Tuesday, 15 August 2017

SAUDIA: INFAMILY CRIMINALITY OF ROYAL FAMILY


Source:  http://www.bbc.com/urdu/world-40932850

سعودی شہزادوں کی پراسرار گمشدگی کا معمہ

سعودیتصویر کے کاپی رائٹHUGH MILES
Image captionشہزادہ سلطان بن ترکی کے بارے میں 2016 کے بعد سے کوئی خبر نہیں ہے
گذشتہ دو سالوں میں یورپ میں رہنے والے تین سعودی شہزادے لاپتہ ہو چکے ہیں۔
یہ تینوں شہزادے ماضی میں سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور ان کی گمشدگی کے بارے میں ایسے شواہد ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اغوا کر کے سعودی عرب لے جایا گیا اور اس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔
سؤٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں 12 جون 2003 کو ایک سعودی شہزادے کو جینیوا سے باہر ایک محل لے جایا گیا۔
اس شہزادے کا نام سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز ہے اور وہ جس محل میں لے جایا گیا وہ اس کے رشتے دار، سعودی عرب کے سابق حکمران شاہ فہد کی ملکیت ہے۔ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز کو شاہ فہد کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن فہد نے ناشتے پر مدعو کیا۔
عبدالعزیز بن فہد نے سلطان بن ترکی سے درخواست کی کہ وہ سعودی عرب واپس لوٹ جائیں تاکہ سعودی حکمرانوں کے خلاف ان کی جانب سے کی گئی تنقید اور خدشات کو دور کیا جا سکے مگر سلطان بن ترکی نے یہ درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
اس موقع پر عبدالعزیز بن فہد فون کرنے کے بہانے سے کمرے سے باہر گئے اور کمرے میں موجود دوسرے فرد، سعودی عرب کے وزیر برائے اسلامی امور شیخ صالح الشیخ بھی باہر چلے گئے۔
ان دونوں کے جاتے ہی چند افراد کمرے میں داخل ہو گئے اور سلطان بن ترکی کو زد و کوب کیا، اور اس کے بعد انھیں ہتھکڑی پہنا کر ان کی گردن میں انجیکشن لگا دیا۔ اس بے ہوشی کی حالت میں سلطان بن ترکی کو جینیوا ایئر پورٹ لے جایا گیا جہاں سے انھیں جہاز پر سوار کرا دیا گیا۔
یہ تمام قصہ سلطان بن ترکی نے اغوا ہونے کے کئی سال بعد سوئس عدالت میں بیان کیا تھا۔
اس وقت سلطان بن ترکی کے لیے کام کرنے والوں میں سے ان کے افسر برائے اطلاعات ایڈی فریرا نے بعد میں بتایا کہ جس روز سلطان ناشتے کے لیے گئے تھے، 'وہ دن بتدریج مشکل ہوتا چلا گیا۔ ہم سلطان کی سکیورٹی ٹیم سے رابطہ کرنے میں ناکام رہے جس سے ہمیں شک پڑا کے معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے شہزادے سے رابطہ کرنے کی بار بار کوشش کی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔'
اسی دن دوپہر میں دو غیر متوقع لوگ سلطان بن ترکی کے ہوٹل پہنچے۔
'سوئٹزرلینڈ میں متعین سعودی سفیر اور ہوٹل کے جنرل مینیجر ہمارے پاس آئے اور کہا کہ کمرے فوراً خالی کر دیے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ شہزادہ سلطان اب ریاض چلے گئے اور ہماری اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔'
شہزادہ سلطان بن ترکی نے ایسا کیا کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے اپنے خاندان والوں نے انھیں نشہ آور انجیکشن لگایا اور اغوا کر لیا؟
ایک سال قبل شہزادہ سلطان علاج کرانے کی غرض سے یورپ آئے تو وہاں پہنچ کر انھوں نے سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا اور شاہی خاندان کے افراد پر بدعنوانی کے الزامات لگائے اور ملک میں مختلف نوعیت کی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا۔
