Wednesday, 26 September 2018

KINGS: IRAN SPEIIOUS LIVINGS


Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-45616090

ایرانی شہنشاہوں کی پرتعیش زندگی کی ایک جھلک

ایرانتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
حال ہی میں ایران جانے کا اتفاق ہوا اور اگرچہ یہ سفر زیادہ تر مذہبی نوعیت کا تھا لیکن ایران جائیں اور شاہ ایران کے محل کی سیر نہ کی جائے ایسا ممکن نہیں ہے۔
تہران کے لیے ایک دن وقف کیا اور سعدآباد کمپلیکس کی سیر کا منصوبہ بنایا۔
سعد آباد کمپلیکس 110 ہیکٹر پر واقع ہے اور تہران کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اس کمپلیکس میں 18 محلات ہیں جہاں قاچار اور پہلوی شاہی خاندان مقیم رہے۔
یہ کمپلیکس قاچار شاہی خاندان نے 19 ویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ بعد میں اس میں توسیع کی گئی اور پہلوی شاہی خاندان کے رضا شاہ پہلوی اس میں 1920 کی دہائی میں، جب کہ 1970 کی دہائی میں ان کے بیٹے محمد رضا پہلوی اس کے مکین رہے۔
ایرانی انقلاب کے بعد اس کمپلیکس کو عجائب گھر بنا دیا گیا۔
محلات کے اس کمپلیکس میں داخل ہونے کے آٹھ دروازے ہیں لیکن صرف دو دروازے عوام کے لیے کھلے ہیں، داربند سکوائر اور زعفرینہ دروازہ۔
محلات کے اس کمپلیکس کے اندر داخل ہونے سے قبل آپ کو ٹکٹ لینا ہوتا ہے اور ہر محل کا علیحدہ ٹکٹ ہے۔ اس لیے آپ کو پہلے ہی سے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ نے کہاں جانا ہے۔
سب سے مہنگے ٹکٹ گارڈن میوزیم، ملت محل میوزیم، جس کو وائٹ پیلس بھی کہا جاتا ہے، اور گرین پیلس میوزیم کے ہیں۔
لیکن ایک محل کے اندر بھی کئی مختلف سیکشن بنائے گئے ہیں اور ہر سیکشن کا علیحدہ ٹکٹ ہے۔
میں نے فیصلہ کیا کہ وائٹ پیلس یعنی ملت محل ہی جایا جائے۔ سعد آباد کمپلیکس میں میں دربند سکوائر کے دروازے سے داخل ہوا۔
یہاں کشادہ سڑکوں اور باغات نے ہمارا استقبال کیا۔
ایرانتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
وائٹ پیلس سعد آباد کمپلیکس میں سب سے بڑی عمارت ہے۔ یہ عمارت رسومات اور سرکاری کاموں کے علاوہ پہلوی خاندان کے دوسرے بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی اور ملکہ فرح دیبا کی موسم گرما کی رہائش گاہ بھی تھی۔
پہلوی خاندان کے پہلے بادشاہ رضا شاہ نے 1932 میں اس محل کی تعمیر کا حکم دیا جو 1937 میں مکمل ہوئی۔ لیکن اس کو استعمال 1940 سے کیا گیا۔
اس محل کو ڈیزائن خورسندی نے کیا۔ اس محل کا رقبہ پانچ ہزار مربع میٹر ہے اور تہہ خانے کے علاوہ دو منزلیں ہیں۔ اس عمارت میں 54 کمرے ہیں جن میں تقریبات کے لیے دس کشادہ کمرے ہیں اور اس میں سب سے بڑا ڈائننگ روم ہے جو 220 مربع میٹر پر محیط ہے۔
وائٹ پیلس کے سامنے آرش کمانگیر کا مجسمہ ہے جو ایرانی افسانوی کہانیوں کا بہادر کردار ہے۔
ایرانتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
محل میں بلیئرڈ روم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی دیواریں لکڑی کی ہیں جبکہ اس کمرے کی لائٹیں 19 ویں صدی کے آخر میں انگلینڈ سے منگوائی گئی تھیں۔ اس کمرے میں دنیا کے نقشے کا گلوب بھی ہے، 19 ویں صدی کی تاش کھیلنے کی میز کے ساتھ ساتھ چیکوسلوواکیہ کے بنے ہوئے وائن گلاسز بھی موجود ہیں۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
یہ شاہی بیٹھک کا ہال ہے جس کی دیواروں پر کپڑا چڑھا ہوا ہے، کرسٹل کا فانوس ہے، 20 صدی میں مشہد میں تیار کردہ قالین اور جرمنی کا رنگین ٹی وی ہے۔ اگرچہ وائٹ پیلس کو باہر سے دیکھنے میں محل کا تاثر نہیں ملتا لیکن اس کے اندر قیمتی اشیا شاہی محل کی غمازی کرتی ہیں۔
