Sunday 6 August 2017

INDIA: PARTITION OF BRITISH RAJ INTO BHARAT & PAKISTAN, HOW ALIGARH MUSLIM UNIVERSITY COULD BREATH + SOCIAL ASPECTS

ACTION RESEARCH FORUM: SURVIVABILITY OF ALIGARH MUSLIM UNIVERSITY TRANSFORMED INTO SUSTAINABILITY OF THE TIME MOVEMENTS OF PORTIONING THE BRITISH INDIA, ANYWAY. 

SOME OF THE VALUABLE FORUM MEMBERS DURING THEIR LAD HOOD, WITNESSED HOW LORD MOUNT BATTEN GOT RID OF, THE PREVAILED ANARCHY ENDING THE BRITISH RAJ, WHOSE RECKONING WAS NOT DONE DULY. THE MESS OF CONFUSION SO EXTREMELY PREVAILED, AMONGST RULERS, STAKEHOLDERS, ESTABLISHMENT AND MUSLIM COMMUNITY WHICH WAS HELL. BUT OUT OF THE SMOKY SENTIMENTS, ALIGARH MUSLIM UNIVERSITY COULD SURVIVE, IT IS MIRACLE. LATER ON LEFTOVER MUSLIM  COMMUNITY YOUNGSTERS COMPLETED HALF BAKED CAREER-LESS EDUCATION. MANY OF THEM LEFT THEIR BIRTH PLACE INEVITABLY. 

HOW DREADFUL IT WAS TO THINK OF THAT BLOODSTAINED DAYS AND NIGHTS, BUT PSEUDO POLITICIANS PROCLAIMED ACCOMPLISHED.

THIS NARRATION IS RECEIVED FROM CANADA, sun_education@yahoo.com.   


Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-40761911

تقسیم ہند میں علی گڑھ یونیورسٹی کیونکر بچی؟



پروفیسر عرفان حبیب
Image captionپروفیسر عرفان حبیب نے تقسیم ہند اور علی گڑھ کے حالات پر تفصیلی بات کی

جب ملک آزاد ہوا میں 16 سال کا تھا اور میری تمام تر سکولی تعلیم برٹش راج میں ہوئی تھی۔
پروفیسر عرفان حبیب نے بی بی سی کو بتایا کہ 'جب کانگریس سنہ 1937 سے 1939 کے درمیان آئی تو ہمارا نصاب بدل گیا لیکن علی گڑھ میں سنہ 1941 کے بعد سے مسلم ليگ کا زور بڑھ گیا لیکن ہمارے نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اور ہماری تعلیم قومی نظریات پر مبنی رہی۔
اس پر مسلم لیگ نے کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔ وہ فرقہ پرست ضرور تھے لیکن ان کا کوئی آئیڈیالوجیکل رویہ نہیں تھا کہ ہر چیز اسلامی اصولوں کی پابند ہو۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔
یہ درست ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے 1946 میں ہونے والے انتخابات میں 'پاکستان' کے نعرے پر مسلم ليگ کو ووٹ دیا تھا لیکن کسی کو علی گڑھ یونیورسٹی میں کم از کم یہ خیال نہیں تھا کہ پاکستان بن جائے گا اور ایک دوسرا ملک وجود میں آ جائے گا۔ سب یہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک بارگیننگ کاؤنٹر ہے جس کے تحت مسلمانوں کو خاص رعایتیں ملیں گي، شاید یوپی (اترپردیش) میں زمینداری کا خاتمہ نہ ہو، سول سروسز میں ریزرویشن میں توسیع ہو یا مسلمان یہ شرط لگائیں کہ آدھے وزیر ان کے ہوں۔یہ سب خواب تھے۔
اس لیے جب ماؤنٹ بیٹن ایوارڈ آیا تو علی گڑھ میں اس وقت چھٹیاں چل رہی تھیں اور استاد اور ملازمین جن میں ليگ کے حامی تھے ان میں بہت پریشانی تھی بعض لوگ تو رو بھی رہے تھے کیونکہ کسی کو یہ خیال نہیں تھا کہ پاکستان بن جائے گا اور ایک الگ ملک وجود میں آ جائے گا۔
یہاں کے وائس چانسلر ظاہر حسین خود پاکستان چلے گئے اور بہت سے دوسرے لوگ بھی بعد میں چلے گئے۔ لیکن یونیورسٹی قائم رہی اور داخلے بالکل وقت پر ہوئے، کلاسز برابر جاری رہیں۔ اگر کوئی استاد چلا جاتا تھا تو دوسرا موجود رہتا تھا۔ حاضری پر وہی پابندی تھی جو پہلے تھی لیکن اب یہ بات ختم ہو گئی ہے۔


