Monday 17 September 2018

UZBUKISTAN, LAND OF SOFI TOMBS, SAMARQAND, BUKHARA,..


Source: https://www.bbc.com/urdu/world-45538873

ازبکستان: ہزاروں مزاروں کی سرزمین

بخارا کا میر عرب مدرسہ
Image captionازبکستان میں سینکڑوں مقدس مقامات ہیں جہاں لاکھوں زائرین آتے ہیں
ازبکستان دنیا بھر کے زائرین کا مرکز بننے کا آرزومند رہا ہے۔ وہ دوسرا مکہ بننا چاہتا ہے۔
وسط ایشیا کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں شاہراہ ریشم پر آباد سمرقند اور بخارا جیسے شہروں میں بڑی بڑی مساجد اور مقبرے ہیں جو انتہائی اچھے حال میں ہیں۔
لاکھوں ازبک باشندوں کے لیے یہ مقدس مقامات ہیں جبکہ دہائیوں کی تنہائی اور مطلق العنان دور سے باہر آنے کے بعد وہاں کی حکومت کے لیے یہ تاریخی وراثت سیاحت کو فروغ دینے کا بڑا موقع فراہم کرتی ہے۔
سمرقند میں درجنوں خوبصورت مزار ہیں جن میں بادشاہ تیمور لنگ، ماہر فلکیات الغ بیگ اور قثم ابن عباس شامل ہیں۔ قثم جنھیں ازبکستان میں زندہ پیر کے نام سے جانا جاتا ہے وہ حضرت محمد کے چچازاد بھائی عباس کے بیٹے تھے اور اس علاقے میں انھوں نے ہی پہلے پہل اسلام سے لوگوں کو متعارف کرایا۔
تیمور لنگ کا مزار
Image captionسمرقند میں بہت سے معروف عالم فاضل اور سائنسدانوں کے مزار ہیں
یہ ایک مزار ایسا ہے جو دوسروں سے یکسر مختلف ہے۔ ہر صبح سنکڑوں افراد شہر کے باہر پہاڑی پر موجود عجیب طرز تعمیر کے مزار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ یہ مزار پستے اور خوبانی کے درختوں کے درمیان پرانے شہر میں موجود ہے۔
یہاں کی فضا میں چڑیوں کی چہچہاہٹ اور دعا و مناجات کی آوازیں گونجتی ہیں۔ یہاں آنے والے زائرین اہل خانہ کے ساتھ بینچوں پر کھاتے پیتے نظر آتے ہیں جبکہ نوجوان اس کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