سن 1932 میں شاہ عبدالعزیز نے سعودی عرب کی بنیاد ڈالی اور اس وقت سے ملک میں بادشاہت قائم ہے اور ملک میں اختلاف رائے کے اظہار کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
سعودیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionشہزادہ ترکی بن بندر 2003 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ سے ملاقات کرتے ہوئے
شہزادہ ترکی بن بندر سعودی پولیس میں اہم مقام رکھتے تھے اور سعودی خاندان پر نظر رکھنا ان کی ذمہ داری تھی۔ لیکن وراثت کے معاملے پر جھگڑے کی وجہ سے ان کو جیل جانا پڑا جہاں سے انھیں 2012 میں رہائی ملی۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں سے انھوں نے انٹرنیٹ پر یوٹیوب کی ویب سائٹ پر سعودی عرب میں تبدیلیوں کی مطالبے کی ویڈیوز شائع کرنا شروع کر دیں۔
سعودی حکومت نے ان کے خلاف بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کی جیسا شہزادہ سلطان بن ترکی کے ساتھ کیا تھا۔
وزارت داخلہ کے نائب وزیر احمد ال سالم نے جب شہزادہ ترکی بن بندر کو واپس بلانے کے لیے فون کیا تو شہزادے نے وہ گفتگو ریکارڈ کر لی اور اسے انٹرنیٹ پر جاری کر دیا۔
اس گفتگو میں احمد ال سالم کہتے ہیں 'ہم سب آپ کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں، خدا آپ کا بھلا کرے۔'
جواب میں شہزادہ ترکی بن بندر نے کہا: 'میری واپسی کا انتظار؟ تو ان سب خطوط کے بارے میں کیا کہو گے جو مجھے بھیجے اور جن میں لکھا ہوا تھا کہ میں فاحشہ کی اولاد ہوں اور تم لوگ مجھے بھی ویسے ہی گھسیٹ کر لے جاؤ گے جیسے شہزادہ سلطان بن ترکی کو لے گئے تھے۔'
اس پر نائب وزیر نے جواب دیا: 'آپ کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ میں آپ کا بھائی ہوں۔'
شہزادہ ترکی بن بندر نے جواب دیا: 'نہیں، یہ خط تمہاری طرف سے ہیں۔ وزارت داخلہ نے یہ خط بھیجے ہیں۔'
شہزادہ ترکی بن بندر جولائی 2015 تک ویڈیوز شائع کرتے رہے لیکن اسی سال وہ غائب ہو گئے۔
ان کے دوست اور بلاگر وائیل الخلف نے بتایا 'وہ مجھے ہر ایک یا دو ماہ بعد فون کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر وہ کوئی چار پانچ مہینے کے لیے غائب ہو گئے جس سے مجھے شک پڑا۔ پھر میں نے سعودی عرب میں ایک سینئیر افسر سے سنا کہ شہزادہ ترکی ان کے پاس ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھیں اغوا کر کے وہاں لے جایا گیا ہے۔'
شہزادہ ترکی کے بارے میں خبروں کی تلاش میں مجھے مراکش کے ایک اخبار میں خبر ملی جس میں لکھا تھا کہ وہ مراکش کے دورے کے بعد واپس فرانس جانے والے تھے جب انھیں گرفتار کر لیا گیا اور وہاں سے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔
ابھی تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ شہزادہ ترکی بن بندر کے ساتھ ہوا کیا ہے لیکن اپنی گمشدگی سے پہلے انھوں نے اپنے دوست بلاگر وائیل الخلف کو اپنی کتاب دی تھی اور اس میں ایک نوٹ درج کیا تھا۔
'میرے عزیز وائیل، یہ بیان تم صرف اس صورت میں شائع کرنا اگر میں اغوا ہو جاؤں یا قتل کر دیا جاؤں۔ مجھے یقین ہے کہ یا تو مجھے اغوا کر لیا جائے گا یا مار دیا جائے گا۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ لوگ کس طرح میرے اور سعودی عوام کے حقوق غضب کرتے ہیں۔'
سعودی
Image captionشہزادہ سعود بن سیف النصر
