Wednesday 31 May 2017

HONGKONG: HOW CITY JUNK DISPOSED

Source: http://www.bbc.com/urdu/science-40102809 


ہانگ کانگ میں فضلہ کیسے تلف کیا جائے؟

فضلہتصویر کے کاپی رائٹALAMY
جب میں چان کنگ منگ سے پہلی بار چائینیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں ملا تو اس وقت میں یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ یہ وہ علاقہ ہے جو ماحولیاتی تباہی کا سامنا کر رہا ہے۔
ہم دونوں موسم بہار کی ایک پرفضا صبح کو یونیورسٹی کے سر سبز کیمپس پر ایک دوسرے کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ درختوں کے درمیان سے میں سورج کی روشنی میں چمکتے ہوئے سمندر کو دیکھ سکتا تھا اور اس کے پیچھے واقع اونچی اونچی عمارتیں اور ان کے پیچھے پہاڑ کی چوٹی بھی نظر آ رہی تھی۔ اس پورے منظر میں مجھے ایک جگہ بھی کوئی ردی میں پھینکا ہوا اخبار یا کوئی پلاسٹک کی بوتل نظر نہیں آئی۔
لیکن یہ نظر کا دھوکا ہے۔
ہانگ کانگ شاید اوپر اوپر سے دیکھنے میں صاف لگتا ہے لیکن اس کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے والے ادارے شہر کے کوڑے کرکٹ کو قابو میں رکھنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
تمام تر کوششوں کے باوجود ہانگ کانگ کے خطے نے سال 2015 کے دوران 3.7 ارب ٹن فضلہ پیدا کیا جو کہ گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ تھا۔ ہانگ کانگ میں فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے 13 لینڈ فل سائٹس کو استعمال کیا جا چکا ہے اور مستقبل میں ان 13 میں سے 10 کو پارک، گالف کورس اور کھیل کے میدانوں کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
لیکن خدشہ یہ ہے کہ جس تیزی کے ساتھ ہانگ کانگ میں فضلہ پیدا کیا جا رہا ہے، چند سالوں میں یہ تینوں لینڈ فل سائٹس بھی بھر جائیں گی۔
چان کنگ منگ کہتے ہیں کہ 'اگر ہانگ کانگ اسی ڈگر پر چلتا رہا تو 2020 تک ہم آخری حد تک پہنچ جائیں گے۔'
چان کنگ منگ کے اس اندازے کو ہانگ کانگ کی اپنی ماحولیات کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے ادارے اینوائرنمنٹل پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی حمایت ہے۔
چان کنگ منگ خود ایک ماحولیات کے سائنسدان ہیں اور ہانگ کانگ کی نیو ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما بھی ہیں۔ ان تجربات کی روشنی میں ان کو اندازہ ہے کہ سماجی، معاشی اور ٹیکنالوجیکل مشکلات کے باوجود وہ کس طرح شہر کو اس گندگی کے طوفان سے بچا سکتے ہیں۔
فضلہتصویر کے کاپی رائٹALAMY
Image captionہانگ کانگ میں سال 2015 میں تین ارب ٹن سے زیادہ فضلہ پیدا ہوا تھا
ہانگ کانگ کی بڑھتی ہوئی مشکلات دوسرے شہروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور دنیا بھر سے ماحولیات کے ماہرین ہانگ کانگ کے فیصلوں کو بغور دیکھ رہی ہیں۔
صرف 2000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں 70 لاکھ کی آبادی کے ساتھ ہانگ کانگ دنیا کا چوتھا سب سے گنجان آباد علاقہ ہے۔ ایسے علاقے میں جہاں خالی زمین کی اتنی کمی ہو، وہاں پر نئی لینڈ فل سائٹ بنانا تقریباً ناممکن ہے۔
ساتھ ساتھ ہانگ کانگ میں سیاحت کی مقبولیت نے وہاں کی حکومت پر مزید دباؤ ڈال دیا ہے۔ جب سے ہانگ کانگ کے خطے میں صنعتوں نے چین کا رخ کیا ہے، حکومت نے سیاحوں کو متوجہ کرنے کی کوششیں کی ہیں تاکہ خطے کی معیشت کو فروغ ملے۔
لیکن ایسا کرنے سے سالانہ چھ کروڑ لوگ ہانگ کانگ گھومنے کے لیے آتے ہیں جو کہ خطے کے رہائشیوں کی تعداد سے سات گنا زیادہ ہے، جن میں سے 60 فیصد لوگ چین سے آتے ہیں۔ ان سیاحوں کے لیے کھانا پینا اور شاپنگ مال جانا بہت کشش رکھتا ہے اور یہ شوق مزید فضلہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
چان کنگ منگ کہتے ہیں کہ ان سیاحوں کے آنے سے 'معیشت کو فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے نقصانات بھی ہیں۔ '
ان تمام وجوہات کے علاوہ ہانگ کانگ میں 'فری اکانومی' ہونے کے باعث حکومت اس ڈر سے کاروباری سرگرمیوں پر مختلف قوانین لگانے میں حیل و حجت سے کام لیتی ہے کہ وہ تجارتی سرگرمیوں پر اثر انداز نہ ہوں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے چان کنگ منگ نے کہا کہ حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں لینا چاہتی جس سے صارفین کی عادتیں تبدیل ہوں۔