تمام کمرے بند ہیں اور شیشوں کے دروازوں سے آپ شاہی ٹھاٹ باٹ کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
محل کی دوسری منزل پر ملکہ کا بیڈروم، گرینڈ ڈائننگ ہال، تقریبات کا ہال، میوزک ہال، ملکہ فرح دیبا کا کمرہ، بیٹھک کا ہال اور بادشاہ کا کمرہ واقع ہے۔
دوسری منزل میں داخل ہوتے ہی مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے جس میں بچھا قالین کاشان میں تیار کیا گیا۔ چاروں اطراف بڑی بڑی آئل پینٹنگز ہیں جو حسین طاہر زادے بہزاد کی ہیں جو شاہ نامۂ فردوسی کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ شاہ نامہ ایک طویل نظم ہے جو اسلام سے قبل کے ایران کے بارے میں ہے۔ اس 62 کہانیاں ہیں جو 990 ابواب میں بیان کی گئی ہیں۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
یہ تقریبات کا ہال ہے جہاں پر سرکاری اجلاس اور سفیر اپنی اسناد بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کو پیش کیا کرتے تھے۔
چھت پر پلاسٹر کے اوپر پتلی سی سونے کی تہہ ہے۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
شاہی ڈائننگ ہال کے لیے ہر وقت کے کھانے کی میزیں مختلف ہیں۔ ہر میز پر لکھا ہوا ہے کہ شاہی خاندان ناشتہ ایک میز پر کرتا تھا تو دوپہر کا کھانا دوسری اور شام کی چائے تیسری تو رات کا کھانا کسی اور میز پر کھاتا تھا۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
ملکہ فرح دیبا کے بیڈروم میں بستر کے بیڈ کور اور پردے کرسچن ڈیور کے ہیں جو ہاتھ سے بنے ہوئے ہیں۔ کمرے میں فرانس کا بنی ہوئی بجلی سے چلنے والی مساج مشین بھی ہے اور کم و بیش تمام اشیا فرانس کی ہیں یا انگلینڈ کی۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
ایرانتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
Image captionملکہ کے کمرے میں موجود میک اپ کی ٹیبل
بادشاہ کے دفتر کے تمام کھڑکیوں کے شیشے بلٹ پروف تھے اور رسومات کے ہال کی طرح اس کمرے کی چھت پر سونے کی باریک تہہ لگی ہوئی ہے۔
میز پر محمد رضا شاہ کا گھوڑے پر سوار مجسمہ پڑا ہے جس کو ڈینو ایڈٹری نے بنایا۔ اس مجسمے پر لکھا ہے ’شاہ اور لوگوں کے انقلاب کوئی سمندر، پہاڑ یا دریا کا کنارہ نہیں ہے۔‘
یہ انسانی تہذیب کے تیسرے ہزاریے کے آغاز کی نوید دیتا ہے جو محمد رضا شاہ پہلوی کے تخیل سے شروع ہو گا۔
ایرانتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
ایرانتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
وائٹ پیلس کے گرینڈ ڈائننگ ہال میں آخری عشائیہ امریکہ کے 39 ویں صدر جمی کارٹر اور اردن کے بادشاہ حسین کے اعزاز میں دیا گیا تھا۔
اس ہال کے دائیں جانب ایک شیشے کا دروازہ ہے جہاں سے شاہ ایران اور ملکہ دیبا ہال میں داخل ہوتے تھے۔ ہال میں چینی مٹی سے بنے دو گلدان بھی ہیں جن پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
گرینڈ ویٹنگ ہال کے شیشے بھی بلٹ پروف ہیں اور دیواروں پر کپڑا چڑھا ہوا ہے۔ اس ہال میں محمد رضا شاہ، فرح دیبا اور ولی عہد کا کانسی کا مجسمہ ہے جس پر لکھا ہے: ’شاہ رخ شاہ بازی نے سکلپچر میں گریجویٹ کیا۔‘
اس کے علاوہ کانسی کے دو اور مجسمے بھی ہیں جو 1976 میں بنائے گئے۔ ایک محمد رضا شاہ کا ہے اور ایک ملکہ فرح دیبا کا۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
بادشاہ کے کمرے کے خاص بات یہ ہے کہ ان کا بستر جوزفین کے بستر کے سٹائل کا ہے۔ جوزفین نپولین کی اہلیہ تھیں۔
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
ایرانتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
سعد آباد محلتصویر کے کاپی رائٹRAZA HAMDANI
۔

No comments:

Post a Comment