یہاں آنے والے زائرین میں صرف مسلمان شامل نہیں ہیں کیونکہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پیغمبر حضرت دانیال یا دانیار کا مزار ہے۔ مقامی زبان میں انھیں دانیار کہا جاتا ہے۔
فردوسی نامی ایک نوجوان گائڈ بتاتے ہیں کہ کہ 'مسلم، یہودی اور مسیحی سب یہاں آتے ہیں اور اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ سینٹ دانیال یہودی تھے لیکن مسلمان انھیں اللہ کا پیغمبر مانتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔'
حضرت دانیال کے مزار پر
Image captionازبکستان ایک مسلم ملک ہے اور یہاں آنے والے زائرین میں زیادہ تر مقامی باشندے ہوتے ہیں
دلرابو اپنی بیٹی اور پوتی کے ساتھ حضرت دانیال کے مزار پر حاضری کے لیے آئی ہیں
Image captionدلرابو اپنی بیٹی اور پوتی کے ساتھ حضرت دانیال کے مزار پر حاضری کے لیے آئی ہیں
دلرابو نامی ایک خاتون کہتی ہیں: 'میں اکثر یہاں آتی ہوں اور ان کی روح کے لیے ایصال ثواب کرتی ہوں۔ وہ صرف یہودیوں کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ساری انسانیت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان سے عقیدت کے لیے میں نے اپنے پوتے کا نام دانیار رکھا ہے۔'
دلرابو اپنی بیٹی ستورا اور پوتی کے ساتھ آئی ہیں۔ نماز کے بعد وہ قبر کی زیارت کے لیے قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ غیرمعمولی عمارت 20 میٹر سے زیادہ لمبی ہے اور عہد وسطی کے اسلامی طرز میں سینڈ کلر اینٹوں سے بنائی گئی ہے۔ اس میں محراب و گنبد بھی ہیں۔
مزار یا مقبرے میں 18 میٹر لمبی قبر یا تابوت ہے جو گہرے سبز مخمل کے کپڑے سے ڈھکی ہے اور اس پر قرآن کی آیتیں سونے کے حروف میں لکھی ہیں۔
لوگ اپنی زیارت کے اختتام پر اس صدیوں پرانے پستے کے درخت کو چھو کر کرتے ہیں جہاں وہ منت مانگتے ہیں
Image captionلوگ اپنی زیارت کے اختتام پر اس صدیوں پرانے پستے کے درخت کو چھو کر کرتے ہیں جہاں وہ منت مانگتے ہیں
یہ دنیا میں ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ عبادت کرتے ہیں۔
اسرائیل سے آنے والی سیاح سوزانے کہتی ہیں: 'میں یہودن ہوں اور میں چاہوں تو میں یہاں عبادت کر سکتی ہوں اسی طرح مسیحی بھی یہاں عبادت کر سکتے ہیں۔ یہ ازبیک کی رواداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ جگہ لوگوں کو جوڑتی ہے۔'
ماسکو سے آنے والی کرسٹینا کہتی ہیں کہ ان کے دوست روس سے یہاں آئے کہ انھیں شفا نصیب ہو۔ 'اور اب وہ صحت مند ہیں۔'
ازبکستان میں جادو ٹونے اور بزرگوں کی مزاروں یا مقدس مقامات پر مرادیں پوری ہونے اور صحت یاب ہونے پر قدیم زمانے سے یقین پایا جاتا ہے۔ اور ان مقامات کی زیارت کا سلسلہ شمن، بدھ مت اور آتش پرست زرتشتوں کے زمانے سے جاری ہے۔
یہاں تک کہ 1200 سال سے زیادہ عرصے تک اسلام کی موجودگی بھی یہاں کے لوگوں کے ان عقائد میں تبدیلی نہیں لا سکی۔ اس لیے جائے حیرت نہیں کہ حضرت دانیال کے مقبرے کے ساتھ بھی مختلف کہانیاں گردش کرتی ہوں۔
حضرت دانیال کا مزار سمرقند میں ہے
Image captionحضرت دانیال کی قبر کے بارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں
آخر حضرت دانیال کی قبر 18 میلٹر لمبی کیوں ہے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بہت لمبے تھے جبکہ بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ ہر سال ان کی قبر از خود لمبی ہوتی جا رہی ہے۔
ازبکستان میں سینکڑوں مزارات ہیں جن میں سے بہت سوں کو سویت دور میں یا تو بند کر دیا گیا تھا یا پھر بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
ایک مدرسے کے سابق طالب علم خورشید یلدوشیو کہتے ہیں: 'وسط ایشیا میں اسلام بہت روادار ہے، سب کو سما لینے والا اور مقامی روایت سے ہم آہنگ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں مذہب کو روادار کہا جاتا ہے۔ مزاروں پر حاضری دینا ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے اور سیاسی اسلام سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مقامات پرامن ہیں۔'
دارالحکومت تاشقند میں معروف زنگی اوٹا مزار
Image captionخواتین کو دارالحکومت تاشقند میں معروف زنگی اوٹا مزار پر دعائیں مانگتے دیکھا جا سکتا ہے
ازبکستان کی حکومت ایک عرصے سے سیاسی اسلام سے خائف رہی ہے۔ اسلام کریموف کے 26 سالہ آمرانہ دور میں ہزاروں مسلمانوں کو قید ہوئی تھی۔
اب ازبکستان بدل رہا ہے۔ رواں صدر شوکت مرزایوف نے مزید مذہبی آزادی کا وعدہ کیا ہے۔ وہ کریموف کی موت کے بعد صدر بنے تھے۔
دارالحکومت تاشقند میں تازہ قائم کردہ اسلامی ثقافتی مرکز کے سربراہ شوازم مینوواروف کا کہنا ہے کہ 'حکومت ان لوگوں کو رہا کر رہی ہے جنھیں واقعی میں اپنے کیے پر افسوس ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ لادین سویت یونین میں رہنے والوں میں کمیونزم کے خاتمے پر علم اور سمجھ کی کمی تھی۔
نوے کی دہائی میں سنیکڑوں مایوس نوجوانوں نے طالبان اور القاعدہ جیسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی۔اب حکومت کا خیال ہے کہ مقامی روایات سے ہم آہنگی سخت گیری کو جواب دے گی۔
مینوواروف نے کہا: 'سخت گیری لاعلمی کا نتیجہ تھا اور ہم اپنے لوگوں کو روشن خیالی والے اسلام پڑھانا چاہتے ہیں۔'
بخارا
Image captionشاہراہ ریشم پر آباد شہر بخارا میں بہت سے مزار ہیں جن میں امام بخاری کا مزار بھی شامل ہے
امیر تیمور کے مزار کے شاندار گنبد کا اندرونی حصہ
Image captionامیر تیمور کے مزار کے شاندار گنبد کا اندرونی حصہ
کسی کو یہ علم نہیں کہ ازبکستان میں کتنے مزار ہیں۔ بعض حکام ان کی تعدا 2000 بتاتے ہیں۔ اور یہ وہ دولت ہے جس سے حکومت اپنی سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے۔
ازبکستان کی ٹورزم کمیٹی کے نائب سربراہ عبدالعزیز عقولوف کہتے ہیں کہ گذشتہ سال تقریبا نوے لاکھ ازبیک باشندوں نے زیارت کی۔
بیرونی زائرین کی تعداد ابھی کم ہے۔ ایک سال میں تقریبا 20 لاکھ زائرین آئے لیکن اب ازبکستان نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں کھول دی ہیں اور دوسرے ممالک کے لیے ویزے کے قانون میں نرمی لائی گئی ہے۔
عقولوف کہتے ہیں کہ دنیا کے معروف عالم امام بخاری یا بہاء الدین نقش بندی ازبکستان میں دفن ہیں۔ یہاں انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی اور ہندوستان سے لاکھوں زائرین آ سکتے ہیں۔
بہت مواقع ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں صرف حضرت بہاءالدین نقشبندی کے عقیدت مندوں کی تعداد ایک کڑور ہے اور ان کے مزار بخارا میں ان کے مزار کی زیارت کے لیے بہت سے لوگوں کی امید کی جاسکتی ہے۔
سمرقند میں حضرت دانیال کے مزار پر دلرابو اور ان کی بیٹی نے اپنی زیارت مکمل کر لی ہے۔ جب لوگ اپنی شیرینی کھا چکے تو سیتورا کی چھوٹی بچی اپنی مٹھائی بنچ پر چھوڑ کر پرانے پستے کے درخت کے پاس جاتی ہے اور اس کے پاس دھیرے سے منت مانگتی ہے۔
تمام تصاویر بی بی سی کی ہیں

No comments:

Post a Comment