Source: https://www.bbc.com/urdu/world-45409833
امریکہ میں ایشیائی لوگوں کی شبیہہ بدلنے کی ایک کوشش
ایک دن جب جیو میراویلا امریکہ کی ریاست ٹیکسس کے مشہور شہر ہیوسٹن میں ایک میکڈونلڈز میں بیٹھے برگر اڑا رہے تھے تو انھوں نے جو منظر دیکھا اس نے جیو کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔
جیو نے دیکھا کہ ریستوران کی دیواروں پر جو تصویریں لگی تھیں ان میں ایک نسلی گروہ کے لوگ نظر نہیں آ رہے تھے، اور وہ تھے ایشیائی باشندے۔
جیو کا اپنا تعلق ایک فلپائنی خاندان سے ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اسی دِن انھوں نے اس کمی کو پورا کرنے کی ٹھان لی اور اپنے ایک دوست کرسچن ٹولیڈو سے رابطہ کیا۔
انھوں نے منصوبہ بنایا کہ وہ کسی کو بتائے بغیر میکڈونلڈز میں ایک نیا پوسٹر لگا دیں گے جس میں وہ دونوں خود موجود ہوں گے۔
صاف ظاہر ہے کہ پہلا قدم ایک ایسا پوسٹر بنانا تھا۔ جیو نے فیصلہ کیا کہ بہترین پوسٹر وہ ہو گا جس میں دونوں دوست کالج کے سٹوڈنٹس نظر آ رہے ہوں۔
جیو کے بقول دونوں نے اپنی تصویر والا ایک پوسٹر بنایا اور اس پر اسی قسم کے نشان بنائے جیسے میکڈونلڈز والوں نے اپنے ہاں آویزاں پوسٹرز پر بنائے ہوئے تھے۔ پھر انھوں نے یہ نمونہ پوسٹر بنانے والی ایک کمپنی کو بھیج دیا۔
خفیہ کارروائی
جب دونوں کی تصویر والا پوسٹر بن کر آ گیا تو اگلا مسئلہ یہ تھا کہ سب سے نظریں بچا کر اس پوسٹر کو ریستوران میں اپنی پسند کی جگہ لگائیں کیسے؟
جیسا چوری یا ڈکیتی والی فلموں میں ہوتا ہے، اس کی نقل کرتے ہوئے جیو نے اپنے دوستوں کا ایک گروپ ساتھ لیا اور میکڈونلڈز کی جانب چل پڑے۔
’مجھے کم از کم تین دوست درکار تھے، ایک وہ جو اس کارروائی کو اپنے فون پر ریکارڈ کرے اور دو مزید لوگ جو دیوار پر تصویر لگانے میں میری مدد کرتے۔‘
جیو کے دوست عام خریداروں کے روپ میں تھے جبکہ جیو نے خود میکڈونلڈز کے سٹاف والی شرٹ پہنی جس پر لکھا تھا ’ریجینل انٹیرئر ڈیزائنر‘۔
وہ ایک گھنٹے تک مناسب وقت کا انتظار کرتے رہے۔ جیو کے بقول ’میں بہت زیادہ نروس ہو رہا تھا‘۔
لیکن جب وہ لمحہ آن پہنچا تو انھوں نے پوسٹر دیوار پر لگا دیا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔
’چونکہ ہم دیوار خراب نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے ہم نے پوسٹر کے پیچھے گوند کی بجائے ٹیپ لگا دی۔‘
جیو اور ان کے دوستوں نے یہ حرکت 13 جولائی کو کی اور آج تک ان کا پوسٹر اسی دیوار پر لگا ہوا ہے۔
جیو کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ کام ایک شرارت تھی، لیکن وہ ایک سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہ رہے تھے اور وہ ہے امریکی معاشرے میں ایشیائی لوگوں کی نمائندگی، چاہے وہ میکڈونلڈز ہو یا ہالی وُڈ کی فلمیں۔
’ہم سب مساوی سلوک کے مستحق ہیں اور تمام نسلوں کے لوگوں کی شناخت ہونی چاہیے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میکڈونلڈز نے اپنے اشتہاروں میں ایشیائی لوگوں کو کیوں شامل نہیں کیا، لیکن میڈیا میں اکثر ایشیائی مردوں کو کڑیل نہیں دکھایا جاتا اور ایشیائی خواتین کو محض پیاری لڑکیوں کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔‘
’جب میں بڑا ہو رہا تھا تو اس وقت فلموں میں ایشیائی لوگوں کو صرف مارشل آرٹ کے ماہر یا کسی مزاحیہ کردار میں دکھایا جاتا تھا۔‘
جیو کہتے ہیں کہ انھیں خدشہ تھا کہ ان کے والدین ان سے خفا ہوں گے لیکن وہ اتنے محظوظ ہوئے کہ خود میکڈونلڈز جا کر ہماری تصویر کے ساتھ تصویر بنوائی۔
جیو نے میکڈونلڈز میں تصویر لگانے کے بعد ٹوئٹر پر جو تصویر لگائی اسے اب تک ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ مرتبہ شیئر اور چھ لاکھ سے زیادہ مرتبہ دوبارہ ٹویٹ کیا جا چکا ہے۔
انھوں نے اپنی ویڈیو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کی جسے ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ ’بڑے بڑے دولت مند ایشیائی لوگوں کو بھول جائیں۔ ہماری اصل نمائندی میکڈونلڈز والا پوسٹر کرتا ہے۔‘
No comments:
Post a Comment