Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-41384235
سیاچن: پاکستان اور انڈیا کے لیے انا کی دلدل
قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں تقریباً 20 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سیاچن کا محاذ دنیا کا ایک انوکھا جنگی محاذ تصور کیا جاتا ہے۔
یہاں گذشتہ 33 برس سے پاکستان اور انڈیا کی افواج مدِمقابل ہیں اور یہ جنگ پاکستان اور انڈیا کے لیے انا کا ایسا دلدل بن چکی ہے جس سے نکلنا مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے لیے ممکن نظر نہیں آتا۔
اس عرصے میں تقریباً تین سے پانچ ہزار فوجی اور کروڑوں ڈالرز گنوانے کے باوجود دونوں ممالک کے عسکری حکام اس محاذ سے واپسی پر قائل نہیں ہو سکے ہیں۔
اپریل 2012 میں گیاری کے مقام پر پاکستانی فوج کے ایک بٹالین ہیڈ کوارٹر کے برفانی تودے تلے دبنے کے نتیجے میں 140 جوان ہلاک ہوئے تو پاکستانی فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوجوں کی واپسی اور سیاچن کا محاذ ختم کرنے کی تجویز دی جس کے بعد اُسی سال دونوں ملکوں نے مشترکہ اجلاس منعقد کیا لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔
پاکستانی فوج کے سیاچن 323 بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر نیر نصیر کا کہنا ہے کہ 'جنرل اشفاق کیانی نے انڈیا میں اپنے ہم منصب افسران کو تجویز دی تھی کہ ہم دنیا کے مشکل ترین محاذ پر جنگ لڑ رہے ہیں اور یہاں قدرت سے اور علاقے کی دشواریوں سے نقصان اٹھا رہے ہیں تو اس پر سوچنا چاہیے۔ میری معلومات کے مطابق یہ مشورہ وہاں ایک حد تک سنا گیا تھا لیکن شاید سیاسی وجوہات کی بنا پر مزید شنوائی نہیں ہو سکی۔'
بریگیڈیئر نصیر نے مزید کہا کہ امن قائم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ دونوں ممالک کی افواج مل بیٹھ کر اس پر گفتگو کریں۔
'جب تک دونوں فوجیں سختی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں گی تو مسئلے کا حل نہیں ملے گا۔ ضروری یہ ہے کہ ہم ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں تو شاید کوئی مناسب راستہ نکل آئے۔'
پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1999 میں کارگل کے واقعے کے بعد سیاچن پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے لیکن 2003 تک پاکستان کے نئے سربراہ، فوجی جنرل پرویز مشرف اور انڈیا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اعتماد کی فضا بحال کرنے میں مثبت پیشرفت کی اور اسی سال کے آخر میں ایل او سی کے ساتھ ساتھ سیاچن کے محاذ پر بھی جنگ بندی کا معاہدہ طے کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن فوجوں کی واپسی اور سرحدوں کی حد بندی کا معاملہ حل نہ ہو سکا۔
گذشتہ 14 سالوں سے سیاچن پر بندوقیں استعمال نہ ہونے کے باوجود دونوں فریقین اپنے بنیادی موقف پر کسی قسم کی بھی لچک دکھانے سے قاصر ہیں۔
انڈیا اس بات پر مصر ہے کہ اس محاذ پر اس کی عسکری برتری اور ان کی حقیقی زمینی پوزیشن (اے جی پی ایل) کو قانونی حیثیت دی جائے اور اسے بلاچوں چرا تسلیم کیا جائے۔
دوسری جانب پاکستان کا نقطہ نظر ہے کہ شملہ معاہدے کی پاسداری کی جائے اور اس کے تحت فوجوں کی پوزیشن متعین کی جائے۔
انڈین فوج کے سابق جنرل سید عطا حسنین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'انڈیا کے لیے معاملہ اعتماد اور بھروسے میں کمی کا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'سیاچن کا معاملہ مسئلہ کشمیر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور دونوں فریقین کو دلیری سے فیصلہ کرنا ہوگا۔'
سیاچن کی جنگ پر کتاب 'ہائیٹس آف میڈنس' تحریر کرنے والی صحافی مائرہ میکڈونلڈ بھی انڈین جنرل عطا حسنین کی بات سے متفق دکھائی دیتی ہیں۔
'اپریل 1984 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے جنگ کا محاذ اتنا پھیل گیا ہے کہ دونوں فوجیں اب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے مشرقی سرے تک پہنچ چکی ہیں اور اب وہ ایل او سی کا معاملہ حل کیے بغیر وہاں سے واپس نہیں جا سکتیں۔'
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ' کارگل کی جنگ کی بعد سے انڈیا کا پاکستان کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور اسے ڈر ہے کہ اگر وہ اپنی فوجیں واپس بلا لے، تو پاکستان کارگل کی طرح ان چوکیوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا جیسے اس نے 1999 میں کیا تھا۔'
مائرہ میکڈونلڈ کے مطابق اگر سیاچن کے مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈنا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے دونوں افواج کو ایک دوسرے پر اعتماد بڑھانا ہوگا۔
'اعتماد بڑھانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں ملک اپنے اپنے تحقیقی مشن بھیجیں تاکہ سیاچن گلیشیئر پر فوجی موجودگی سے ہونے والے ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں تحقیق کی جا سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی موجودگی سے اس گلیشیئر پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔'
سیاچن بریگیڈ کے نائب کمانڈر کرنل عامر اسلام نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے سیاچن گلیشیئر پر آنے والی موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے متعلق بتایا کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کا اثر سیاچن گلیشیئر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
'ماحولیاتی تبدیلی کا اثر سیاچن گلیشیئر پر بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے فوجی جب اپنی چوکیوں پر جانے کے لیے نکلتے ہیں تو پہلے سے طے شدہ راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ پچھلے سال کے مقابلے میں ان راستوں پر کھلنے والی دراڑوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جہاں پہلے پانچ سے چھ دراڑیں ملتی تھیں وہاں اب نو سے دس ملنے لگی ہیں جن سے جان جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔'
کرنل عامر اسلام نے مزید بتایا کہ دراڑوں کے ساتھ ساتھ برفانی طوفان اور سنو سلائیڈ کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے جو کہ اپنے ساتھ برفانی تودے لا سکتا ہے۔
ایسا ہی حادثہ پچھلے سال انڈین آرمی کے ساتھ بھی ہوا جب ان کے نو فوجی برفانی طوفان میں دفن ہو گئے لیکن انڈیا کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اپنے بیان میں انڈین فوج کی واپسی کو مکمل طور پر خارج الامکان قرار دیا۔
سیاچن پر جنگ شروع ہونے کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان اور انڈیا نے اس مسئلے کے حل کے لیے 13 مشترکہ اجلاس SIACHINمنعقد کیے ہیں لیکن مختلف مراحل میں معاملے کے حل کے قریب پہنچنے کے باوجود منزل تک رسائی ممکن نہیں ہوئی ہے۔
اس کے باوجود چند ماہرین کے خیال میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تمام تنازعات میں سے سیاچن کا مسئلہ قابل حل نظر آتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی کی جارج میسن یونیورسٹی کے پروفیسر احسن بٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: 'اگر سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو سیاچن کا معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔ کئی لوگ کہیں گے کہ عسکری طور پر سیاچن کا محاذ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن ان سے میرا یہ سوال ہے کہ ان کو یہ اہمیت ملک بننے کے 40 سال بعد کیوں یاد آئی؟'
No comments:
Post a Comment