اسی اثناء میں جب شہزادہ ترکی کو اغوا کیا گیا تھا، ایک اور سعودی شہزادے سعود بن سیف کو بھی اٹھا لیا گیا۔
شہزادہ سعود بن سیف، جنھیں یورپ کے کسینو اور پرتعیش ہوٹلوں سے رغبت تھی، انھوں نے 2014 میں سعودی شاہی خاندان کے خلاف تنقیدی ٹویٹس کرنا شروع کیں۔
انھوں نے ان سعودی افسران کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا جنھوں نے مصر کے صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے میں مدد کی تھی۔
اس کے بعد ستمبر 2015 میں معاملات مزید گرم ہو گئے جب شہزادہ سعود بن سیف نے ایک نامعلوم سعودی شہزادے کے اس خط کی برملا حمایت کی جس میں سعودی بادشاہ، شاہ سلمان کی حکومت گرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ شہزادہ سعود شاہی خاندان کے واحد فرد تھے جنھوں نے اس مطالبے کی حمایت کی تھی جسے غداری تصور کیا جاتا ہے۔
اس حمایت کا اظہار کرنے کے کچھ دن بعد انھوں نے ٹویٹ کی: 'میں اپنی قوم مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس خط کے مواد کو لے کر حکومت پر دباؤ ڈالیں۔' اس ٹویٹ کے بعد ان کا اکاؤنٹ خاموش ہو گیا۔
2013 میں جرمنی بھاگ جانے والے سعودی حکومت کے ایک اور مخالف شہزادے خالد بن فرحان کا خیال ہے کہ شہزادہ سعود بن سیف کو دھوکے سے اٹلی کے شہر میلان سے روم بلایا گیا۔
'میلان میں ان کو ایک پرائیوٹ جہاز میں سوار کرایا گیا جس کی منزل روم تھی لیکن وہ روم کے بجائے ریاض میں جا کر اترا۔ سعودی خفیہ اداروں نے یہ اس پورے پلان کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اب شہزادہ سعود کا وہی مقدر ہے جو شہزادہ ترکی بن بندر کا ہے۔ جیل میں قید۔'
شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز کیونکہ شاہی خاندان میں اونچے درجے پر ہیں، اس لیے انھیں جیل سے نکل کر گھر میں نظر بند کیا جاتا رہا لیکن کیونکہ ان کی طبیعت مسلسل خراب ہوتی جا رہی تھی تو 2010 میں شاہی خاندان نے انھیں امریکی شہر بوسٹن میں علاج کی غرض سے جانے کی اجازت دے دی۔
لیکن وہاں پہنچتے ہی انھوں نے جو کام کیا اس سے سعودی حکمرانوں میں سنسنی دوڑ گئی ہوگی۔
امریکہ پہنچتے ہی شہزادہ سلطان نے وہاں کی عدالت میں فوجداری مقدمہ درج کرایا جس میں انھوں نے شہزادہ عبدالعزیز اور شیخ صالح ال شیخ پر 2003 میں انھیں اغوا کے لیے مورد الزام ٹھیرایا۔
شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز کے امریکی وکیل کلائیڈ برگ سٹریسر نے ریاض کے کنگ فہد ہسپتال سے شہزادہ سلطان کے طبی ریکارڈ حاصل کیے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے منہ میں سانس لینے کے ٹیوب ڈالی گئی تھی اور ان کے اندرونی اعضا کے معائنے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان پر حملہ کیا گیا جس سے وہ زخمی ہوئے تھے۔
سعودی
Image captionجرمنی میں مقیم شہزادہ خالد
یہ پہلا موقع تھا جب سعودی شاہی خاندان کے کسی فرد نے شاہی خاندان کے ایک اور فرد پر مغربی ملک میں مقدمہ درج کیا ہو۔ لیکن وکیل کلائیڈ برگ سٹریسر کے مطابق سوئس حکام نے اس مقدمے پر کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
'اس کیس میں اب تک کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ کسی نے یہ معلوم نہیں کیا کہ ایئر پورٹ پر کیا ہوا تھا؟ جہاز کے پائلٹ کون تھے؟ جہاز کا فلائٹ پلان کیا تھا؟ یہ کارروائی سوئس سرزمین پر ہوئی تھی لیکن ان کی جانب سے کوئی سوالات نہیں کیے گئے ہیں۔'
