Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-41750715
حراست کے دوران ’چمڑے کے پٹّے سے مارا جاتا تھا‘
رواں سال کے دوران لاپتہ ہونے والے پاکستانی بلاگر عاصم سعید جنھوں نے اس وقت برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے، الزام لگایا ہے کہ ان پر دورانِ گمشدگی ’سرکاری خفیہ ایجنسی‘ نے تشدد کیا۔
عاصم سعید ان پانچ سوشل میڈیا کارکنوں میں شامل تھے جو رواں سال جنوری میں لاپتہ ہو گئے تھے تاہم انھیں چند ہفتوں بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔
پاکستان فوج اس حوالے سے بارہا کہہ چکی تھی کہ اس کا اس سارے معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عاصم سعید نے بتایا کہ وہ اپنی گمشدگی سے قبل ’موچی‘ نامی ایک فیس بک صفحہ چلاتے تھے جو ان کے مطابق پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ پاکستان بننے کے بعد سے وہ ہم پر بالواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانی کرتے رہے ہیں۔`
واضح رہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں تقریباً نصف سالوں میں پاکستانی فوج نے حکومت کی ہے۔
عاصم سعید سنگاپور میں ملازمت کرتے تھے جب وہ جنوری میں اپنے بھائی کی شادی کے لیے پاکستان آئے تھے جہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس چند افراد ان کے گھر آئے اور انھیں گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ان افراد نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟۔ میں نے کہا مجھے نہیں خبر، اس کے بعد انھوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا اور کہا چلو کچھ بات موچی کے بارے میں کریں۔‘
عاصم سعید نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ ان سے ان کے تمام ای میل اکاؤنٹس اور موبائل فونز کے پاسورڈ دینے کو کہا گیا اور پھر ان کے مطابق انھیں ایک خفیہ مقام پر لے جایا گیا جہاں ان کے ساتھ ان کے بقول کسی ’مذہبی شدت پسند‘ کو رکھا گیا تھا۔
پاکستان کی انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گذشتہ سال 2016 میں 728 افراد جبری طور پر ’لاپتہ‘ کیے گئے۔ پاکستان کی خفیہ اداروں پر سماجی اور نسلی قوم پرست کارکنوں سمیت جہادی گروپوں کے ساتھ تعلق کے الزام میں افراد کو ’لاپتہ‘ کرنے کا الزام ہے۔
ان لاپتہ ہونے والے افراد میں سے بہت کم ہی واپس آنے کے بعد حراست کے حالات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ عاصم سعید نے اس حوالے سے بتایا کہ انھیں چمڑے کے پٹّے سے مارا جاتا تھا۔
’مجھے کچھ یاد نہیں، میں گر گیا تھا اور کسی نے میری گردن اپنی ٹانگوں میں پکڑ رکھی تھی، اور دوسرا شخص مجھے مسلسل مارے جا رہا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کی ’کمر اور بازووں پر جامنی، نیلے اور کالے نشان پڑ گئے تھے۔‘
ایک اور قید خانے کے بارے میں عاصم سعید نے بتایا کہ ان کے خیال میں وہ دارالحکومت اسلام آباد کے قریب تھا جہاں ان کا پولی گراف ٹیسٹ کیا گیا اور اس کے دوران ان سے مسلسل انڈین خفیہ ادارے را سے تعلق کے بارے میں سوال کیا جاتا رہا۔
انھوں نے ان سوالات کے بارے میں بتایا: ’کیا آپ کبھی بھی را سے منسلک رہے ہیں؟ آپ کا رابطہ کار کون تھا؟ کیا کبھی را سے پیسے وصول کیے؟
عاصم سعید کا کہنا تھا کہ انھوں نے کسی بھی غیر ملکی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلق سے انکار کیا۔ ان کے مطابق تفتیش کاروں نے ان کے فیس بک پوسٹس کا بھی جائزہ لیا اور ان سے پوچھا کہ ’وہ فوج کے اتنا خلاف کیوں ہیں؟‘۔
No comments:
Post a Comment