ACTION RESEARCH FORUM: SHOULD INDIA & PAKISTAN CHANGE IN SAME RYTHM AGAINST FEUDAL SUPPRESSION
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-41410409
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-41410409
کیا انڈیا اپنی راہ تلاش کرنا شروع کرے گا؟
فرانسیسی مصنف ملان کندرا نے حکومت کے خلاف انسان کی جدوجہد کو نسیان کے خلاف یاد رکھنے کی جدوجہد سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن ایمرجنسی کو یاد رکھنے کے لیے ہم نے کیا کیا؟
کیا ہندوستان میں کہیں کوئی میوزیم، کوئی آرٹ گیلری یا کوئی اور یادگار موجود ہے جو یہ بتائے کہ کس طرح ایمرجنسي میں اس وقت انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپوزیشن سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر ان کے بڑے لیڈروں کو راتوں رات جیل میں ڈال دیا اور پھر اگلے 19 ماہ تک ملک میں سینسر شپ اور خوف کا سایہ ہر جگہ پھیلا رہا؟
ایمرجنسی کا ذکر کتابوں اور فلموں میں تو آتا ہے لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں ہندوستانی تاریخ کے اس سیاہ باب کو نئی نسلوں کی یادداشت میں محفوظ رکھنے کے لیے کسی عوامی جگہ پر ایمرجنسی کے لیے وقف کوئی میوزیم یا نشان موجود نہیں ہے۔ جو جماعتیں بار بار کانگریس کو نرغے میں لینے کے لیے ایمرجنسی کا حوالہ دیتی ہیں انھوں نے بھی 19 مہینوں کی جہد مسلسل کو صرف سیمناروں تک محدود کر دیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں انڈیا کے مقابلے کہیں زیادہ سیاہ صفحات ہیں۔ انڈیا میں اگر ایک بار 19 ماہ کے لیے آمریت کا ستم برپا ہوا تو 70 سال کی تاریخ میں پاکستان کے عوام نے تین بار براہ راست اور ایک بار بالواسطہ طور پر فوجی حکومت کی بندوق کی ٹھنڈی نال اپنی گردن پر محسوس کی ہے۔
پھر بھی پاکستان نے اپنی تاریخ کے ان سياہ صفحات کو موڑ کر کہیں خفیہ تہہ خانے میں گم نہیں ہونے دیا بلکہ دارالحکومت اسلام آباد میں ایوان پارلیمان کے باہر اور اندر ان یادوں کو پتھروں اور دیواروں پر کندہ کر دیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں کہ ان کے ملک پر کب کیسا وقت گزرا۔
اسلام آباد میں پاکستانی سینیٹ کے باہر تصاویر کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ کس طرح اس ملک میں ہر دور میں شہری حقوق، بولنے کی آزادی اور جمہوری حقوق پر حملہ ہوا اور کس طرح عام لوگوں نے، وکلا، طلبا، مزدوروں، کسانوں اور شاعروں نے اپنی آواز کو جمہوریت کے حق میں اور آمریت کے خلاف اٹھایا۔
سینیٹ کی عمارت میں دستور گلی ہے۔ یہ ایک عام راہداری ہے لیکن یہاں آ کر محسوس ہوتا ہے کہ بائيں بازو نظریات سے متاثر کسی آرٹ گیلری میں آ گئے ہوں۔ اس راہداری کی دیواروں پر گذشتہ 70 سال میں جمہوریت کو بچانے کی جدوجہد کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
اس گلی کی تعمیر کو ایک سال ہوچکے ہیں۔ پارلیمان میں آرٹ کے ذریعے جمہوریت اور آئین کو بچانے کی لڑائی کو پیش کرنے کا فیصلہ پاکستانی سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے لیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رضا ربانی کو جمہوریت کے حامی، دانشور اور مصنف کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ اپنی طالب علمی کے دور سے ہی بائيں بازو کے نظریات کے رابطے میں آ گئے تھے۔ ضیاالحق کے مارشل لا کے دوران انھیں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