جنوری 2016 میں شہزادہ سلطان پیرس کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے جب انھیں شہزادہ سعود بن سیف کی طرح جھانسے میں لایا گیا۔
وہ اپنے والد سے ملنے کے لیے مصر جانا چاہتے تھے اور پیرس میں سعودی سفارت خانے نے انھیں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد، بشمول ان کے ڈاکٹر اور سکیورٹی اہلکار، کو جہاز کی پیشکش کی۔
2003 میں ہونے والے واقعہ کے باوجود حیران کن طور پر شہزادہ سلطان نے یہ پیشکش قبول کر لی۔
ان کے ساتھ جانے والے افراد نے اس واقعہ کی منظر کشی کی۔
'ہم جہاز کے قریب پہنچے تو اس پر سعودی عرب درج تھا۔ ہمیں کچھ عجیب سا لگا کیونکہ جہاز کا تمام عملہ مردوں پر مشتمل تھا۔ جہاز نے جب محو پرواز ہوا تو اس کی منزل قاہرہ تھی لیکن دو گھنٹے بعد جہاز میں لگی سکرین بند ہو گئیں۔'
شہزادہ سلطان کے سٹاف کے مطابق وہ جہاز میں اپنے کیبن میں سو رہے تھے لیکن لینڈنگ سے ایک گھنٹہ پہلے وہ جاگ گئے اور جب کھڑکی سے نیچے دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ جیسے ہی ان کو اور ان کے سٹاف کو اندازہ ہوا کہ وہ مصر کے بجائے سعودی عرب لینڈ کرنے والے ہیں انھوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔
'ہم نے کھڑ کی سے نیچے دیکھا تو ہمیں رائفلیں اٹھائے ہوئے کچھ لوگ نظر آئے جنھوں نے جہاز کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔'
سعودیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
جہاز کے اترتے ہی ان مسلح افراد نے شہزادہ سلطان کو قبضے میں لے لیا اور انھیں لے گئے۔ شہزادہ سلطان چلا چلا کر اپنے سٹاف کو کہا کہ وہ امریکی سفارت خانے سے رابطہ کریں۔
شہزادے کو ان کے ڈاکٹر سمیت ایک بنگلے میں لے جایا گیا جہاں ان کی نگرانی کے لیے مسلح گارڈز کو تعینات کیا گیا۔ جہاز میں سوار باقی افراد کو تین دن کے بعد ان کی مرضی کی منزل پر بھیج دیا گیا۔
شہزادہ سلطان کے سٹاف میں سے ایک نے بتایا کہ 'سعودی حکام کے ایک افسر نے کہا کہ ہم غلط وقت میں غلط جگہ پر تھے اور اس کی وجہ سے ہونے والی مشکلات پر معذرت کی۔'
سٹاف کے ایک اور فرد نے کہا:'مجھے صرف مشکل میں نہیں ڈالا گیا تھا بلکہ مجھے اغوا کیا گیا تھا اور مجھے ایسے ملک میں رکھا گیا جہاں میں اپنی مرضی سے گیا بھی نہیں تھا۔'
یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ شہزادہ سلطان کے علاوہ 18 غیر ملکی باشندوں کو اغوا کر کے ان کی مرضی کے خلاف سعودی عرب لے جایا گیا اور سعودی فوج نے انھیں وہاں خلاف مرضی رکھا۔
اس واقعے کے بعد سے شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیز کی کوئی خبر نہیں ملی ہے۔
جب میں نے سعودی حکومت سے ان واقعات اور الزامات کے بارے میں سوالات کیے تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
جرمنی میں پناہ لینے والے شہزادہ خالد کو ڈر ہے کہ ان کو بھی زبردستی سعودی عرب لے جایا جائے گا۔
'ہمارے خاندان کے چار لوگ یورپ میں تھے۔ ہم نے خاندان پر اور ان کی حکومت پر تنقید کی اور ان چار میں سے تین کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ صرف میں باقی بچا ہوں۔'
کیا شہزادہ خالد بھی اغوا ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے؟
'مجھے یقین ہے۔ مجھے بہت عرصے سے پورا یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ اگر وہ ایسا کر سکتے ہوتے تو وہ کر چکے ہوتے لیکن میں بے حد احتیاط برتتا ہوں۔ یہ میری آزادی کی قیمت ہے۔'

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment