنے آرش کمانگیر کا مجسمہ ہے جو ایرانی افسانوی کہانیوں کا بہادر کردار ہے۔
محل میں بلیئرڈ روم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی دیواریں لکڑی کی ہیں جبکہ اس کمرے کی لائٹیں 19 ویں صدی کے آخر میں انگلینڈ سے منگوائی گئی تھیں۔ اس کمرے میں دنیا کے نقشے کا گلوب بھی ہے، 19 ویں صدی کی تاش کھیلنے کی میز کے ساتھ ساتھ چیکوسلوواکیہ کے بنے ہوئے وائن گلاسز بھی موجود ہیں۔
یہ شاہی بیٹھک کا ہال ہے جس کی دیواروں پر کپڑا چڑھا ہوا ہے، کرسٹل کا فانوس ہے، 20 صدی میں مشہد میں تیار کردہ قالین اور جرمنی کا رنگین ٹی وی ہے۔ اگرچہ وائٹ پیلس کو باہر سے دیکھنے میں محل کا تاثر نہیں ملتا لیکن اس کے اندر قیمتی اشیا شاہی محل کی غمازی کرتی ہیں۔
تمام کمرے بند ہیں اور شیشوں کے دروازوں سے آپ شاہی ٹھاٹ باٹ کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
محل کی دوسری منزل پر ملکہ کا بیڈروم، گرینڈ ڈائننگ ہال، تقریبات کا ہال، میوزک ہال، ملکہ فرح دیبا کا کمرہ، بیٹھک کا ہال اور بادشاہ کا کمرہ واقع ہے۔
دوسری منزل میں داخل ہوتے ہی مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے جس میں بچھا قالین کاشان میں تیار کیا گیا۔ چاروں اطراف بڑی بڑی آئل پینٹنگز ہیں جو حسین طاہر زادے بہزاد کی ہیں جو شاہ نامۂ فردوسی کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ شاہ نامہ ایک طویل نظم ہے جو اسلام سے قبل کے ایران کے بارے میں ہے۔ اس 62 کہانیاں ہیں جو 990 ابواب میں بیان کی گئی ہیں۔
یہ تقریبات کا ہال ہے جہاں پر سرکاری اجلاس اور سفیر اپنی اسناد بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کو پیش کیا کرتے تھے۔
چھت پر پلاسٹر کے اوپر پتلی سی سونے کی تہہ ہے۔
شاہی ڈائننگ ہال کے لیے ہر وقت کے کھانے کی میزیں مختلف ہیں۔ ہر میز پر لکھا ہوا ہے کہ شاہی خاندان ناشتہ ایک میز پر کرتا تھا تو دوپہر کا کھانا دوسری اور شام کی چائے تیسری تو رات کا کھانا کسی اور میز پر کھاتا تھا۔
ملکہ فرح دیبا کے بیڈروم میں بستر کے بیڈ کور اور پردے کرسچن ڈیور کے ہیں جو ہاتھ سے بنے ہوئے ہیں۔ کمرے میں فرانس کا بنی ہوئی بجلی سے چلنے والی مساج مشین بھی ہے اور کم و بیش تمام اشیا فرانس کی ہیں یا انگلینڈ کی۔
بادشاہ کے دفتر کے تمام کھڑکیوں کے شیشے بلٹ پروف تھے اور رسومات کے ہال کی طرح اس کمرے کی چھت پر سونے کی باریک تہہ لگی ہوئی ہے۔
میز پر محمد رضا شاہ کا گھوڑے پر سوار مجسمہ پڑا ہے جس کو ڈینو ایڈٹری نے بنایا۔ اس مجسمے پر لکھا ہے ’شاہ اور لوگوں کے انقلاب کوئی سمندر، پہاڑ یا دریا کا کنارہ نہیں ہے۔‘
یہ انسانی تہذیب کے تیسرے ہزاریے کے آغاز کی نوید دیتا ہے جو محمد رضا شاہ پہلوی کے تخیل سے شروع ہو گا۔
وائٹ پیلس کے گرینڈ ڈائننگ ہال میں آخری عشائیہ امریکہ کے 39 ویں صدر جمی کارٹر اور اردن کے بادشاہ حسین کے اعزاز میں دیا گیا تھا۔
اس ہال کے دائیں جانب ایک شیشے کا دروازہ ہے جہاں سے شاہ ایران اور ملکہ دیبا ہال میں داخل ہوتے تھے۔ ہال میں چینی مٹی سے بنے دو گلدان بھی ہیں جن پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔
گرینڈ ویٹنگ ہال کے شیشے بھی بلٹ پروف ہیں اور دیواروں پر کپڑا چڑھا ہوا ہے۔ اس ہال میں محمد رضا شاہ، فرح دیبا اور ولی عہد کا کانسی کا مجسمہ ہے جس پر لکھا ہے: ’شاہ رخ شاہ بازی نے سکلپچر میں گریجویٹ کیا۔‘
اس کے علاوہ کانسی کے دو اور مجسمے بھی ہیں جو 1976 میں بنائے گئے۔ ایک محمد رضا شاہ کا ہے اور ایک ملکہ فرح دیبا کا۔
بادشاہ کے کمرے کے خاص بات یہ ہے کہ ان کا بستر جوزفین کے بستر کے سٹائل کا ہے۔ جوزفین نپولین کی اہلیہ تھیں۔
۔
No comments:
Post a Comment