سٹریچی ہالتصویر کے کاپی رائٹAMU
Image captionعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام مدرسۃ العلوم کے نام سے 1875 میں عمل میں آیا تھا اور سٹریچی ہال ابتدائی زمانے کی تعمیرات میں شامل ہے

علی گڑھ کے قائم رہنے کی بڑی وجہ سرکار کی جانب سے یہ یقین دہانی تھی کہ یونیورسٹی جیسے چلتی تھی ویسی ہی چلتی رہے گی اور اس کی امداد کی جائے گی۔
یہ کہنا پڑے گا کہ اسی یقین دہانی کی وجہ سے یونیورسٹی قائم رہی۔
آپ کو معلوم ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے خاص فوجی دستہ بھیجا گیا تھا کیونکہ جمنا تک تو فساد آ چکا تھا اور مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا اور ادھر پاکستان کی جانب ہندو، سکھوں کا ہو رہا تھا۔
فوج کی کمایوں ریجیمنٹ بھیجی گئی تھی ان کا کردار بہت اچھا رہا اور انھوں نے ضلعے میں کم از کم کوئی فساد نہیں ہونے دیا۔
آزادی کے بعد پہلی گورنر سروجنی نائیڈو بھی یونیورسٹی میں تشریف لائیں تھیں۔ انھوں نے وہاں تقریر کی تھی جس میں میں بھی موجود تھا کیونکہ میں اس وقت فرسٹ ایئر (بی اے) کا طالب علم تھا۔ انھوں نے بھی بہت یقین دہانی کرائی تھی لیکن افسوس کہ ان کا جلد ہی انتقال ہو گيا۔


دہلی سٹیشن کا ایک منظرتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionتقسیم ہند کے نتیجے میں لاکھوں افراد نے نقل مکانی کی جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں

تقسیم کے بعد یہاں بہت سے شرنارتھی (پناہ گزین) طالب علم بھی آئے۔ سنہ 50-1949 کا ایک زمانہ تھا جب یہاں ایک تہائی طلبہ شرنارتھی (یعنی پاکستان سے آنے والے پناہ گزین) تھے۔ سب ہوسٹلوں میں رہتے تھے۔ پہلے ان کے علیحدہ ہوسٹل تھے پھر سب کو شامل کر لیا گیا۔
سنہ 1952 میں ایک ایکٹ آیا جس کے تحت حکومت نے یونیورسٹی کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ پہلے تو یہ پرائیوٹ یونیورسٹی تھی اور دیوالیہ ہو رہی تھی۔ یہی حال بنارس ہندو یونیورسٹی کا تھا۔ جو لوگ اس ایکٹ کی برائی کرتے ہیں انھیں جاننا چاہیے کہ اسی کی وجہ سے یونیورسٹی بچ گئی کیونکہ حکومت نے تمام اخراجات اپنے ذمے لے لیے تھے۔
آزادی سے پہلے یہاں طلبہ کی تعداد پانچ ہزار تھی جو کہ ایک وقت کم ہو کر ایک ہزار رہ گئی تھی پھر سنہ 1953 تک طلبہ کی تعداد دوبارہ پانچ ہزار تک پہنچ گئی اور اب اس کی تعداد 25 ہزار سے زیادہ ہے۔

متعلقہ عنوانات


***

Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-40761912

'علی گڑھ تحریک میں سماجی اصلاح کا پہلو بہت کم تھا'

