ACTION RESEARCH FORUM: NOW, WHEHER THE LAW OF LAND WILL PREVAIL, OR LAW OF ARAB- ALIKE WILL?
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-41008578
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-41008578
تین طلاق کو عدالت میں چیلنج کرنے والی خواتین
انڈیا کی سپریم کورٹ کا ایک بینچ آج تین طلاق کے کیس پر اپنا فیصلہ سنانے والا ہے۔ چند خواتین نے عدالت میں الگ الگ عرضیاں دائر کی ہیں اور کہا کہ تین طلاق کا مروجہ طریقہ ان کے قانونی حقوق کے خلاف ورزی ہے۔
2014 میں آفرین رحمان نے جے پور میں پانچ ستارہ ہوٹل میں شادی کی تھی۔ اس وقت اپنی ایم بی اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ جاب کررہی تھیں۔ لیکن اپنے وکیل شوہر کے ساتھ زندگی کی ایک نئی شروعات کے لیے انھوں نے یہ سب چھوڑ دیا۔
آفرین کا کہنا ہے کہ 'شادی ویسی نہیں نکلی جیسی کہ سوچی تھی۔ جہیز کے مطالبات کبھی نہیں ختم ہوئے اور جب منع کیا تو مارپیٹ شروع ہوگئی اور پھر میں مایوسی کا شکار ہوگئی۔'
انھوں نے الزام لگایا کہ شادی کے ایک سال بعد ان کے شوہر نے انھیں واپس میکے بھیج دیا اور پھر کچھ دنوں کے بعد شوہر نے میری بہن اور کچھ دوسرے رشتہ داروں کو ایک تحریری خط بھیجا۔ اس پر 'طلاق طلاق طلاق' لکھا تھا۔
آفرین کا کہنا ہے کہ 'میں صدمے میں چلی گئی' وہ بہت برا دن تھا اور میں نہیں سمجھ پائی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔'
اس کے بعد آفرین کی ایک بہن نے ان کی مدد کی۔ انھیں ہمت دلائی اور طلاق کو غلط ٹھہرانے کے لیے سپریم کورٹ جانے کا ایک طریقہ تجویز کیا۔
انھوں نے آفرین کے شوہر کے خلاف گھریلو تشدد اور جہیز کے لیے پریشان کرنے کے خلاف ایک کیس درج کروایا۔
آفرین کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پاس کوئی اولاد نہیں ہیں، لہذا مجھے ایک نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ملے گا۔'
لیکن ان کے مطابق وہ اس کیس کو اس لیے لڑ رہی ہیں تاکہ 'دوسری عورتیں جو اپنے شوہروں پر منحصر ہوں انھیں اس طرح کی نا انصافی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔'
سٹام پیپر پر'طلاق طلاق طلاق‘
ایک دن عطیہ صابری کے بھائی کے دفتر میں ایک خط آيا جس سے انھیں معلوم ہوا کہ انھیں طلاق دی گئی ہے۔ دس روپے کے ٹکٹ کے سٹام پیپر پر لکھا تھا: 'طلاق طلاق طلاق۔'
عطیہ پوچھتی ہیں: 'شریعت میں تو لکھا ہے کہ دو لوگوں کے درمیان بات چیت سے اور اتفاق کرنے سے نکاح ہوتا ہے تو ایک شخص کے یکطرفہ طلاق دینے سے طلاق کیسے ہوجائے گی؟'
ان کے مطابق ان کے شوہر نے اس کے بعد فون تک نہیں کیا یا اس پر بات تک نہیں کی لہذا وہ اس طلاق کو قبول نہیں کرتی ہیں۔
عطیہ نے سپریم کورٹ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہاس مروجہ تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ایک ایسا قانون بننا چاہیے جس میں مسلم خواتین کو بھی برابری کے حقوق ملیں۔
انھوں نے الزام لگایا گیا ہے کہ دو بیٹیوں کو جنم دینے کی وجہ سے انھیں یہ سزا دی جا رہی ہے۔ انھوں نے پولیس میں گھریلو تشدد کی بھی شکایت درج کروائی تھی۔ ان کے شوہر نے الزامات سے انکار کیا لیکن پولیس نے انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ اور، کیس اب بھی زیر سماعت ہے۔
15 سالہ تعلق بس ایک جھٹکے میں ختم
سائرہ بانو کے مطابق: 'ایک ہی وقت میں تین طلاقیں ایک خاتون کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہیں اور بچوں کے مستقبل کو برباد کردیتی ہیں۔'
سائرہ اپنے والدین کے گھر میں علاج کے لئے آئی تھیں تب ان کے شوہر نے سپیڈ پوسٹ سے ایک خط کے ذریعے انھیں طلاق نامہ بھیجا تھا اور 15 سالہ تعلق بس ایک جھٹکے میں ختم ہوگیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جب سے ان کی طلاق ہوئی ہے وہ اپنے بچوں سے ملاقات نہیں کر پائی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: 'میں اس کا شکار ہوئی ہوں لیکن میں نہیں چاہتی کہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ برداشت کرنا پڑے اسی وجہ سے میں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے اس غیر آئینی چلن کو ختم کیا جائے۔'
بیٹیوں کی پیدائش طلاق کی وجہ
عشرت جہاں کا اس وقت دل ٹوٹ گیا جب ان کے شوہر نے اسے دبئی سے طلاق دی اور ان کی 15 سالہ شادی ختم ہوگئی۔
عشرت کا الزام ہے کہ ایک کے بعد ایک تین بیٹیوں کی پیدائش کی وجہ سے وہ مجھے ذلیل کرتا تھا اور پھر اس نے اپنے بھائی سے جسمانی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا۔
بالآخر عشرت کو بیٹے کی پیدائش ہوئی لیکن تب تک کافی دیر ہوچکی تھی۔
وہ کہتی ہیں: 'میرے شوہر نے دوسری شادی کا فیصلہ کر لیا تھا اور مجھے 2015 میں یکطرفہ تین طلاقیں دے دیں۔'
عشرت جہاں ان پڑھ ہیں۔ لیکن وہ اتنا سمجھتی ہیں کہ قرآن میں اس طرح سے تین طلاقوں کا ذکر نہیں ہے۔ ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم نے اس کیس کو سپریم کورٹ تک لے جانے میں ان کی مدد کی۔
عشرت ان تمام مشکلات کے باوجود اپنے شوہر کو واپس پانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: 'اگر میرا شوہر میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو مجھے یہ بات وہ میرے سامنے کہے ان کو میرا سامنا کرنا ہوگا تاکہ ہم دونوں اس کے بارے میں بات کرسکیں۔'
وہ چاہتی ہیں کہ جو بھی فیصلہ ہو وہ شوہر اور بیوی کے درمیان ہو اور چاہے جو بھی فیصلہ ہو لیکن کم از کم ان کے پاس اپنے بچوں سے ملنے اور انھیں رہنے کا حق ہو۔
No comments:
Post a Comment