Tuesday, 5 September 2017

IND + MIAMAR: NO JUSTICE FOR MUSLIMS + TURKEY STARTING REFUGEES SUPPLY

ACTION RESEARCH FORUM: THIS RACIL HATRED  WILL INCUBATE ANOTHER PARTITION OF HEARTS OF LAND, TRUMP MENTALITY IN ACTION, HUMAN BLOOD SHEDDING

Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-41157559

مسلمانوں کو انصاف کی امید چھوڑ دینی چاہیے!


روہنگیا
Image captionانڈیا میں روہنگیا پناہ گزینوں کو مقام افراد کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا ہے

ان دنوں حق اور انصاف کے بارے میں بات کرنا ایک خاصا مشکل کام ہے، خاص طور پر اس وقت جب آپ کی دلیل مسلمانوں کے حق میں جاتی ہو۔
اگر کوئی مسلمان اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کریں تو انھیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی ہندو ایسا کرے تو اس سے نمٹنا ضروری ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والوں نے جناح کے بجائے گاندھی کو قتل کیا تھا کیونکہ ہندو ہوتے ہوئے وہ جس انصاف کی بات کر رہے تھے وہ کچھ لوگوں کو مسلمانوں کی طرفداری نظر آ رہی تھی۔
یہ مضمون مسلمانوں کی طرفداری میں نہیں لکھا جا رہا ہے، لیکن یہ خدشہ اور افسوس ہے کہ اسے شاید اسی طرح پڑھا جائے۔
کیا سیکولر، کمیونسٹ اور مسلم پرست ہونے کے الزامات کے خوف سے انصاف پسند اور حقیقت پسند لوگ لکھنا اور بولنا بند کر دیں؟ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے پرتشدد واقعات کا حساب کتاب مسلمانوں سے مانگنے پر تلے ہوئے ہیں۔
عراق کا حساب راجستھان میں، نائیجیریا کا حساب جھارکھنڈ میں مانگا جا سکتا ہے، کشمیری مسلمانوں کا غصہ میواتی مسلمانوں پر اتارا جا سکتا ہے، اور ایسے تشدد کے متاثرین سے ہمدردی رکھنے والوں کو منصوبہ بند طریقے سے قابل مذمت بنا دیا گیا ہے۔

روہنگیا
Image captionجموں میں پناہ حاصل کرنے والے روہنگیا خیموں میں رہتے ہیں

امریکہ، یورپ سے لے کر انڈیا تک میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاست میں جوسکرپٹ لکھی جا رہی ہے اس کے مرکز میں ہیرو کے بجائے ولن ہیں۔ اس سکرپٹ میں جو کوئی بھی ولن کو مار سکے ہیرو ہو سکتا، یہ ایک ہٹ فارمولہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے سر عام مسلم مخالف بیان اور اس کے بعد انڈیا میں ان کی کامیابی کے لیے کی جانے والی پوجا اور دعا کے پس پشت کارفرما چاہت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ یگیہ (پوجا) دیوتا جیسے ٹرمپ' کی جیت اور 'دیو جیسے مسلمانوں' کی بدحالی کے لیے کیے جا رہے تھے۔

کیا مسلمان کبھی شکار نہیں ہو سکتا؟

بہت سے لوگ یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ دولت اسلامیہ، بوکو حرام سے لے کر طالبان اور لشکر تک، دنیا کی ہر متشدد سرگرمیوں کے لیے صرف مسلمان ذمہ دار ہیں۔ اس کا آسان نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ظلم کے شکار کسی مسلمان کے لیے ہمدردی ظاہر کرنا دہشت گردی کی حمایت کرنا ہے۔
مقبول نظریہ ان دنوں یہ ہے کہ مسلمانوں ہر طرح سے یا تو فتنہ گر ہیں یا پھر ان کے حامی ہیں۔ وہ آفت زدہ، مصیبت زدہ اور ظلم و جبر کا شکار ہو ہی نہیں سکتے۔ پہلے مسلمانوں کو سدھرنا ہوگا۔ اس سے پہلے انھیں ملک، سماج اور قانون سے انصاف یا رحم کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
اسی دلیل کے تحت کشمیر میں پیلیٹ گن کی مار سے اندھے ہونے والے نوجوانوں سے ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کو 'غدار' ہونے کا تمغہ دیاگیا۔ اخلاقوں اور جنیدوں کی ہلاکتوں کو حادثہ سمجھ کر نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

برما
Image captionبرما میں مسلم اقلیت روہنگیا کے مکانوں کو نذر آتش کیے جانے اور انھیں مارے جانے کی اطلاعات ہیں

یہ ایک خوفناک صورتحال ہے جس میں انصاف، منطق، صوابدید اور انسانی رحم کے جذبات کی جگہ نفرت، انتقام، فساد غلط پرچار اور ظلم نے لے لی ہے۔
چند لوگوں کے غلط کام کی وجہ سے 1.6 ارب لوگوں کے ہرکسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور جو غیر مسلم ہیں انھیں ناانصافی نظر آنی بند ہو جائے تو ہم واقعتا ایک خطرناک دور میں جی رہے ہیں۔.

روہنگیا آخر جائیں تو جائيں کہاں؟

ایسے ماحول میں جب اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی بدحال ترین برادرکی کہہ رہا ہے تو ان کو پناہ دینے کی بات تو دور ان کے درد اور مصیبت کے بارے میں بات کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔
امریکی اور یورپی میڈیا میں رپورٹ شائع ہو رہی ہیں کہ کیسے برما میں ہزاروں روہنگیا کھانے اور پانی کے بغیر پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں برما کے فوجی معصوم، بے سہار افراد کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف ہیں۔
برما انھیں اپنا شہری ماننے کو تیار نہیں ہے، ان کے لیے نہ بنگلہ دیش میں جگہ ہے، نہ ہی دنیا کو امن، عدم تشدد اور ہمدردی کا پیغام دینے والے بدھ-گاندھی کے ہندوستان میں ان کے لیے کوئی جگہ ہے۔

کشمیری لڑکیتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionپیلٹ گن کا شکار ایک لڑکی کو ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے دیکھا جا سکتا ہے

عالمی سربراہ بننے کی خواہش رکھنے والا انڈیا اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی طاقتور، بااثر اور عزت دار ملک نہیں جس نے پناہ گزینوں کو جگہ نہ دی ہو۔ بہر حال یہ دنیا کی سیاست میں ٹرمپ کا دور ہے، جس میں کمزوروں کے خلاف آگ اگلنے کو مردانگی سمجھا جانے لگا ہے۔

انڈیا بھی دوہرے معیار کو اپنا رہا ہے؟

انڈیا نے ہی سری لنکا سے آنے والے تملوں، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں اور افغانستان سے آئے سکھوں کو پناہ دی ہے، مگر مسلمانوں کو پناہ دینے کے معاملے میں اس کا دل فراخ نہیں ہے۔
دو سال پہلے ہی انڈیا نے بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والی اقلیتوں (ہندوؤں) کو طویل مدتی ویزا دینے کا اعلان کیا ہے، جو واقعی ایک خوشگوار قدم ہے۔ دوسری طرف، انڈیا پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
حکومت ہند نے سنہ 2015 میں ہندوؤں کو طویل مدتی ویزا دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انسانی بنیاد پر دیا جا رہا ہے۔ کیا اب وہ انسانی حقوق کی بنیاد ختم ہو چکی ہے کیونکہ برما سے آنے والی اقلیت مسلمان ہے؟

ٹرمپ کے انڈین حامیتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionانڈیا میں ایک گروپ نے امریکی صدر ٹرمپ کی کامیابی کے لیے پوجا کی اور وہ ان کے مسلم مخالف بیان کی کھلے عام حمایت کرتے ہیں

سوشل میڈیا پر جو لوگ روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کی کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کیوں نہیں جاتے، انڈیا کیوں آ رہے ہیں؟ یہ ایسے لوگ ہیں نقشے پر یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے برما کہاں ہے اور پاکستان کہاں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ہندوستانی نسل کے نہیں ہیں لہذا ان کو پناہ دینا انڈیا کی ذمہ داری نہیں ہے۔ پھر امریکہ میں رہنے والے افغان یا ناروے میں رہنے والے سری لنکن کس نسل کے ہیں؟
مبصرین کہتے ہیں کہ اگر ان پناہ گزینوں کو انڈیا اپنے ملک سے نکالتا ہے تو یہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہوگي۔ پتہ نہیں ایسی حالت میں وہ کہاں جائيں گے۔

کہاں گئی ہے انسانیت؟


روہنگیاتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionروہنگیا مسلمانوں کی داد رسی کے لیے کوئی تیار نظر نہیں آتا

جے پور، دہلی اور جموں میں خیموں میں رہنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کو مقامی لوگوں کے غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی اہم وجہ ان کا مسلمان ہونا ہی ہے۔
کسی روہنگیا پناہ گزین سے بات کرکے دیکھیے، شاید اس نے لشکر، داعش، بوکو حرام، القاعدہ، الشباب یا حزب المجاہدین کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔
انپڑھ، غریب اور بے گھر روہنگیا پر نیو ورلڈ آرڈر میں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کی مذمت کرے، مسلمان مجرموں کے تمام گناہوں کو قبول کرے، اس کے لیے غیر مشروط معافی مانگے اور کہے کہ اس کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یعنی 'سدھر' جائے۔
اس کے بعد شاید وہ انصاف، رحمدلی اور انسانیت کی تھوڑی امید کر سکتا ہے، اور آپ پوچھ رہے ہیں، اس میں بھلا برائی کیا ہے؟

متعلقہ عنوانات


****  
Source https://arynews.tv/en/turkey-start-first-foreign-aid-distribution-myanmar/

SINTERNATIONAL

Turkey to start first foreign aid distribution in Myanmar

ANKARA: Turkey said it will start the first foreign deliveries of aid on Wednesday to northwestern Myanmar, where hundreds of people have been killed and nearly 125,000 have fled over the border to Bangladesh in the last 10 days.
A spokesman for President Tayyip Erdogan, who has described the violence against Rohingya Muslims there as genocide, said the deliveries were approved after Erdogan spoke by phone with Myanmar leader Aung San Suu Kyi on Tuesday.
Spokesman Ibrahim Kalin said 1,000 tonnes of food, clothes and medicine would be distributed by military helicopters.
He said Myanmar had given approval for officials from Turkey’s state aid agency TIKA to enter the country and deliver the assistance, in coordination with local authorities in Rakhine state.
Suu Kyi has faced increasing pressure from countries with Muslim populations to halt the violence against Rohingya Muslims which has prompted their flight to Bangladesh.

 READ MORE: MUSLIMS DEEPLY CONCERNED BY MYANMAR VIOLENCE, TURKEY TELLS SUU KYI

Reuters reporters saw hundreds more exhausted Rohingya arriving on boats near the Bangladeshi border village of Shamlapur on Tuesday, suggesting the exodus was far from over.
Erdogan told Suu Kyi that the violence against the Rohingya was violation of human rights and that the Muslim world was deeply concerned, Turkish presidential sources said.
Indonesian foreign minister Retno Marsudi, in Dhaka to discuss aid for the fleeing Rohingya, met her Bangladeshi counterpart, Abul Hassan Mahmood Ali, a day after urging Suu Kyi and Myanmar army chief Min Aung Hlaing to halt the bloodshed.

ALSO READ: SUU KYI AND MYANMAR FACE CHORUS OF ANGER OVER ROHINGYA CRISIS

The latest violence in Myanmar’s northwestern Rakhine state began on Aug. 25, when Rohingya insurgents attacked dozens of police posts and an army base. The ensuing clashes and a military counter-offensive have killed hundreds.
Erdogan, with his roots in political Islam, has long strived to take a position of leadership among the world’s Muslim community. On Friday, he said it was Turkey’s moral responsibility to take a stand over the events in Myanmar.
Foreign Minister Mevlut Cavusoglu will travel to Bangladesh on Wednesday evening and hold meetings on Thursday, Turkish sources said.
Print Friendly, PDF & Email
Please follow and like us:
20

COMMENTS

S



S



No comments:

Post a Comment