سر سید احمد خاں
Image captionسر سید احمد خاں نے سنہ 1875 میں جو تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا وہ بعد میں ‏علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سہ پہچانا گیا
علی گڑھ تحریک کو اگر ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ ایک قسم کا نشاۃ الثانیہ ہے جسے انڈیا کے نشاۃ الثانیہ کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے، جس طرح بنگال کا نشاۃ الثانیہ بھی اس کی تاریخ کا حصہ تھا۔
اگر آپ سر سید کے طرز تخیل کو دیکھیں تو آپ یہی پائیں گے کہ ان پر جدید تہذیب کا دو طرح سے اثر ہوا۔
ایک یہ کہ جب انگریزی تعلیم اور تصانیف سے ان کی واقفیت ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ تعلیم اور سائنس کی ایک بالکل نئی دنیا کھلتی ہے۔
تاریخ جیسے روایتی مضامین بھی بالکل نئی طرح سے ان کے سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ اس سے متاثر ہو کر انھوں نے ’آثارالصنادید‘ لکھی۔ ان سے پہلے فارسی اور اردو میں تاریخی عمارتوں پر ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔
انھوں نے 1857 کی بغاوت سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ اگر آج کوئی آپ سے پوچھے کہ 1857 کے واقعے کے قریب ترین کون سی کتاب ہے تو وہ بلاشبہ سرسید احمد کی کتاب 'اسباب بغاوت ہند' ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹیتصویر کے کاپی رائٹAMU ALIGARH
Image captionسرسید احمد خان کے زمانے میں یہ عمارت تیار ہو چکی تھی اور وکٹوریہ گیٹ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اولین عمارتوں میں شامل ہے
وہ جا بجا انگریزوں کی حمایت کرتے تھے لیکن انھوں نے جو اسباب لکھے اس میں ان چیزوں کا بھی ذکر تھا جس پر انگریزوں کی نگاہ نہیں گئی تھی یعنی انھوں نے زمینداروں اور کسانوں کے مسائل کا بھی ذکر کیا۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس میں ہندو اور مسلمان کا کوئی جھگڑا نہیں تھا، دونوں برابر کے شریک تھے اور اس لیے دونوں کو سزا ملنی چاہیے۔
دوسری بات جس کا علی گڑھ تحریک پر گہرا اثر پڑا وہ ولیم میور کی تصنیف تھی جس میں پیغمبر اسلام کی وہ تصویر ابھرتی ہے جو جدید اخلاقیات کے منافی تھی۔ یہ کتاب طبری اور دوسرے مستند عربی مآخذ پر مبنی تھی۔
سرسید احمد اس سے بہت پریشان ہوئے اور انھوں نے اس کا جواب لکھا۔ انھوں نے میور کو جو جواب دیا ہو وہ اپنی جگہ لیکن وہ دراصل ان مآخذ کی نکتہ چینی ہے جنھیں میور نے استعمال کیا تھا۔
پروفیسر عرفان حبیبتصویر کے کاپی رائٹSHIB SHANKAR CHATTERJEE
Image captionمعروف تاریخ دان اور علی گڑھ میں پروفیسر عرفان حبیب نے ہمارے نامہ نگار مرزا اے بی بيگ سے گفتگو کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک پر اپنے خیلات کا اظہار کیا
ان کا خیال تھا کہ 'ورڈ آف گاڈ' کو 'ورک آف گاڈ' سے مختلف نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک سائنس کو مذہب پر فوقیت تھی۔
سرسید نہ صرف علی گڑھ بلکہ الہ آباد یونیورسٹی میں بھی انگریزی اور سائنس کی تعلیم پر بھی بہت زور دیتے تھے۔
