Sunday, 3 September 2017

IND: SUPER HINDUATA MINORITY SANCTIONS LIFE & DEATH OF DNA MINORITY

ACTION RESEARCH FORUM: IND: SUPER HINDUATA MINORITY SANCTIONS LIFE & DEATH OF  DNA MINORITY AND RELIGOUS  MINORITIES, INHUMAN CRIMINALITY - NATURE WILL RECKON THE SYSTEM, ONEDAY

Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-41136367

انڈیا میں ’دلتوں اور کمزور طبقے کی موت پر درد نہیں ہوتا‘

گرمیت رام رحیمتصویر کے کاپی رائٹAFP
گذشتہ ہفتے جب ہریانہ کی ایک عدالت نے ڈیرا سچا سودا کے سربراہ بابا گرمیت رام رحیم کو ریپ کے دو معاملات میں مجرم قرار دیا تو بابا کے ہزاروں حامی احتجاج میں تشدد پر اتر آئے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے گرمیت رام رحیم کے ایک لاکھ سے زیادہ حامیوں کو پنچ کولا کی عدالت اور اس کے اطراف میں ان اطلاعات کے باوجود ایک روز پہلے سے جمع ہونے دیا تھا کہ فیصلہ ناموافق ہونے کی صورت میں بابا کے حامی تشدد پر اتر سکتے ہیں۔
ان کے حامیوں نے فیصلہ آتے ہی شہر میں درجنوں گاڑیوں کو آگ لگا دی۔سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔صحافیوں پر حملے کیے اور ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود پورا شہر یرغمال بن کر رہ گیا۔
میڈیا میں ہر چینل پر ریاست کی بی جے پی حکومت پر تنقید ہونے لگی اور تجزیہ کار اس لاقانونیت اور تخریب کاری کو روکنے میں مکمل ناکامی کے لیے وزیراعلیٰ کو فوراً برطرف کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔
گرمیت رام رحیم کے سزا کے خلاف ہنگامےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
تنقید کے بعد ریاستی پولیس حرکت میں آگئی اور دو گھنٹے کے اندر بابا کے 38 حامیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ہلاک شدگان کو یہ گولیاں سینے اور اس کے اوپر لگی تھیں ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنہیں پیٹھ کی طرف سے گولی ماری گئی تھی یعنی انہیں اس وقت مارا گیا جب وہ بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مرنے والوں میں کئی بزرگ اور خواتین بھی تھیں۔
گرمیت رام رحیمتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
دنیا کے کسی اور ملک میں غیر مسلح احتجاجیوں کو اتنی بڑی تعداد میں مارے جانے پر ہنگامہ برپا ہو گیا ہوتا لیکن یہاں انڈیا میں ان کے مارے جانے پر کوئی سوال نہیں اٹھا اور نہ ہی کسی نے یہ پوچھا کہ آخر پولیس نے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے ہی کیوں گولی ماری۔
ان کے پیر یا نچلے حصے میں بھی گولی ماری جا سکتی تھی ۔ ہوائی فائر سے بھی لوگوں کو منتشر کیا جا سکتا تھا ۔ اس سوال کا جواب اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ بابا گرمیت کے حامی ہیں کون؟
بابا گرمیت رام رحیم کو ریپ جیسے بھیانک جرم میں 20 برس قید کی سزا دی چکی ہے لیکن اس سے پہلے بابا نے اپنے معمول کے دنوں میں سینکڑوں فلاحی سکیمیں اور پروگرام چلا رکھے تھے۔ ان کے مریدوں کی تعداد کروڑوں میں بتائی جاتی ہے۔
ان کے حامیوں کا تعلق پنجاب ،ہریانہ ، راجستھان اور اتر پردیش کے دلت اور دبے کچلے غریب لوگوں سے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں روایتی مذاہب اور معاشرے میں میں برابری کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور جنہیں روز مرہ کی زندگی میں تفریق اور تحقیر کا سامنا ہوتا ہے۔ باباؤں کے ڈیرے اور آشرم ان دبے کچلے لوگوں کو بھائی چارے ، محبت اور فلاحی کاموں سے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
بابا کی حمیات میں جو لوگ مارے گئے وہ ریپ کے بھیانک جرم کی حمایت نہیں کرتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بابا بے قصور ہیں۔ انہیں گرمیت رام رحیم کے ساتھ مجرم سمجھنا غلط ہوگا۔ لیکن ملک کا میڈیا انیں اسی طرح پیش کر رہا تھا جیسے یہ ہزاروں حامی بھی مجرم ہوں۔
جو 38 لوگ مارے گئے وہ دلت ، غریب اور ، کمزور طبقے کے تھے۔ ان کی ہلاکت پر پر انڈیا میں کسی کو دکھ نہیں ہوا۔ ان کی موت پر کسی چینل پر بحث نہین ہوئی۔
وہ کون تھے کہاں سے آئے تھے۔ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کوئی جاننا چاہتا ہے۔ انڈین معاشرے پر اعلی ذاتوں اور طبقے کی مکمل اجارہ داری ہے۔
گرمیت رام رحیم کے سزا کے خلاف ہنگامےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
درد اور اخلاقیات کا تعین بھی یہی طبقہ کرتا ہے۔ کبھی قوم پرستی کے نام پرتو کبھی مذہب کی شکل میں ہر جگہ یہی طبقہ انڈین معاشرے کا فیصلہ کر رہا ہے۔ ملک اس وقت دو خانوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کمزور ہیں۔ جن کے پاس سیاسی طاقت نہیں ہے۔ جو بے بس ہیں اور جو معاشرے میں برابری کا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر کر رہے ہیں۔
دوسری جانب وہ طبقہ ہے جسے سب کچھ حاصل ہے اور جو اپنے مفادات کے تحقظ کے لیے ایسے نظام کا حامی ہے جس میں دلتوں ، قبائلیوں ، غریب اور کمزور طبقے کی ضرورت تو ہے لیکن ان کے لیے کوئی درد نہیں ہے۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کا معاشرہ روایتی طور پر دلتوں، اور کمزور طبقے پر جبر اور تشدد پر نہ صرف خاموش رہا ہے بلکہ اسے سماج کی قبولیت بھی حاصل ہے۔
ان کا خیال ہے کہ یہ معاشرے میں طبقاتی کمشمکش اور ذات پات کے ٹکڑاؤ کے بحران کی علامت ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے ملک کا دبا ہوا طبقہ اب زیادہ شدت سے مزاحمت کر رہا ہے۔

متعلقہ عنوانات




No comments:

Post a Comment