آپریشن گرین فینس

دوسرے ممالک کی طرح ہانگ کانگ خطہ میں پیدا ہونے والے فضلے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے چین بھیجتا ہے۔ وہاں پر موجود سہولیات پلاسٹک، مختلف دھاتیں اور برقی سامان سے کارآمد، قابل استعمال چیزیں بنا سکتی ہیں لیکن دیگر مختلف اقسام کے فضلے ایسے ہوتے ہیں جو کہ ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں جیسے طبی فضلہ یا کھانے پینے کی چیزوں میں پیدا ہونے والا فضلہ۔
ان وجوہات کی بنا پر چین کی حکومت نے ایسے خام مال کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے جو کہ ماحول میں خرابی کا باعث بنتی ہو اور اس فیصلے سے ہانگ کانگ کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس کے پاس فضلہ کو دوبارہ کار آمد بنانے کی اپنی کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ چین کی جانب سے لگائی گئی اس پابندی کو گرین فینس کا نام دیا گیا ہے۔
ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکن ڈؤگ ووڈرنگ نے مجھے بتایا کہ 'جو چیزیں آپ پہلے چین بھیج سکتے تھے اسے اب لینڈ فل سائٹ میں ڈالنا پڑتا ہے۔'
چین کی جانب سے اس پالیسی میں تبدیلی کے باعث پچھلے پانچ برسوں میں ہانگ کانگ کا شہری فضلہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت کو اسے تلف کرنے کے لیے فوری اقدام لینا ضروری ہو گئے ہیں ورنہ ہانگ کانگ کے لینڈ فل سائٹس میں جگہ باقی نہیں بچے گی۔
اس صورتحال سے سامنے کرنے کے لیے ہانگ کانگ کی حکومت نے 'ویسٹ چارج' کا آغاز کیا ہے جس سے مقامی آبادی پر لازم ہوگا کہ وہ ایک لیٹر فضلہ پر 0.11 ہانگ کانگ ڈالر کی فیس ادا کریں گے۔
فضلہتصویر کے کاپی رائٹALAMY
Image captionہانگ کانگ فضلہ تلف کرنے کے لیے اسے چین بھیجتا تھا لیکن وہاں گرین فینس کی پالیسی کے بعد ایسا کرنا ممکن نہ رہا
یہ قانون 2019 سے لاگو ہوگا اور ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ اخبار کے مطابق ہر گھر سے اس قانون کی مد میں ماہانہ 33 سے 54 ہانگ کانگ ڈالر ملیں گے۔ اس قانون کے حمایتی کہتے کہ اس سے ملتے جلتے قوانین کا اطلاق جنوبی کوریا کے شہر سیئول اور تائیوان کے شہر تائیپی میں ہوا تھا اور اس کی مدد سے فضلے میں 30 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی تھی۔
اس کے علاوہ ہانگ کانگ کا اینوائرنمنٹل پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ خطے کے سب سے بڑے جزیرے لانٹاؤ میں دس ارب ڈالر کی فضلہ سوز بھٹی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن چان کنگ منگ کے اندازوں کے مطابق یہ بھٹی ہانگ کانگ کے مجموعی فضلے کا صرف 30 فیصد تلف کر سکتی ہے۔ مزید یہ کہ اس بھٹی سے فضلے کے جلائے جانے سے ہوائی آلودگی بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔
دوسری جانب چان کنگ منگ لانٹاؤ میں فوڈ پراسسنگ پلانٹ لگانے کے منصوبے کے حمایتی ہیں جو ائیر پورٹ کے تجارتی کچن کا فضلہ دوبارہ کار آمد بنائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں باغبانی کے لیے کھاد دور دراز سے درآمد کی جاتی ہے لیکن ضائع شدہ کھانے کی مدد سے مقامی طور پر کھاد بنائی جا سکتی ہے۔ چان کنگ منگ کے مطابق ایسے پلانٹ گاڑیوں کے لیے بائیو گیس بھی بنا سکتے ہیں۔
'میرے اندازے کے مطابق جتنی مقدار میں ہانگ کانگ میں کھانا ضائع ہوتا ہے اس کو تلف کرنے کے لیے ہمیں ایسے 20 پلانٹس لگانے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں اس کی ضرورت ہے اور ہمیں ہر ممکن حد تک تلف شدہ چیزوں کو دوبارہ کار آمد بنانے کی کوشش کرنے چاہیے۔'
فضلہ کی اتنی بڑی مقدار ہونے کی وجہ سے اس کو مختلف اقسام میں تقسیم کرنا بہت مشکل ہے۔
ڈؤگ ووڈرنگ کہتے ہیں کہ 'ابھی لوگ ہر قسم کے فضلے کو ایک ہی تھیلے میں ڈال دیتے ہیں اور اس کو علیحدہ کرنا بعد میں بہت مشکل ہو جاتا ہے اور پھر ان کو ری سائیکل کرنے میں ان کی افادیت چلی جاتی ہے۔'
ڈؤگ ووڈرنگ اور چان کنگ منگ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہانگ کانگ میں موجود کاروبار کرنے والی کمپنیاں اور افراد کو ماحول کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔
البتہ چان کنگ منگ کو شکایت یہ ہے کہ اس مسئلہ کی دس سال قبل نشاندہی کے باوجود اس پر کام نہیں کیا گیا اور پالیسی طے کرنے میں بہت وقت صرف کر دیا ۔ 'ہم نے بہت وقت ضائع کر دیا ہے بغیر کچھ کیے۔'
لیکن جس رفتار سے ہانگ کانگ میں فضلے کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے، اب ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا وقت نہیں رہا ہے۔

2 comments: