ACTION RESEARCH FORUM: IN MINUTES HIGHLAND STATE SIKKIM ILLICITLY MERGED IN INDIA, REACTING ON RED CHINA COMMENTS IN AGRA HOW FAR TAJMAHAL FROM CHINESE BORDER. THAT WAS THE END OF BRTISH MCMOHAN LINE.
IT IS NOT OPIUM CHINA BRITISH COLONY, AN EMERGING WORLD POWER AND INDUSTRIAL ASIAN HUB. INDIA STILL COW DUNG DREAMER, INHERITED DESAI COW URINE DRINKER AND SO MODI LOVER.
SOURCE: http://www.bbc.com/urdu/regional-41438508
IT IS NOT OPIUM CHINA BRITISH COLONY, AN EMERGING WORLD POWER AND INDUSTRIAL ASIAN HUB. INDIA STILL COW DUNG DREAMER, INHERITED DESAI COW URINE DRINKER AND SO MODI LOVER.
SOURCE: http://www.bbc.com/urdu/regional-41438508
سِکّم کی انڈیا انضمام کی کہانی
چھ اپریل سنہ 1975 کی صبح سِکّم کے راجہ چوگیال کو اپنے شاہی محل کے گیٹ کے باہر انڈین فوجیوں کے ٹرکوں کی آواز سنائی دی۔
وہ دوڑ کر کھڑکی کے پاس پہنچے۔ ان کے شاہی محل کا چاروں طرف سے انڈین فوجیوں نے محاصرہ کر رکھا تھا۔
اس کے بعد مشین گنوں کے چلنے کی آواز گونجی اور شاہی محل کے دروازے پر تعینات بسنت کمار چیتری گولی کھا کر نیچے گرے۔ پانچ ہزار بھارتی فوجیوں کو شاہی محل کے 243 محافظوں کو قابو کرنے میں صرف 30 منٹ لگے۔
اسی روز تقریباً پونے ایک بجے کے بعد سِکّم کا بطور ایک آزاد ریاست کا درجہ ختم ہوگيا۔ چوگیال نے پوری دنیا کو ریڈیو پر خود ہی خبر دی اور کئی ملکوں میں ان کے اس ایمرجنسی پیغام کو سنا گيا۔
سِکّم کے راجا چوگیال کو ان کے اپنے ہی محل میں نظربند کر دیا گیا۔
دہلی کے میونسپل كمشنر بی ایس داس جب لنچ کر رہے تھے تو ان کے پاس بھارتی خارجہ سیکریٹری کیول سنگھ کا فون آیا کہ وہ ان سے ملنے فوری طور پر دفتر آجائیں۔
تاریخ تھی 7 اپریل، 1973۔ جب داس وزارت خارجہ کے دفتر پہنچے تو کیول سنگھ نے گرمجوشی سے ان کا استقبال کرتے ہوئے کہا: 'آپ کو سِکّم حکومت کی ذمہ داری لینے کے لیے فوری طور پر گینگٹاک بھیجا جا رہا ہے۔ آپ کے پاس تیاری کے لیے صرف 24 گھنٹے ہیں۔'
بی ایس داس گینگٹاک پہنچے اور انھیں ایک جلوس کی شکل میں پیدل ان کی رہائش گاہ پر لے جایا گیا۔ اگلے روز جب انھوں نے چوگيال سے ملنے کا وقت مانگا تو انھوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ اپنے جوتشیوں سے صلاح و مشورے کے بعد ملاقات کے بارے میں سوچیں گے۔
داس کہتے ہیں: 'یہ ایک بس عذر تھا، دراصل وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ مجھے یا میرے عہدے کو تسلیم نہیں کرتے۔'
اگلے روز چوگیال نے داس کو خود بلایا، لیکن میٹنگ ایک بہت ہی سخت ماحول میں ہوئی۔ چوگيال کا پہلا جملہ تھا: 'مسٹر داس اس مغالطے میں مت رہیے گا کہ سکّم گوا ہے۔'
ان کی پوری کوشش تھی کہ انھیں بھی بھوٹان جیسا ہی درجہ دیا جائے۔ 'ہم ایک آزاد، خودمختار ملک ہیں، آپ کو ہمارے آئین کے تحت ہی کام کرنا ہوگا، انڈيا نے آپ کی سروسز ہماری حکومت کو سونپی ہیں، اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں کبھی دبانے کی کوشش مت کیجیے گا۔'
سِکّم کو انڈیا میں ضم کرنے میں بی ایس داس نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
معروف سیاسی تجزیہ کار مرحوم اندر ملہوترا کا خيال تھا کہ سکّم کو انڈیا میں ضم کرنے کا خیال سنہ 1962 میں چین کے ساتھ ہونے والی جنگ کے بعد آيا تھا۔
سٹریٹیجک امور کے ماہرین نے محسوس کیا کہ چین کی 'چمبی وادی' کے قریب انڈیا کی صرف 21 میل کا علاقہ ہے جسے 'سلّی گڑی نیک' کہا جاتا ہے۔
اگر چینی چاہیں تو ایک گھنٹے میں اس علاقے کو الگ کر کے شمالی بھارت میں داخل ہوسکتے ہیں۔ سِکّم تو چین کی چمبی وادی سے بالکل جڑا ہوا ہے۔
سِکّم کے راجہ چوگیال نے ایک امریکی لڑکی 'ہوپ کک' سے شادی کی تھی۔ انھوں نے ہی چوگيال کو اکسانا شروع کیا تھا اور راجہ کو محسوس ہوا کہ اگر سِکّم کو مکمل طور پر آزاد کرنے کا مطالبہ کریں گے تو امریکہ ان کی حمایت کرے گا۔ لیکن انڈیا اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
لیکن چوگیال کو ضرورت سے زیادہ شراب پینے کی عادت تھی جس کی وجہ سے دونوں میں لڑائیاں ہونے لگیں۔ آخر میں، ہوپ کک نے سکّم کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور امریکہ واپس لوٹ گئيں۔ حالانکہ چوگيال نے ان سے اس مشکل گھڑی میں ساتھ رہنے کی درخواست کی لیکن محترمہ کک نے ان کی بات نہیں تسلیم کی۔
داس انھیں چھوڑنے کے لیے گئے تھے۔ ان کے آخری الفاظ تھے: 'مسٹر داس، میرے شوہر کا خیال رکھنا۔ اب میرا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔'
داس کہتے ہیں کہ آٹھ مئی کو معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھی چوگيال نے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انھوں نے اس سلسلے میں بہت سے لوگوں سے مدد بھی طلب کی۔
اسی دوران سِکّم میں انتخابات کرانے کا اعلان ہوا جس میں چوگيال کی نیشنلسٹ پارٹی کو 32 میں سے صرف ایک سیٹ ملی۔
اس دوران وہ نیپال کے بادشاہ کی تاجپوشی میں سرکاری مہمان کے طور پر کھٹمنڈو گئے۔ وہاں انھوں نے پاکستانی سفیر اور چین کے نائب وزیر اعظم چن سی لیو سے ملاقات کی اور ان سے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے تعاون کی درخواست کی۔
بی ایس داس نے انھیں تحریری طور پر بتایا کہ وہ بیرونی تعاون لینے کے چکر میں نہ پڑیں۔ 'آپ کی خاندانی بادشاہت برقرار رہے گی۔ آپ کا بیٹا آپ کا جانشین بنے گا۔ لیکن آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ پروٹیکٹیڈ ہیں اور آٹھ مئی کے معاہدے کو تسلیم کرتے ہیں۔'
لیکن سِکّم کے راجا چوگيال نے ان کی نہیں سنی اور اس بات پر اصرار کیا کہ 'میرا تو ایک آزاد ملک ہے اور میں اسے ترک کرنے والا نہیں ہوں۔'
اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے سیکرٹری پی این ایس دھر نے اپنی کتاب 'اندرا گاندھی، دی ایمرجنسی اینڈ انڈين ڈیموکریسی' میں لکھتے ہیں اس معاملے میں 'جس انداز سے چوگيال نے اندرا گاندھی کے سامنے اپنا موقف پیش کیا اس سے میں بہت متاثر ہوا۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا سکّم میں جن سیاستدانوں پر انحصار کرتا ہے وہ اعتماد کے قابل نہیں ہیں۔'
لیکن بات بن نہیں پائی اور بالآخر اندرا گاندھی اور ان کی ملاقات بے معنی رہی۔
داس کہتے ہیں کہ صرف ایک ہی بار انھوں نے چوگیال کو شکست خوردہ دیکھا۔ جب ان کا بیٹا اور ان کا وارث ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تو انھوں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔'
پھر سنہ 1982 میں کینسر سے ان کی موت ہوگئی۔
جب سِکّم کے بھارت میں انضمام کی مہم شروع ہوئی تو چین نے اس کا موازنہ روس کے چیکوسلوواکیا کے خلاف 1968 کے حملے سے کیا۔
اس وقت اندرا گاندھی نے چین کے تبت پر حملے کو یاد دلایا۔ بھوٹان اس سے یقینا خوش ہوا۔ لیکن نیپال میں اس کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج ہوا۔ چونکہ سِکّم میں 75 فیصد آبادی نیپالی نژاد لوگوں کی تھی اس لیے وہاں اس پر ردِعمل بہت سخت ہوا تھا۔
انڈيا میں بھی بعض حلقوں کی جانب سے اندرا گاندھی کے ان اقدام پر شدید نکتہ چینی ہوئی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ سِکّم کو انڈيا کے ساتھ ضم کرنے کی پوری مہم میں بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی را نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
23 اپریل 1975 کو انڈیا کے ایوان زیریں لوک سبھا میں سِکّم کو انڈيا کی 22ویں ریاست بنانے کا ایک ترمیمی بل پیش کیا گيا۔ اسی روز یہ بل 11 کے مقابلے 299 ووٹ سے منظور کر لیا گیا۔
اس وقت کے صدر فخرالدین علی احمد نے 15 مئی سنہ 1975 کو اس بل پر دستخط کیے اور اس کے ساتھ ہی سکّم سے نامگیال شاہی خاندان کا اقتدار ختم ہو گیا۔
No comments:
Post a Comment