علی گڑھ تحریک کا ایک تیسرا جز برطانوی حکومت سے وفاداری تھا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ سرسید نے سر کا خطاب حاصل کرنے کے لیے کانگریس کی مخالفت کی تھی۔ ان کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان میں جدید تہذیب کا اثر صرف برطانوی حکومت کے سائے تلے ہی آ سکتا ہے۔ اس میں دوسرے معاملے بھی شامل ہوئے کہ مسلم متوسط طبقے کا کیا ہو گا اور ملازمتوں پر بنگالیوں کا تسلط کیوں ہے۔ یہ سب چھوٹے چھوٹے مسئلے تھے۔ اصل مسئلہ تھا جدید تعلیم کا۔
عبداللہ ویمنز کالجتصویر کے کاپی رائٹAMU ALIGARH
Image captionسرسید کے انتقال کے بعد شیخ عبداللہ کی کوششوں کے نتجے میں یونیورسٹی میں لڑکیوں کی تعلیم کی تحریک شروع ہوئی
یہ مسئلے ختم ہو گئے کیونکہ قومی تحریک بھی جدید تعلیم چاہتی تھی اور مسلم لیگ نے بھی سنہ 1916 میں ہوم رول کے لیے کانگریس سے معاہدہ کر لیا۔ مسلم ليگ کتنی ہی فرقہ پرست کیوں نہ ہو، قدامت پرست نہیں تھی۔ بلکہ الٹا دیوبند کا مدرسہ کانگریس کے ساتھ تھا۔
علی گڑھ تحریک میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو قومی تحریک میں شامل ہوئے جن میں محمد علی، شوکت علی، حسرت موہانی وغیرہ کا نام آتا ہے۔ حسرت موہانی جب علی گڑھ میں تھے تو سی آئی ڈی نے کہا تھا کہ ان کے کمرے میں تلک اور گوکھلے کی تصویریں ہیں اور وہ جیل گئے۔
ایک زمانے میں سنہ 1930 سے 1938 تک علی گڑھ میں کانگریس کا خاصا اثر تھا۔
علی گڑھ تحریک میں یہ ایک بہت بڑی کمی تھی کہ اس میں سماجی اصلاح کا پہلو بہت کم تھا۔ سرسید احمد کا صرف ایک شادی پر اصرار تھا اور شاید وہ بھی اس لیے کہ انگریزوں کو ایک سے زائد شادیاں پسند نہیں تھیں بلکہ ان کے یہاں کثیر الازدواجی جرم تھا۔
خواتین کی تعلیم کے معاملے میں کہیں کہیں سرسید نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عورتوں کو صرف اس حد تک خواندہ بنا دیا جائے کہ وہ خط پڑھ سکیں، اس سے زیادہ کی انھیں ضرورت نہیں۔
جامع مسجد علی گڑھتصویر کے کاپی رائٹAMU ALIGARH
Image captionسرسید احمد خان نے یہ مسجد تعمیر کرائی تھی جو دہلی میں سنہ 1857 کے بعد توڑی جانے والی مساجد کے ملبے سے تیار کی گئی ہے
لیکن ہندوستان میں اس سے قبل خواتین کی تعلیم کی جو ہوا چل رہی تھی اور کیشب چندر اور ان سے قبل ودیا ساگر وغیرہ نے اس کے لیے جو تحریک چلا رکھی تھی اس کے اثرات علی گڑھ پر بھی پڑے اور سرسید کی موت کے بعد شیخ عبداللہ نے یہ تحریک شروع کر دی کہ یہاں بھی لڑکیوں کا سکول اور کالج ہونا چاہیے جو بعد میں قائم ہوا اور بی اے تک ان کی تعلیم ہونے لگی لیکن آزادی سے پہلے تک ایم اے متعارف نہیں کرایا جا سکا تھا۔
اول اول طلبہ اور طالبات کے درمیان ایک پردہ حائل ہوا کرتا تھا جو رفتہ رفتہ ختم ہو گیا۔ برقع بہت کم لڑکیاں اوڑھتی تھیں جب کہ آج کل یہ رواج بڑھ گیا ہے۔ یعنی حجاب کا کوئی نظام نہیں تھا۔ بہر حال اس تحریک کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتاہے کہ مسلمانوں میں جدید تعلیم عام ہوئی۔
٭ معروف تاریخ داں اور علی گڑھ میں پروفیسر عرفان حبیب نے ہمارے نامہ نگار مرزا اے بی بيگ سے گفتگو کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک پر اپنے خیلات کا اظہار کیا۔


متعلقہ عنوانات


No comments:

Post a Comment