Friday, 22 September 2017

IND: COLD START DOCTRINE OF WAR AGAINST PAKSITAN


Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-41357149

آخر انڈیا کی 'کولڈ سٹارٹ‘ حکمت عملی ہے کیا؟

انڈیا پاکستان، واگہ سرحدتصویر کے کاپی رائٹAFP
پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک انڈین فوج کی 'کولڈ سٹارٹ' حکمت عملی سے نمٹنے کے لیے کم فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جہاں تک ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کا تعلق ہے، تو ہم نے ایسے کوئی بھی ہتھیار ابھی تک فیلڈ نہیں کیے ہیں۔ ہم نے مختصر رینج کے ایٹمی ہتھیار تیار کیے ہیں تاکہ انڈيا کی 'کولڈ سٹارٹ' حکمت عملی کا سامنا کیا جا سکے۔'
پاکستان بار بار جس 'کولڈ سٹارٹ' حکمت عملی کا نام لے رہا ہے وہ آخر ہے کیا؟ کیا انڈیا واقعی اس طرح کی کسی فوجی حکمت عملی کا استعمال کرتا ہے؟ اور اگر کر رہا ہے تو پاکستان کا اس سے کیا نقصان ہوا ہے؟
انڈین فوجتصویر کے کاپی رائٹAFP
کہا جاتا ہے کہ انڈیا 'کولڈ سٹارٹ' جیسی حکمت عملی پر برسوں سے عمل پیرا ہے لیکن انڈین حکومت یا مسلح افواج نے اسے کبھی باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
انڈیا کے فوجی سربراہ جنرل بپن راؤت نے رواں برس کے آغاز میں جب اپنا عہدہ سنبھالا تو کھلے عام اس فوجی ڈاکٹرین کے وجود میں ہونے کی بات کہی تھی۔
لیکن یہ ڈاکٹرین ہے کیا؟ کولڈ سٹارٹ کا مطلب ہے 'گرم جنگ' سے بچنے کے لیے اپنائی جانے والی حکمت عملی۔ کہا جاتا ہے کہ انڈین آرمی نے اسے پاکستان کے ساتھ ممکنہ جنگ کی صورت میں استعمال کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔
اس کے تحت انڈين فوج کے مختلف شعبے ایک متحدہ بیٹل گروپ کی صورت میں اوفینسیو آپریشن چلاتے ہیں۔
فوجیتصویر کے کاپی رائٹAFP
اس ڈاکٹرین کا مقصد ٹکراؤ کی صورت میں انڈیا کی روایتی سکیورٹی فورسز کو محدود حملہ کرنے کی پوزیشن میں لانا ہے تاکہ پاکستان کی جانب سے کسی ایٹمی ردعمل کو بھی روکا جا سکے۔
اس فوجی حکمت عملی کے متعلق جب انڈین ایکسپریس کے صحافی اور دفاعی تجزیہ کار سوشانت سنگھ سے پوچھا گيا تو ان کا کہنا تھا: 'جب 2001 میں پارلیمنٹ پر حملے کے بعد انڈین فوج کو موبلائز کیا گيا تو اس کی نقل و حرکت میں کافی وقت لگا تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ فوج کو ملک کے مختلف اندرونی علاقوں سے آنا پڑا تھا۔'
پاکستانی فوجیتصویر کے کاپی رائٹAFP
سوشانت سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'اس کے بعد حکومت اور انڈین فوج نے اس بات پر غور و فکر کیا کہ ایسا کیا کیا جائے کہ پاکستان کی جانب سے حملے کی صورت میں انڈین فوج کو فوری طور پر موبلائز کیا جا سکے۔'
انھوں نے کہا: ’اس کے تحت جو منصوبہ تیار کیا گيا اسے 'کولڈ سٹارٹ' کا نام دیا گيا۔ فوج کے تمام بریگیڈ اور بٹالینز کو سرحد کے پاس لانے کی بات ہوئی، پلاننگ اور لاجیسٹک میں تبدیلی لانے پر غور کیا گيا۔'
ان کے مطابق ’جس طرح گاڑی کو بغیر گرم کیے ہوئے سٹارٹ کیا جاتا ہے اسی طرح فوج کو بھی تیار کیا جاتا ہے۔‘
اس کے تحت کچھ بریگیڈ اور بٹالینز آگے آجاتی ہیں۔ پٹریوں اور راستوں کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کچھ سکیمیں بنائی جاتی ہیں اور کچھ یونٹس کے آپریشنل کردار تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔
فوجیتصویر کے کاپی رائٹAFP
تو پھر سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے آخر پاکستان کیوں فکر مند ہے؟
اس کے جواب میں سوشانت سنگھ نے کہا کہ انڈین حکومت نے یہ بات کبھی تسلیم نہیں کی کہ وہ 'کولڈ سٹارٹ' کی ڈاكٹرین پر عمل کر رہی ہے۔ فوج نے تو شاید ایک دو بار کیا ہے لیکن حکومت نے کبھی نہیں۔'
'اس بنیاد پر یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے پاکستان چھوٹے رینج کے میزائل تیار کر رہا ہے، تو یہ غلط ہے۔ وہ اسے بہانے کے طور پر استعمال کرتا ہے، ٹیسٹنگ کرنے کے لیے یہ سب کہہ رہا ہے۔'
تو کیا دوسرے ممالک بھی ایسا کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں سوشانت سنگھ نے کہا کہ 'ایسا کوئی واقعہ دیکھنے میں تو نہیں آيا۔دراصل کولڈ سٹارٹ کا مقصد فوج کو کم سے کم وقت میں متحرک کرنا ہے۔'
انڈیا پاک سرحدتصویر کے کاپی رائٹAFP
ایک اور تجزیہ کار سوشانت سرین نے بھی اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ڈاکٹرین اور فوجی منصوبہ بندی کے درمیان بہت فرق ہوتا ہے۔ جب 2001 میں پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو پاکستان کو سزا دینے کی بات ہوئی اور فوج کو تیار ہونے کے لیے کہا گیا لیکن جب تک فوج تیار ہوتی اس وقت تک حالات بدل چکے تھے۔'
انھوں نے کہا: 'تب اس بات کو محسوس کیا گيا کہ فوج کو متحرک کرنے میں اتنا وقت لگتا ہے کہ اس کی کارروائی کا مقصد ہی ختم ہوجائے۔ تو پھر ایک ایسے بیٹل پلان کو تیار کیا گيا کہ اگر پاکستان کوئی حماقت کرتا ہے تو انڈین فوج سرحد کے مختلف حصوں پر 24 سے 48 گھنٹے کے اندر حملہ کر سکے۔'
انڈین فوجیتصویر کے کاپی رائٹAFP
سرین کے مطابق اس حکمت عملی کے تحت جب تک دشمن حملے پر اپنا ردعمل ظاہر کرے اس وقت تک باقی افواج کو بھی حملے کے لیے تیار کیا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ 'اب پاکستان نے اس کا توڑ ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کی شکل میں نکالا ہے جو محدود علاقے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی طاقت بھی کم ہوتی ہے۔'
سرین نے کہا کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان یہ پہلے سے بھی کہتا رہا ہے۔ ’پاکستان کے وزیراعظم نہ تو جنگ چھیڑ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اسے روک سکتے ہیں۔ یہ حق تو فوج کے پاس ہے۔‘

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment