Source: http://www.bbc.com/urdu/science-41792972
سعودی عرب میں ہزاروں سال قدیم ’دروازوں‘ کی دریافت
آسٹریلیا کے تحقیق دان نے گوگل ارتھ کی مدد سے سعودی عرب کے صحرا میں پتھر سے تعمیر ہوئے 400 پراسرار ’دروازے‘ دریافت کیے ہیں۔
ڈیوڈ کینیڈی اور ان کی ٹیم نے کئی دہائیوں تک مشرق وسطیٰ میں آثار قدیمہ پر کام کیا ہے۔
ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنے میں 'دروازوں' کی مانند ہیں اور یہ ہاتھ سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اندازے کے مطابق ان 'دروازوں' کو دو ہزار سے نو ہزار سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔
تاہم انھوں نے کہا کہ اس دروازوں کا مقصد کیا تھا اس بات کو معلوم کرنا ہے۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں کام کرنے والے ڈیوڈ کینیڈی نے کہا 'آپ اگر زمین پر موجود رہ کر ان کو تلاش کرتے ہیں تو ان کے آثار نہیں ملتے۔ لیکن جونہی آپ چند سو فٹ بلندی سے اس جگہ کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ صاف ظاہر ہوتے ہیں۔'
ڈیوڈ نے کہا کہ 40 سال سے اس خطے میں کام کرنے کے باوجود وہ سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر میں گیٹ کو دیکھ کر پہلے دنگ رہ گئے کیونکہ یہ نہایت ہی دور افتادہ علاقے میں تھا اور یہ ایک ایسی جگہ پر تھا جہاں قدیم آتش فشاں واقع تھی۔
'میں ان کو گیٹ کہتا ہوں کیونکہ جب اس سٹرکچر کو آپ اوپر سے دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے دو پوسٹوں کے درمیان گیٹ سیدھا پڑا ہے اور دونوں پوسٹوں کے درمیان لمبی سلاخیں ہیں۔ یہ ایسا سٹرکچر نہیں لگتا جہاں لوگ رہتے ہوں گے یا پھر جانوروں کو پکڑنے کے لیے پنجرے ہوں یا پھر لاشوں کو ٹھکانے لگانے کی جگہ ہو۔ یہ ابھی دریافت کرنا باقی ہے کہ اس جگہ کا مقصد کیا تھا۔'
ڈیوڈ کینیڈی کی یہ تحقیق اریبیئن آرکیولوجی جرنل میں شائع ہو گی۔
ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ اس سٹرکچر کو بنانے والوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن اندازہ ہے کہ یہ آج کل کے بدوؤں کے آباؤ اجداد ہوں گے۔
ڈیوڈ نے بتایا کہ ان کی یہ دریافت ایک اتفاق تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایک سعودی ڈاکٹر اس علاقے کے آثار قدیمہ کے بارے میں مزید معلومات چاہتا تھا اور اس نے رابطہ کیا۔
ڈیوڈ نے بتایا سعودی ڈاکٹر نے کہا 'میں اپنے ملک کے آثار قدیمہ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ میں نے گوگل ارتھ پر اس علاقے میں عجیب قسم کے سٹرکچر دیکھے ہیں جو آتش فشاں کے بہت قریب واقع ہیں۔'
ڈیوڈ نے مزید بتایا کہ سعودی ڈاکٹر نے ڈیوڈ کو اس علاقے کے نقاط بھیجے اور 'جب میں نے یہ جگہ دیکھی تو میں دنگ رہ گیا۔'.
No comments:
Post a Comment