جو ملک چار بار فوجی حکومت کا ذائقہ چکھ چکا ہو اور جہاں اب بھی فوج کی بالادستی کہی جاتی ہو، وہاں پارلیمنٹ کے اندر فن کے ذریعہ جمہوریت کی لڑائی کی تاریخ کو درج کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کام میں رضا ربانی نے نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) کے طالب علموں اور ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم عمر ترار کی مدد لی۔
دستور گلی کو فاصلے سے دیکھنے پر چار کالے رنگ کی پٹیاں نظر آتی ہیں۔ یہ سیاہ پٹیاں جمہوریت کی معطلی اور فوجی حکمرانی کی علامت ہیں۔ ان میں اس دور کے اخبار کی سرخیوں کو نمایاں کیا گيا ہے۔
پاکستان کے کوریڈور میں پہلی سیاہ پٹی آزادی کے 11 برس بعد یعنی 1958 میں آ گئی تھی جب ریٹائرڈ میجر جنرل اسکندر مرزا نے وزیر اعظم فیروز خان نون کو برخاست کرکے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔
پھر 1977 میں جنرل ضیاءالحق نے اقتدار سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹا دیا اور انھیں پھانسی دے دی۔ ضیاء الحق کی طیارے کے حادثے میں موت کے بعد فوج کے قریب سمجھے جانے والے غلام اسحاق خان پاکستان کے صدر بنائے گئے جندوں نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کو برخواست کیا۔
پھر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کو ختم کر دیا۔
دستورگلی میں فیض احمد فیض، حبیب جالب، جون ایلیا، احمد فراز جیسے شاعروں کی تصاویر اور وال پیٹنگ بنائي گئي ہیں۔ یہ وہ شاعر تھے جنھوں نے پاکستان میں کسانوں، مزدوروں، طالب علموں کو، وکلاء، دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کی آزادی کے گیت گائے تھے۔ حبیب جالب نے لکھا:
'دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
'چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
'وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
'ایسے دستور کو صبح بے نور کو
'میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا'
آمر حکومت کے خلاف فیض احمد فیض کی نظم سرحد کے آر پار آج بھی گائی جاتی ہے: 'نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔'
ہند کی جانب لوٹتے ہیں۔
ایمرجنسی کی مخالفت کرنے کے لیے رکشے پر سوار ہو کر پٹنہ کی سڑکوں پر وید ناتھ مشر 'ناگارجن' گاتے پھرتے تھے: 'اندو جی، اندو جی، کیا ہوا آپ کو، ستّا (اقتدار) کے نشے میں بھول گئیں باپ کو۔' انھوں ببانگ دہل بندوق کی حکومت کو للکارا۔
بابا ناگارجن کی کوئی انقلابی نظم یا ان کی کوئی تصویر آپ کو ہندوستان میں کسی چوراہے یا سرکاری عمارت میں لکھی ہوئی نظر آتی ہے؟ کیا کبھی کناٹ پلیس کے مرکزی پارک میں بھاری پتھر گاڑكر اس پر سرویشور دیال سکسینہ کی سطریں لکھی ہوئي دیکھی ہیں؟
کیا امرتسر یا چنڈی گڑھ کے کسی چوراہے پر اوتار سنگھ پاش کی یہ سطریں کسی جھرنے کے پانی سے بھيگتي ملیں گی؟
'سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے مردہ شانتی سے بھرجانا
تڑپ کا نہ ہونا
سب کچھ سہن (برداشت) کر جانا۔۔۔
سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ہمارے سپنوں کا مرجانا'
پاکستانیوں نے تو اپنے پارلیمان میں ہی فیض احمد فیض، حبیب جالب، جون ایلیا جیسے اپنے شاعروں کو عزت بخشی ہے۔
اپنے شاعروں کے روشن کردہ مشعل کی روشنی میں کیا کبھی انڈیا اپنی راہ تلاش کرنا شروع کرے گا یا یہاں کی جمہوریت میں ناگارجن، سرویشور اور پاش جیسے شاعروں سے حکمراں ہیمشہ ڈرتے ہی رہیں گے؟
No comments:
Post a Comment